وَما سُعادُ غَداةَ البَينِ إِذ رَحَلوا
إِلّا أَغَنُّ غَضيضُ الطَرفِ مَكحولُ
جدائی کی صبح کو جب سعاد (محبوبہ) نے کوچ کیا تو اس کی آواز سریلی، نگاہ نیچی اور آنکھیں سرمگیں تھیں۔
هَيفاءُ مُقبِلَةً عَجزاءُ مُدبِرَةً
لا يُشتَكى قِصَرٌ مِنها وَلا طولُ
وہ سامنے آتے ہوئے پتلی کمر والی اور پلٹتے وقت بھرے ہوئے سرین والی ہے۔ نہ اس کے پست قد ہونے کی شکایت کی جا سکتی ہے نہ دراز ہونے کی۔
تَجلو عَوارِضَ ذي ظَلمٍ إِذا اِبتَسَمَت
كَأَنَّهُ مُنهَلٌ بِالراحِ مَعلولُ
جب وہ مسکراتی ہے تو اس کے آبدار دنداں ایسے ظاہر ہوتے ہیں گویا وہ اولاً شراب سے اور پھر پانی سے سیراب کیے گئے ہیں۔
قصیدۂ بانت سعاد
شاعر: حضرت کعب بن زہیرؓ
ترجمہ: سید کلیم اللہ حسینی