قرآنِ مجید کے شروع کی آیت ہے:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
لوگ اس کا ترجمہ کیا کرتے ہیں کہ سب تعریف یا تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو دو جہانوں کا مالک ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ایک نیا اور درست تر ترجمہ کیا اور حق ادا کر دیا۔ ان کا ترجمہ حسبِ ذیل ہے:
تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے۔
بات یہی ہے۔ تعریف کی سزاوار ہے ہی ایک ذات۔ کم یا زیادہ یا بعض یا تمام کا سوال ہی نہیں۔ تعریف اس کی ہے جو کردگار ہے۔
میں اچھا شعر کہوں اور اپنے کمپیوٹر پر ٹائپ کر کے آپ کے آگے رکھ دوں تو آپ مجھے داد دیں گے یا میرے کمپیوٹر کو؟
تماشا گر پتلیاں نچائے تو مدحت یا ملامت کی سزاوار پتلیاں نہیں ہوتیں۔ تماشا گر ہوتا ہے۔ دھوکا تب لگتا ہے جب پتلیاں جیتی جاگتی، چلتی پھرتی بھی معلوم ہوں۔ مگر تب پتلیوں پر غش کھانے کی بجائے تماشا گر کو اور زیادہ داد دینی چاہیے۔
برادرانِ یوسف نے یوسفؑ کو بیچ ڈالا اور وہ جا کر عزیزِ مصر کے حرم پر مختار ہو گئے۔ زلیخا نے تہمت لگائی اور زندان میں ڈال دیے گئے۔ ایک وقت گزرا اور عزیزِ مصر کے آقا فرعون نے انھیں کل مصر پر حاکم کر دیا۔ آپ نے پلٹ کے زلیخا سے مواخذہ نہیں کیا کہ تو نے جھوٹ کیوں باندھا مجھ پر؟ طنز تک نہ فرمایا کہ دیکھ اے عورت، جو تو نے چھیننا چاہا میرے مالک نے اس سے ہزار گنا مجھے عطا کر دیا۔
ایک وقت گزرا اور برادرانِ یوسفؑ کشکول تھامے اسی یوسفؑ کے سامنے آ کھڑے ہوئے جسے انھوں نے بیچ کھایا تھا۔ بات کھلی تو ڈرے کہ اب تو یوسفؑ بدلہ لے گا۔ آپ نے فرمایا، ڈرو نہیں۔ تم نے کچھ نہیں کیا۔ یہ تو خدا کا منصوبہ تھا کہ یعقوبؑ کی آل کو قحط میں جیتا رکھے جس کے لیے اس نے مجھے مصر پہنچایا اور اقتدار بخشا۔ تم تو محض آلۂِ کار تھے۔ تم سے کس بات کا بدلہ؟
ایک وقت گزرا اور موسیٰؑ فرعون کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ کہا کہ یعقوبؑ کی آل پر تیرے ملک والے ظلم ڈھانے لگے ہیں۔ انھیں چھوڑ تاکہ یہ اپنے باپ دادا کی سرزمین کو لوٹ جائیں اور اپنے مالک کی بندگی کریں۔ فرعون اکڑ گیا۔ کلیم اللہؑ نے اللہ کے امر سے پےدرپے نشانات دکھائے اور اسے عاجز کرنا چاہا۔ وہ اور سخت ہو گیا۔ مگر اللہ کا کلام شاہد ہے کہ آپ نے اسے ملعون و مطعون نہ کیا۔ ذاتی رنجش یا پرخاش پیدا نہ ہونے دی۔ مقابلے پر تن کر کھڑے نہ ہوئے کہ میرے ساتھ اللہ ہے۔ تو کون ہوتا ہے مجھے روکنے والا؟ بلکہ چپکے سے باری تعالیٰ کے حکم کے موافق اپنی قوم کو لے کر بیابان کی راہ لی۔
ایک وقت گزرا اور عیسیٰؑ نے کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے اپنے حواریوں سے کہا، آج جو میرے ساتھ طباق میں ہاتھ ڈالتے ہیں ان میں سے ایک مجھے پکڑوا دے گا۔ لوگ سراسیمہ ہو گئے۔ آپ نے اس گناہگار کو گریبان سے نہیں پکڑا۔ ملامت نہیں کی۔ پوچھا نہیں کہ میں نے تیرا کیا بگاڑا؟ تجھے کیا نقصان پہنچایا؟ بلکہ فرمایا، ابنِ آدم کے حق میں تو جو لکھا ہے پورا ہوتا ہی ہے مگر افسوس ہے اس شخص پر جو اس کا وسیلہ بنتا ہے۔
پھر ایک وقت گزرا اور محمدِ عربیؐ آلِ اسماعیل میں مبعوث ہوئے۔ ہمارے ہاں چونکہ قرآن کے سوا بھی روایات مستند سمجھی جاتی ہیں جنھیں لوگ اپنے اپنے مطلب نکالنے کے لیے استعمال کرتے رہتے ہیں اس لیے نبیِ کریمؐ کی ذاتِ با برکات کی نسبت کچھ جگہوں پر انتقام یا سختی کا سا تاثر لوگوں کے ہاں پیدا ہو جاتا ہے۔ معترضین کی انگشت نمائیوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ لیکن خاص کلامِ الٰہی کو دیکھا جائے تو وہ آپ کے نہایت نرم خو بلکہ رحمت اللعالمین ہونے پر گواہ ہے اور میرے علم کے مطابق کہیں یہ اشارہ تک نہیں دیتا کہ آپؐ نے کسی سے سے اس کے گناہ یا زیادتی کا مواخذہ فرمایا ہو۔
فَبِمَا رَحْـمَةٍ مِّنَ اللّـٰهِ لِنْتَ لَـهُـمْ ۖ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْـهُـمْ وَاسْتَغْفِرْ لَـهُـمْ وَشَاوِرْهُـمْ فِى الْاَمْرِ ۖ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّـٰهِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ (آلِ عمران – 159)
پھر اللہ کی رحمت کے سبب سے تو ان کے لیے نرم ہو گیا، اور اگر تو تند خو اور سخت دل ہوتا تو البتہ تیرے گرد سے بھاگ جاتے، پس انہیں معاف کردے اور ان کے واسطے بخشش مانگ اور کام میں ان سے مشورہ لیا کر، پھر جب تو اس کام کا ارادہ کر چکا تو اللہ پر بھروسہ کر، بے شک اللہ توکل کرنے والے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔
الغرض، تورات، زبور، صحف الانبیا، انجیل، قرآن، سب جگہوں پر اللہ کے پاک اور برگزیدہ بندے کسی انسان سے الجھتے نہیں دکھائی دیتے۔ کسی سے بدلہ لیتے معلوم نہیں ہوتے۔ کسی پر اپنی فوقیت جتاتے نظر نہیں آتے حالانکہ ان کی پشت پر کائنات کا رب کھڑا ہے۔ کسی سے حق اور اصول کے نام پر لڑتے جھگڑتے نہیں (الا یہ کہ ان پر خدا کی زمین تنگ کر دی جائےاور وہ اللہ کی جانب سے حکم ہو جانے کے بعد اپنے وطن میں امن سے بس رہنے کی خاطر قتال کریں۔ یہ حکم تورات میں بھی ہے اور قرآن میں بھی۔ اور یہی وہ خاص لڑائی یا جہاد ہے جس کے صاف اور صریح حکم کا من چاہا استعمال کر کے یار لوگ دنیا کو جہنم بنانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ موحد تھے۔ اپنے خدا کو کردگارِ یکتا اور فاعلِ مطلق سمجھنے والے۔ کسی اور کو مختار سمجھتے تو اس سے الجھتے بھی۔ یہاں تو عرفان اور عطا یہی تھی کہ مخلوق مایا نظر آنے لگے۔ پھر کیا تعلق اور کیسا حساب کتاب۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری!
ہمارے ایک مسیحی دوست بڑی پتے کی بات کہتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ آخرت ہی میں نہیں بلکہ دنیا میں بھی بندے کی معاملت براہِ راست خدا کے ساتھ ہے۔ اگر بیچ میں کوئی تیسرا آتا ہے تو وہ شیطان ہے۔ توحید یہی ہے۔ یعنی کائنات میں اپنے اور اپنے رب کے سوا باقی ہر شے کو اعتباری مان لیا جائے۔ دنیا محض عابد اور معبود پر مشتمل نظر آنے لگے۔ کوئی پتھر اچھالے تو غضب ناک ہو کر ٹوٹ پڑنے کی بجائے یہ تدبر کیا جائے کہ معبود نے عابد کے یہ چٹکی کیوں لی۔ کوئی پھول نچھاور کرے تو اس پر فدا ہونے کی بجائے یہ باور کیا جائے کہ مالک کو مملوک کی کون سی ادا پسند آئی جو یہ انعام ہوا۔ جیا جائےتو یاد رکھا جائے کہ جلانے والا کون ہے۔ مرنا پڑے تو دھیان رہے کہ موت کا محرک اس کے امر کے سوا کوئی نہیں۔ وہ زہر بھی نہیں جو آپ کے رگ و پے میں اتار دیا گیا ہے۔ وہ دشمنِ جاں بھی نہیں جس نے اپنے تئیں آپ سے انتقام لینا چاہا۔ وہ اجل بھی نہیں جو آپ سے زیادہ عمر رسیدوں، زیادہ گنہگاروں، زیادہ حقدراوں کو چھوڑ کر عین آپ کے سر پر آن کھڑی ہوئی!
شرک کہتے ہیں خدا کے سوا کسی اور کی عبادت کرنے کو۔ تعریف تو یہ بالکل درست ہے۔ مگر امتِ مرحوم نے بھی اممِ سابقہ کی طرح کلام کو اس کے محل سے ہٹا کر عین ابلیسی اہداف کی تکمیل کا وسیلہ بنا دیا ہے۔ یعنی ہم نے تعریف تو جوں کی توں رہنے دی مگر بیچ میں آنکھ بچا کر عبادت کا مفہوم الٹا دیا۔ عبد غلام کو کہتے ہیں۔ بےلوث اور بےجزا نوکری کرنے والا۔ عمر بھر در پر لوٹنے والا۔ جینے سے مرنے تک تمام اختیارات مالک کو سونپ دینے والا۔ حکم بجا لانے والا۔ ہمیں شیطان نے خدا جانے کیا انگلی لگائی کہ ہم نے عبادت کو رکوع و سجود کا مترادف قرار دے دیا۔ بس پھر کیا تھا؟ دھڑا دھڑ سجدے ٹھونکے جانے لگے۔ اذانوں کی بلند بانگی نے کلمۂِ خیر تک کہنے اور سننے کی تاب نہ چھوڑی۔ لوگ ایک دوسرے کی آنکھوں میں دھول جھونک کر مساجد میں آن براجے۔ ایک خدا کی بندگی کے نام پر ہر منبر پر ایک آقا متمکن ہو گیا جس نے مخلوقِ خدا کے جینے مرنے کے اختیارات سنبھال لیے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون!
یہ شرک کی خاص پہچان ہے۔ یعنی مخلوق کی زندگی کے فیصلے خالق کی بجائے کوئی اور کرنے لگے۔ مملوک مالک کی بجائے غیر کے اشاروں پر ناچنے لگے۔ ہر نبی، ہر رسول، ہر ولی، ہر مصلح نے اسی کے خلاف متنبہ کیا اور شیطان نے اپنے پیمان کے موافق اسی سے ہمیں بھٹکانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ باری تعالیٰ نے قرآن میں لکھ کر رکھ دیا ہے کہ خدا کی پاکی بیان کرنے کو تو فرشتے کافی تھے۔ انھوں نے عرض بھی کی تھی کہ آدم کی ضرورت ہی کیا ہے۔ مگر نوعِ انسانی کو تو اس نے بندگی کے لیے خلق کیا ہے۔ زمین پر اپنا نائب بنایا ہے۔ ان کاموں کی ذمہ داریاں عائد کی ہیں جو فرشتوں یا دوسری مخلوقات کے نہیں بلکہ اس کے اپنے کرنے کے تھے۔ نیابتِ خداوندی یا خلافتِ الٰہی یہی تو ہے کہ انسان روئے ارض پر اپنے پاک اور بزرگ خداوند کی جگہ سنبھال لے۔ اور یہ کام سچی غلامی اور تابعِ فرمانی کے بغیر کوئی نائب یا خلیفہ نہیں کر سکتا۔ لہٰذا بندگی یا عبادت تسبیح سے بالکل مختلف چیز ہے۔ یہ تو نوکری ہے۔ غلامی ہے۔ تابع فرمانی ہے۔ اطاعت ہے۔ سجدے اور رکوع عبادت ہوتے تو شاید ایک ابلیس ہی تمام بنی آدم پر بھاری تھا۔
عبادت چاکری کا نام ہے۔ بندگی اور غلامی کا۔ زندگی مالک کی خدمت میں گزارنے کا۔ وہ کہے یوں کرو تو یوں کرو۔ وہ کہے یوں نہ کرو تو یوں نہ کرو۔ بس!
شرک سب سے بڑا گناہ اس لیے ہے کہ آپ مالک بدل لیتے ہیں۔ جس نے آپ کو تخلیق کیا، جو آپ کے رگ پٹھے سے آپ سے بھی زیادہ واقف ہے، جس سے زیادہ آپ کا بھلا چاہنے والا کوئی نہیں، اسے چھوڑ کر آپ ایک اپنے جیسے انسان یا اپنے سے بھی کم تر کنکر پتھر یا ٹیلے ٹبے کو اپنا آپ سونپ دیتے ہیں۔ پھر وہ اور اس کے مجاور جیسا آپ کو چاہتے ہیں چلاتے ہیں۔ جس نوکری کے لائق سمجھتے ہیں آپ سے لیتے ہیں۔ جس بھیک کا حقدار سمجھتے ہیں آپ پر اچھال دیتے ہیں۔ ایک حقیر، بےبضاعت، اسفل سافلین انسان یا انسانوں کا گروہ آپ کا مالک بن جاتا ہے۔ کہتا ہے کہ یوں کرو تو آپ یوں کرتے ہیں۔ کہتا ہے کہ یوں نہ کرو تو آپ یوں نہیں کرتے۔ کہتا ہے کہ یہ نیکی ہے تو آپ جت جاتے ہیں۔ کہتا ہے کہ یہ بدی ہے تو آپ ہاتھ جوڑتے ہیں۔ کہتا ہے کہ تم ہدایت یافتہ ہو تو آپ ہوا میں اڑنے لگتے ہیں۔ کہتا ہے کہ تم گمراہ ہو تو آپ کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ کہتا ہے کہ جنت یوں ہے تو آپ کہتے ہیں سبحان اللہ۔ کہتا ہے کہ جہنم ووں ہے تو آپ کہتے ہیں معاذ اللہ۔ کہتا ہے کہ اللہ یہ کہتا ہے تو آپ کہتے ہیں صدق اللہ العلی العظیم۔ کہتا ہے کہ شیطان یہ کرتا ہے تو آپ کہتے ہیں آمنا و صدقنا۔ الغرض آپ ہی کی طرح گندے پانی کی ایک حقیر بوند سے لوتھڑا بن کر نکلنے والا ایک ناقص العلم، ظلوم و جہول اور خسارے میں جینے والا مٹی کا پتلا جسے آج نہیں تو کل مٹی کھا پی کر فنا کر دینے والی ہے، آپ کی زندگی پر آپ کے خیرسگال اور رحیم و کریم خدا کی بجائے خدائی کرنے لگتا ہے۔ آپ بظاہر مسلمان کہلاتے ہیں، وضو کے پانیوں سے گلیاں ڈبو دیتے ہیں، رٹی رٹائی عربی کے لحن سے مرعوب ہوتے اور کرتے رہتے ہیں، سجدے کر کر کے ماتھے کالے کر لیتے ہیں مگر تمام عمر ان کی نوکری، غلامی، بندگی یا صاف لفظوں میں عبادت میں گزار دیتے ہیں جو خدا نہ تھے۔ خدا تو خیر ایک طرف رہا، اس کے بندے کے لیے بھی بھلا اس سے زیادہ غیرت کا مقام کوئی ہے؟ کیا یہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ نہیں؟ کیا ہر گناہ درحقیقت اسی گناہ کی کوکھ سے نہیں نکلتا کہ خدا کی بجائے کسی اور کو خدائی کی مسند پر بٹھا کر اس کی ماننی شروع کر دی جائے؟ پھر اس سے بڑی سزا کیا ہو گی اس آدم کے لیے جسے فرشتوں نے سجدہ کیا تھا کہ وہ اپنا حقیقی بھلا بھلا چاہنے اور کھول کھول کر بتانے والے خالق و مالک کی بجائے نقصان کرنے اور ہلاکت میں ڈالنے والی اپنے جیسی کم ظرف اور گمراہ مخلوق کی منشا پوری کرنے میں زندگی غارت کر دے؟ کوئی نہیں۔ کیونکہ بےشک اس سے بڑا گناہ کوئی نہیں۔
ظاہر پرست لوگوں کا ایک بڑا طبقہ اس بات پر جھگڑتا رہتا ہے کہ فلاں کو سجدہ نہ کرو۔ فلاں کے مزار پر مت جاؤ۔ فلاں کی نیاز مت کھاؤ۔ وغیرہ وغیرہ۔ اسے وہ شرک سمجھتے ہیں۔ کیونکہ وہ عبادت بھی اٹھک بیٹھک اور بسم اللہ اعوذ باللہ تک محدود خیال کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کی توحید اپنے اندر ایک قسم کی اکڑ، نخوت اور رعونت پیدا کر لینے کے بعد مکمل ہو جاتی ہے۔ مگر جو عبادت باری تعالیٰ نے تعلیم فرمائی ہے اور جس شرک کی اس نے مناہی کی ہے وہ چیزے دگر است۔ وہ عبادت یہ ہے کہ میں اس دنیا میں ایک نوکری اور غلامی کی غرض سے بھیجا گیا ہوں۔ میری تمام زندگی میں میرے ساتھ جو بھی اچھا یا برا ہوتا ہے اس کا محرک اور مختار میرے خدائے واحد و یکتا کے سوا کوئی نہیں۔ میں کسی انسان، کسی مخلوق، کسی وجود کو جواب دہ نہیں اور کسی کو مجھ پر نفع یا نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں مگر اس معبود کو جس نے اپنی عبادت کے لیے مجھے خلق فرمایا ہے۔ شرک یہ ہے کہ میں جوتے کے تسمے تک کے لیے خود کو یا کسی اور کو مختار جانوں۔
پھر وہی بات۔ مومن اور موحد کے لیے کائنات دو وجودوں پر مشتمل ہے۔ ایک وجود معبود کا ہے جس نے خلق کیا۔ دوسرا عابد کا جسے تخلیق کیا گیا۔ توحید یہ ہے کہ ان کے سوا کوئی وجود اور کوئی مختار آپ کو نظر آنا بند ہو جائے۔ عبادت یہ ہے کہ غلام زندگی کے ایک ایک لمحے کو ان احکام کے مطابق گزارنے کی کوشش کرے جو آقا نے دیے ہیں۔ دن میں پانچ بار اس کی پاکی اور بزرگی بیان کرنے کو تسبیح و تحمید کہتے ہیں جو فرشتے ازل سے انتھک کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ یہی عبادت ہے تو پھر رہ گئے ہم۔ ان کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر عبادت مالک کی غلامی میں زندگی گزار دینے اور اس کے حکم پر وہ کام کرنے کا نام ہے جو فرشتے نہیں کیا کرتے تو پھر شرک بھی سر ٹیکنے اور اٹھانے کے علاوہ کچھ ہے۔