اردو لکھنے والوں نے ہمارے عہد میں سب سے بڑا کام یہ کیا ہے کہ لکھے ہوئے کا اعتبار اٹھا دیا ہے۔
قوالی کا لفظ قول سے نکلا ہے جو عربی زبان میں بات کو کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کا مطلب سخن سمجھنا چاہیے جس میں شاعرانہ بات یا شاعری کا مفہوم بھی شامل ہے۔ موسیقی کی زیادہ تر اصناف میں بول اتنی اہمیت نہیں رکھتے جتنی دھن یا گائیکی۔ قوالی کا معاملہ البتہ جدا ہے۔ اس میں قول یا سخن بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ موسیقی محض برائے بیت ہوتی ہے۔ اس لیے اگلے وقتوں میں مثل تھی کہ بگڑا گویا قوال اور بگڑا شاعر مرثیہ گو۔
قوالی میں شاعری کی اس اہمیت کے پیشِ نظر میرا خیال ہے کہ شعری ذوق کی تربیت اور اصلاح کے لیے اس سے بہتر کوئی صنفِ موسیقی نہیں۔ قوالی کے شائقین کی سخن فہمی زیادہ تر قابلِ رشک ہی دیکھی گئی ہے۔ ہمارے عہد میں البتہ یہ صنف اس عروج پر نہیں رہی جو اسے چند دہائیاں پیشتر حاصل تھا۔ اچھے قوالوں کے پرانے شہکار تلاش کر کے سننا ادب کے طلبہ کو نہ صرف ہماری شعری اور تہذیبی روایت سے آشنا کر سکتا ہے بلکہ زندگی اور ادب سے متعلق ان باریک نکات کا شعور بھی بخش سکتا ہے جو بہتوں کو عمر بھر کے مطالعے اور مشاہدے سے نصیب نہیں ہوتے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 20 فروری 2022ء
- ربط