گل کے ہونے کی توقع پہ جیے بیٹھی ہے
ہر کلی جان کو مٹھی میں لیے بیٹھی ہے
کبھی صیاد کا کھٹکا ہے کبھی خوفِ خزاں
بلبل اب جان ہتھیلی پہ لیے بیٹھی ہے
تیر و شمشیر سے بڑھ کر ہے تری ترچھی نگاہ
سیکڑوں عاشقوں کا خون کیے بیٹھی ہے
تیرے رخسار سے تشبیہ اسے دوں کیوں کر
شمع تو چربی کو آنکھوں میں دیے بیٹھی ہے
تشنہ لب کیوں رہے اے ساقئ کوثر چنداؔ
یہ ترے جامِ محبت کو پیے بیٹھی ہے