﷽
دیباچہ
ہندوستانیوں میں ایجاد کا مادہ ہی نہیں۔ غلط؟ تقلید اور نقل میں کمال ہے۔ نیم غلط! پہلی بات اس لیے غلط کہ ہمارے اسلاف بڑی بڑی باتوں کے موجد ہوئے ہیں! دعویٰ بے دلیل بھی کبھی ثابت تسلیم کیا ہے!! دوسری بات نیم غلط یوں ہوئی کہ ہم نے تقلید اور نقل میں ضرورت بے ضرورت کا کبھی بھول کے بھی لحاظ نہیں کیا۔
ایک میرے عنایت فرما چمچہ کانٹے سے شریفہ کھاتے تھے۔ ایک اور جنٹلمین کے خاصہ پر صرف دال روٹی کے ساتھ چھری کانٹا ضرور میز پر لگایا جاتا تھا۔ چھری زنگ آلود، کانٹا میلا سیاہ۔ ایک برہمن عنایت فرما کو میز پر لکھنے کا شوق تھا۔ مگر بجٹ میں میز خریدنے کی گنجائش کہیں سے نہ نکلی تو چیڑ کا صندوق اُلٹ لیا اور دھوتی اڑھا دی۔ سامان آرائش میں ایک بیل کی گھنٹی (کال بل)، دو عد لوہے کے قلم اور بہت سیاہی پیے ہوئے جاذب کا ایک ورق۔ ہاں بھول گیا ایک تاسدانی بھی تھی۔
ایک فیشن ایبل افسر نے یورپین معاشرت میں کمال سلیقہ حاصل کر لیا تھا مگر رنگ کالا تھا اور بہت کالا۔ ہر طرح کے صابن نے جب جواب دیا تو بے چارے مہینوں بلکہ برسوں آدھا پیٹ کھانا کھاتے رہے تاکہ نقاہت سے چہرے پر کچھ تو زردی آ جائے۔ لباس میں جس قدر تقلید کی مٹی پلید ہوئی ہے اس کا اندازہ اسی سے ہوتا ہے کہ گرمیوں میں ڈبل ٹوئیڈ کا کوٹ پتلون پہنا اور سر پر لگائی ہیٹ۔ بس کئی آدمی سڑی ہو گئے۔ دماغ پر انجرے چڑھ جانا دل لگی نہیں ہے۔
اس سے بھی بڑھ کے کچے گھڑے کی جو چڑھتی ہے تو پردے نا معقول پر اتارے ہو گئے۔ بیویوں کو باہر نکالو۔ بہنوں کو یاروں([1]) کے ساتھ پبلک گارڈن جانے دو۔ بیٹیوں کو دوستوں کے ساتھ تھیٹر بھیج دو اور پھر دیکھو کیسا بھیروں ناچتا ہے۔ تہذیب اور تقلیدی تہذیب کا اس سے زیادہ کھرا مال ولایت سے آج تک ہندوستان میں ایک نہیں آیا۔
حُسن معاشرت کی تقلید اور نقل تو یوں ہوئی۔ لیاقت کے دریا الگ بہا دیے گئے۔ یورپ میں نیچرل شاعری ہے۔ ہم نے بھی مدار کے درخت اور دہاتی دوشیزہ لڑکی اور برسات کا حال نیچرل نظم کیا ہے۔ یس عین میں مدار کا درخت سامنے کھڑا ہے اور دوشیزہ لڑکی گوبر کی ٹوکری لا رہی ہے اور پانی تو برس جانے میں گفتگو ہی نہیں۔ ذری اور گرمی چڑھی تو ناول لکھے اور اتنے لکھے اتنے لکھے کہ اب ان کی انگیٹھیاں سلگیں اور پنساری جدا نوش جاں فرمائیں تب بھی دو چار کرور برس تک چکنے والے نہیں۔ ناول کے ساتھ سوانح عمریوں کا بم جو پھوٹتا ہے تو مجہول سے مجہول اور گمنام سے گمنام آدمی کو بھی نہ چھوڑا۔
میں نے کہا کہ یورپی معاشرت کو تو مجھے سلیقہ قیامت تک نہ آئے گا۔ مگر لکھا پڑھا ہوں۔ بس کچھ مضامین اخباروں میں دے دیے۔ نیچرل نظم میں اخبار اودھ پنچ میں شائع ہو چکی ہے۔ ایک ناول لکھ ڈالا جس کو نشتر کہتے ہیں۔ سوانح عمری کی کسر تھی مگر کوئی ڈھب پر نہ چڑھتا تھا۔ جتنے وائسراے آئے ان کے کسی کوچ مین کا حال معلوم نہ ہو سکا۔ نصیر الدین حیدر والی دھنیا مہری کا طرز انداز زندگی کچھ زیادہ اچھا نہ معلوم ہوا۔ ملا دو پیازہ کے حالات ایک اور ہی صاحب لے اُڑے۔ تان سین خدا جانے تھا بھی یا فرضی نام ہے۔ سور داس کا چکارہ بارہا سُنا مگر اُس کی زندگی اور خاندانی خصوصیات پر آج تک پردہ پڑا رہا۔ دکن میں ترسو نام کا ایک آسیب ہے جو سارے گھروں میں منڈلایا منڈلایا پھرتا ہے اور بلا مبالغہ ہر گھر میں وہ کچھ نہ کچھ تکلیف پہنچاتا رہتا ہے۔ مگر بد قسمتی سے اس کی اتنی حقیقت بھی نہ دریافت ہو سکی جتنی شیخ سدّو کی۔
الغرض میں نے راس کماری سے ہمالیہ کی چوٹیوں تک اور خلیج بنگالہ سے بحر عرب تک چپہ چپہ ڈھونڈھ مارا۔ کوئی نہ ملا جس کی سوانح عمری لکھتا۔ یورپین آلو فروش اور سور چرانے والے بہت دور ہیں، وہاں کون جائے۔ بڑا دلگیر ہوا کہ یہ تو بہت بُری ہوئی۔ ہماری نقالی میں بٹہ ہی لگا جاتا ہے، کیا منہ دکھائیں گے انگریزوں کا۔
خدا کا شکر ہے کہ ہیرو ملا اور لاجواب ملا۔ نامور، ذہین، عقیل، فخر روزگار، خاندانی، موجد، فلسفی، حکیم، شاعر، تمام خوبیوں اور بلند نامیوں کا انجن، مخزن۔ جس گھڑی “شیخ چلی” کا نام ذہن میں آیا، شادی مرگ کے قریب ہو گیا مگر ساتھ ہی ایک خیال اور آیا کہ جیسے کوئی چیز ہاتھ سے گر جاتی ہے، وہ یہ کہ ایسے نامور دانش مند کے ساتھ ایشیا والوں نے اگر بخل کیا ہے تو یورپ والوں نے کب چھوڑا ہوگا۔ یہ شخص تو اُن کے ڈھب کا تھا۔ اُس کے تجربات، اس کی قوت ایجاد، انتقالات ذہنی، سریع الفہمی، طباعی، نازک خیالی، لطافت طبعی سے سارے یورپ کو فائدہ پہنچنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس بدگمانی نے مجھے نچوڑ لیا اور سر دھو کے رہ گیا۔ انگریزی آتی نہیں کہ خود دیکھ لوں۔ ایک لائق انگریزی دان دوست سے قسم دے کے پوچھا اور خدا اُس کا بھلا کرے کہ مجھے اطمینان دلا دیا کہ شیخ کے حالات کسی اہل یورپ نے نہیں لکھے ہیں۔ جان آئی اور گویا لاکھوں پائے۔
میرے نزدیک اس دانش مند روزگار معنی آفریں شخص کے ساتھ اہل زمانہ نے واقعی بڑی بے مروتی اور بے انصافی کی ہے۔ غضب خدا کا آج تک اس کے حالات زندگی لکھنے کی طرف کسی نے توجہ تک نہ کی بلکہ چند مشہور مہمل نقلیں جو یقینا اتہام اور بہتان سے بھری ہیں، اس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔ حالانکہ اس کا رتبہ ان حکایتوں سے کہیں بلند تر تھا اور اس کے کارنامے اہل روزگار کے لیے دستور العمل قرار پانے کے قابل ہیں۔
شیخ چلی اپنے زمانے میں مشہور و معروف شخص تھا۔ افسوس اتنا ہی گمنامی کے غار میں پڑا ہوا ہے۔ اس کی سوانح عمری تو الگ رہی، پیدائش اور موت کی صحیح تاریخ کوئی نہیں بتا سکتا اور یہ صرف اہل زمانہ کی بے مروتی بے توجہی کا باعث ہے۔ ہر چند دنیا کے بہت سے نامور اسی طرح طاق نسیاں پر بٹھا دیے گئے اور ان کے تاریخی واقعات کروروں آدمیوں میں ایک بھی نہیں جانتا۔ چنانچہ جو سلوک شیخ کے ساتھ کیا گیا وہی لال بھجکڑ سے ہوا۔ ایشیائی مصنفین صرف اس عذر پر کہ ان کے ہاں اس قسم کی سوانح عمریاں لکھنے کا دستور ہی نہ تھا، کسی قدر معاف ہوسکتے ہیں۔ مگر اہل یورپ سے ہمیشہ یہ شکایت رہے گی کہ انھوں نے کیوں ایسے نامور آدمی کی طرف توجہ نہ فرمائی۔ کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ بجز اس کے کہ یہ فخر اس ناچیز کے حصے میں تھا ؎
این کار من ست و کار کس نیست
اندازہ اختیار کس نیست
میں نے شیخ کے حالات جمع کرنے میں معمولی سامانوں پر نہ بھروسا کیا، نہ اس کی ضرورت سمجھی۔ بلکہ جہاں تک میرے امکان میں تھا واقعات کی ترتیب محض تنقید اور درایت پر رکھی ہے۔ روایت سے جس قدر کام چل سکا وہ بہت تھوڑا تھا اور لازم ہو گیا کہ ایسی مہمل روایتوں پر درایت کی روشنی ڈالی جائے۔
الغرض حتی الامکان میں نے اس کے حالات زندگی کے ہر پہلو کو لیا ہے اور جہاں تک بن پڑا خاصی داد تحقیق دی ہے۔ با ایں ہمہ مجھے اطمینان نہیں کہ کل حالات میں دریافت کر سکا اور یہ محال بھی ہے کہ اتنے بڑے آدمی کے حالات زندگی اس قدر مختصر ہو نہیں سکتے اور محال عقل ہے کہ اس کے کارنامے سب کے سب محفوظ اور قلم بند ہو سکیں۔ تاہم جو کچھ ہے غنیمت ہے اور اہل روزگار کے لیے ایک مکمل دستور العمل ضرور سمجھنا چاہیے اور مجھے کبھی اس قدر ناز و فخر کا موقع نہ ملا ہوگا جیسا اس سوانح مفید کی ترکیب سے ہوا۔ یہ گنج شائیگاں ملک اور قوم کے لیے میری طرف سے مفت نذر ہے ؎
صد شکر کہ این نگارخانہ بس رنگ بہ نو بہار بستم بانگ قلمم درین شب تار از ہر چہ گذشت روے بر تاب خورشید گو ست اندرین کار می ریخت زخردہ کاری ژرف دارم ز قلم بہ غیب راہے این خط کہ دہد بہ نور مایہ ہر معنی ازو چو آب در جوے صد سحر و فسون بہ تار بستم ترکیب طلسم خوانیم بین صد دیدہ بورطۂ دل افتاد دکان ہنر بہ چین کشودم بگداختہ آبگینۂ دل بگداختہ ام دل و زبان را آتش کدہ ہا گداز دادم آنم کہ بہ سحرکاری ژرف افشاندہ ہزار در نایاب کلکم زسر بلند نامی بکشود کلید آسمانی دارد قلم بہ نکتہ سازی تا این گل تازہ نقش بستم طرز دگراں وداع کردم نادان کند فسانہ خوانی ایزد چو نہفت در دلم راز کس را قدم سلوک من نیست رو بہ منشان بمن چہ دارند من سیر نظر زخوان قدسم با عیسی جان صبوح کردم بس گرد شرر زسینہ رفتم الماس بدشنہ تاب دادم از خامہ ہزار دام بستم نشتر برگ قلم شکستم چون از نقش من این سخن زاد |
بگرفت نگار جاودانہ کین غنچہ بہ خون نگار بستم بس معنی خفتہ کرد بیدار وین بادہ سرگذشت در باب من بودم و صبح ہر دو بیدار از صبح ستارہ و زمن حرف کوہے بہ نہفتہ زیر کاہے از کلک من ست نیم سایہ ہر نکتہ درو چوں آب در جوے کاین نقش بر وے کار بستم این خدمت جاودانیم بین کین موج گہر بساحل افتاد سامان سخن چنین نمودم آئینہ دہم بدست محفل کین نقش نمودہ ام جہان را کین شعلہ بستہ باز دادم از شعلہ تراش کردہ ام برف در دامن موج جیب گرداب طغراکش قادر الکلامی بر فکرت من در معانی چون مغ بچگان شرارہ بازی دردست خسان قلم شکستم طرز دگر اختراع کردم بازیچہ شمار این معانی کے این گرہ از خسان شود بار این کار دلست کار تن نیست پیشانیِ شیر را چہ خارند نعمت خور دودمان قدسم دریوزۂ عمر نوح کردم کین لعل بنوک آہ سفتم یاقوت بشعلہ آب دادم بر کبک رہ خرام بستم کین نقش بہفت پردہ بستم خضر آمد و عمر خود بمن داد |
نوٹ: مجھے انگریزی نہیں آتی۔ اس لیے درخواست ہے کہ ملک کے لائق اور انگریزی دانوں میں کوئی صاحب اس کتاب کو انگریزی میں ضرور ترجمہ فرمائیں تاکہ ہمارے یورپین بھائی اس گراں مایہ سوانح عمری کے فوائد سے محروم نہ رہیں۔ دیکھوں اس مفید کام کا سہرا شمس العلما مولوی سید علی بلگرامی کے سر رہتا ہے یا آنریبل مسٹر محمود کے۔ کوئی ہو ؎
اسراف معانیم نظر کن
زین گنج بہ مفلساں خبر کن
خاکسار
سجاد حسین
نمک خوار سرکار نظام
پہلا باب
شیخ چِلّی کا بانی خاندان
شیخ ابو الغنم قراقری خاندان بنی اطول سے شہر طیخوح مِن مضافات ماوراء النہر کا رہنے والا تھا جو بھیڑوں اور دنبوں کا بیوپار کرتا تھا۔ اس پیشہ میں اس کو اس قدر دستگاہ اور دقت نظر حاصل ہو گئی تھی کہ نر اور مادہ کو بلا تامل پہچان لیتا تھا اور بھیڑوں کے علم انساب کا پورا ماہر تھا۔ سَو قدم سے وہ یقین کر لیتا تھا کہ یہ دنبہ ہے یا بھیڑ اور یہ بتا دیتا تھا کہ اگر بھیڑ ہے تو اُس کا خاندان یقیناً بھیڑ ہی ہوگا اور دنبہ کا بچہ ممکن نہیں کہ دنبہ ہی نہ پیدا ہو۔ اس بات کے اظہار کی ضرورت نہیں کہ زمانہ دراز کی تجارت سے اس کو یہ ملکہ بھی پیدا ہو گیا تھا کہ بھیڑوں کے تھن کا صحیح اندازہ وہ کر لیا کرتا تھا کہ دو سے زائد کبھی نہ ہوں گے اور ہمیشہ اس کی بات سچ نکلتی تھی۔ دنبوں کی اون سے وہ کبھی بجز اس کے خیال ہی نہ کر سکا کہ کمل نہ بُنے جائیں گے۔ سال میں ایک بار بھیڑوں اور دنبوں کی اون کتروانے میں کبھی اس نے غلطی نہیں کی۔ اور بلا تامل قریب کی منڈیوں میں بھیج کے وہ نفع کثیر حاصل کرنے میں نہیں چوکا۔
چونکہ وہ بھیڑوں کو دنبوں پر ہمیشہ فضیلت دیتا تھا جس کی وجہ یہ ہے کہ دنبوں کو ان کی چکتیوں کے بار سے چلنے میں ذرا دقت ہوتی ہے اور وہ دور دور مقامات اون کے لے جانے کو بہت ہی مصیبت خیال کرتا تھا۔ لہذا بار بار اُس نے دنبوں اور دنبیوں کے ساتھ مُنڈی ہوئی بھیڑوں کے تبادلہ میں پس و پیش نہیں کیا اور بھیڑوں کو قبول کر لینے میں اپنی غیر معمولی ذکاوت سے بہت عجلت کی۔ چونکہ اس تجارت سے بڑھتے بڑھتے اس کے پاس اپنی ذاتی ملکیت کی بھیڑیں بکثرت ہو گئی تھیں اور گویا جو سرمایہ اُس نے پہلے لگایا تھا وہ پورا حاصل ہو کے نفع میں کئی گلے اُس کے یہاں موجود ہو گئے تھے اس لیے اُس کو اپنے نوکروں اور چرواہوں کے سالہا سال عملی مشاہدے سے بھیڑوں کا دودھ دوہنا بائیں ہاتھ کا کام ہو گیا تھا اور اُس کا استعمال حکیمانہ قاعدہ سے وہ کر سکتا تھا یعنی دودھ سے مکھن اور چھاچھ بنوا لینے میں مشاق ہو گیا تھا اور کچھ بھی نقصان نہ ہونے دیتا۔ کَرتے کی بدیا مشہور ہے۔ اسی وجہ سے اس سلیم تجارت میں اس کے تمام نکات اور باریکیوں پر علی وجہ الکمال پر اس کو قابو مل گیا تھا۔ جو سرمایہ اس کے پاس نقدی جمع ہوتا اس کے مصرف کے تدابیر سوچنے میں بھی اس کی قابلیت کچھ کم نہ تھی۔ یعنی وہ جاڑون میں بھیڑوں کے لیے الگ الگ ڈربے بنوا دیتا اور گرمیوں میں فوراً ان کو کھدوا ڈالتا تاکہ بھیڑوں کو عادت نہ ہو جائے۔ برسات میں اس کو یہ دقت ضرور ہوتی کہ بے موسم بال کتروا کے کمل بنوا لیتا اور بھیڑوں کے اوپر تان دیتا۔ اس کا اپنا ذاتی تجربہ تھا کہ جاڑوں میں بھیڑیں سُکڑ کے چھوٹی ہو جاتی ہیں اور برسات میں پانی سے گھل جاتی ہیں۔ اس جید نقصان کو ایسا باخبر آدمی کب گوارا کر سکتا،جس کی اس نے ڈربوں اور شامیانوں سے روک کر لی تھی۔ غرض کہ وہ اپنے وقت میں یکتا تاجر تھا۔ یا نہ تھا، مگر اس زمانہ کے لوگوں کے لیے تو اس کے کارنامے بہت بڑے استاد کا کام دے سکتے ہیں۔ اگر ایشیائی گدڑیے اور یورپین سوروں کے سوداگر اس کی چھوٹی چھوٹی روزمرہ قابلیتوں پر توجہ کریں تو کچھ شک نہیں کہ بڑے مالدار ہو جائیں۔
چونکہ مجھے اصل میں شیخ چلی کے حالات بہت تفصیل سے لکھنا ہیں اور وہی نامور فخر روزگار اس کتاب کا ہیرو ہے لہذا میں اس کے خاندان کے مختصر مختصر واقعات جلد جلد لکھ کے اُس کو شروع کر دوں گا۔
شیخ اپنی تجارت میں شہرۂ آفاق ہو رہا ہے۔ ملکوں ملکوں اُس کا نام پھیلا ہوا ہے۔ عراق عرب سے لے کر اسپین کے بربری حصہ تک اس کی تجارت کا سلسلہ چلا گیا ہے۔ ادھر مشرق میں جمنا پار سے کابل کی سرحد اور اس سے داہنے طرف تبت کے مشہور مقامات تک پہنچا ہے۔ دور دور سے بھیڑیا دھسان خلقت اس کی تجارت کے تجربوں کو سیکھنے آ رہی ہے اور افریقہ تک اس کی دساور کی مانگ ہو رہی ہے۔ یورپ کا ناشائستہ حصہ جو اس وقت بالکل اندھیرے میں پڑا ہوا تھا اس کی تجارت سے اگر کچھ فائدہ اٹھا سکا تو صرف اسی قدر کہ اس کے کارخانہ کے بُنے ہوے کمل تمام یورپ کے جان بخش تھے۔ اگر شیخ ابو الغنم کے کمل نہ جائیں، مارے جاڑوں کے تمام یورپ اینٹھ جائے۔ پینتالیس برس کی عمر تک ملک التجار کا کارخانہ بڑی ہی رونق سے جاری رہا اور دولت کثیر اس کے پاس جمع ہو گئی۔ اب شیخ نے شادی کی طرف توجہ کی۔ ایسے بڑے دولت مند کو دلہن ملنا کیا دشوار تھا۔ یوں تو سیکڑوں قبیلوں سے اس کے لیے لڑکیاں تیار تھیں اور جہاں چاہتا وہ بلا تردد شادی کر لیتا۔ کیونکہ صرف مالداری کی شان ہی اس میں نہ تھی بلکہ اپنے شہر اور قرب و جوار میں اشراف خاندان سے وہ پیدا ہوا تھا اور جوار کے کل قبیلے بوجہ نسب بھی اس کا احترام کرتے تھے مگر شیخ کو یہ ضد آ پڑی تھی کہ کوئی لڑکی خود مجھ پر عاشق ہو اور اپنے ماں باپ سے میرے ساتھ نکاح کی درخواست کرے۔ گو وہاں کے طرز معاشرت میں یہ کوئی مشکل اور عجیب بات نہ تھی مگر ہمارے شیخ صاحب کچھ ایسے حسین و جمیل واقع ہوئے تھے کہ قبائل عرب کی لڑکیاں آپ کے نظارۂ جمال کی تاب ہی نہ لا سکتی تھیں۔ آنکھ بھر کے دیکھیں تو عاشق ہوں۔ جب اس کی نوبت ہی نہ آنے پائے تو عشق کیسا۔ اس افتاد نے پانچ برس تک شیخ کو نامراد رکھا۔ لیکن آخر کار قبیلہ عقیلو کے شیخ الرئیس ابو احوش کی بیٹی سفیہہ نے شیخ ابو الغنم کی ضد کو پورا کیا۔ یعنی وہ عاشق ہو کر اپنے ماں باپ سے عقد کی خواست گار ہوئی۔ یہ ایک غیر معمولی بیاہ تھا۔ تمام ملک کے مشہور قبائل شریک ہوئے اور سُبھ گھڑی نیک ساعت میں نکاح ہو گیا۔
سفیہہ کے نامبارک آئے ہوئے قدم کو ابھی سال بھر بھی نہ ہوا تھا کہ ملک میں سخت قحط پڑا اور شیخ ابو الغنم کے اوپر تباہی آئی۔ یعنی ہزار ہا بھیڑیاں بے آب و دانہ مر گئیں۔ ہزارہا کو بدوؤں نے چکھ ڈالا۔ کئی گلے شیخ نے تنگ ہو کر جنگل میں لاوارث چھوڑ دیے اور تھوڑے سے گلوں کو لے کر مع کسی قدر نقدی کے خود شیخ دشت قبچاق کی طرف چل نکلا۔ خاتون محل بھی ساتھ تھی۔ نوکر چاکر زیادہ نہیں لیے، صرف اسی قدر جو بھیڑوں کو سنبھال سکیں۔ غرض یہ تھی کہ وہاں چارہ بافراط ملے گا۔ بعد رفع قحط پھر وطن کو لوٹ آویں گے اور بھیڑوں کو ترقی دے لیں گے مگر خوش قسمتی نے تھوڑے دنوں کے لیے رخصت لے لی تھی اور ادبار کو اپنی جگہ چھوڑ گئی تھی یعنی دشت قبچاق میں شیخ کی تمام زندہ اور بے جان دولت قزاقون نے لوٹ لی اور بے چارہ صرف ایک بیڑی پاؤں میں پہنے ہوئے یعنی بی بی کو ساتھ لیے وہاں سے غزنی کی طرف چل نکلا۔ شیخ کی جغرافیہ دانی تو صرف ما وراء النہر ہی پر محدود تھی اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے غزنی کا قصد کر لیا تھا۔ بلکہ ملک خدا تنگ کے بھروسے پر ایک طرف منھ اٹھا دیا اور مرتا جیتا غزنی میں پہنچ گیا۔ سلطان محمود کا دور سلطنت تھا۔ مسافرین اور معذورین کی خبر گیری کی جاتی تھی۔ شیخ کو بھی اس سے حصہ ملا اور ایک کاروان سرا میں رہنے لگا۔
بھیڑوں کا خیال شیخ کو آیا ضرور تھا مگر غزنی کی آب و ہوا میں اُس وقت شیروں کی پیداوار کی زیادہ قابلیت تھی۔ اس وجہ سے وہ اپنے خیالی بھیڑوں کو دور ہی دور رکھنا چاہتا تھا اور اس فکر میں تھا کہ کسی طرح سلطان تک رسائی ہو جائے تو قزاقوں کو پہلے سزا دلواؤں پھر اپنے وطن جانے کی اجازت اور زاد راہ مانگوں۔ اسی دُھن میں وہ ایک دن فردوسی کے پاس پہنچ گیا اور سلام کر کے دشت قبچاق کا ذکر چھیڑ دیا۔ فردوسی شاہ نامہ کے لیے ایسے ایسے سامان کا تلاشی تھا۔ اُس نے دشت کے حالات پوچھے۔ شیخ نے قزاقوں کی بیداد گری کے ساتھ اپنے معلومات کا ذخیرہ اُگل دیا جو وہاں کے سرگردانی کے زمانہ میں حاصل ہوا تھا۔ فردوسی نے ایاز سے سفارش کر دی اور ایاز نے سلطان تک پہنچا دیا۔ چونکہ سلطان روم مردم شناس بھی تھا اور نیز شیخ نے اپنے واقعات تجارت تفصیل سے بیان کیے لہذا دنبوں کی داروغگی شیخ کو مل گئی۔ گو اس نے وطن جانے کی کئی بار درخواست کی مگر قبول نہ ہوئی۔ ناچار اسی پر قناعت کی اور بال منڈوانے میں کمال دکھانے لگا۔
سطان کو ہندوستان پر بارھواں حملہ کرنا تھا۔ 448ھ میں وہ اس قصد سے فوج لے کر غزنی سے چلا۔ شیخ بھی ہمراہ ہو لیا مگر یہ نہیں معلوم کس طرح۔ بہرحال ہندوستان کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے عزت بخشی۔ سفیہہ بھی ساتھ تھی، اُس کی ہمراہی سے شیخ کو کچھ اذیت نہیں ہوئی۔ کیونکہ دونوں کے اخلاق اور عادات میں خِلقی موافقت تھی۔ سلطان نے سومنات فتح کرلیا اور لَوٹ گیا۔ مگر شیخ نے ہمت ہار دی اور ہندوستان میں رہ پڑے۔
بدایوں کے پاس ایک قصبہ تھا چِلّہ، وہاں سطان نے تھوڑی سی جاگیر بطور آل تمغا شیخ کے نام مقرر کردی اور شیخ بی بی کے ساتھ اسی قصبہ میں رہنے لگے۔
دوسرا باب
شیخ چلی کی پیدائش
شیخ الغنم کا سلسلہ توالد و تناسل جاری ہوا اور بڑھتے بڑھتے ایک اچھا خاندان ہو گیا۔ سالہاے دراز کی پیداوار سے اس خاندان کو روز افزوں ترقی ہوتی گئی۔ آخر شیخ الغنم کی ساتویں پشت میں شیخ ملھو ایک ذی لیاقت اور تیز فہم شخص ہوا جس کی شادی اس کی چچا زاد بہن بی بی حمیقہ کے ساتھ ہوئی۔ چونکہ جاگیر میں بہت سے حصہ بخرے ہو گئے تھے لہذا شیخ ملھو کچھ زیادہ خوش حال نہ تھا۔ تاہم وہ اپنی ذاتی محنت اور زراعت سے ایک اعتدال کے ساتھ بسر کرتا تھا اور بڑی بات یہ تھی کہ سامان معاشرت اس قدر وسیع نہ تھے جس سے اسراف کی نوبت آئے۔ بہرحال وہ روٹی دال سے خوش تھا اور اپنی محبوبہ بی بی کے ساتھ بسر کرتا تھا۔ سنہ 951 ہجری میں شیخ ملھو کے یہاں بیٹا پیدا ہوا۔ چونکہ زمیندار تھا اور یہ لڑکا بڑی منت مرادوں کا تھا، شیخ نے بڑی دھوم دھام کی اور پانچویں دن شیخ چلی قصبہ چلہ کی مناسبت سے نام رکھا۔
ولادت کے وقت اس نامی مولود نے یہ جدت کی کہ ٹانگیں اوپر اُٹھا دیں، اب ہزار جھکاتے ہیں نہیں جھکتیں۔ خیال ہوا کہ شاید گھٹنوں میں قفلی کا جوڑ نہیں ہے، مگر ٹٹولنے سے کوئی نقصان نہیں پایا گیا۔ دیر تک یہ حالت رہی اس کے بعد آپ روئے اور ٹانگیں سیدھی کر دیں۔ گو یہ ایک اتفاق بات تھی اسی وقت کا پیدا ہوا بچہ کسی ارادے پر قادر نہیں ہو سکتا۔ مگر اوپر والوں نے بات کا بتنگڑ بنا دیا کہ بچہ آسمان کو گرتا ہوا سمجھ کے اپنے پاؤں پر روکنا چاہتا تھا۔ زمانۂ شیرخوارگی کے واقعات ہی کیا ہوں گے جن کو ہم لکھیں اور جو کچھ ہوں گے وہ اُس کے افعال ارادی تو ہو نہیں سکتے، اس لیے ہم بجز اس کے کہ اس کو چھوڑ دیں چارہ ہی نہیں ہے۔ البتہ بہ تحقیق معلوم ہوا ہے کہ جب وہ دودھ پیتے تھے آپ بےانتہا رویا کرتے تھے۔ ادھر ماں نے منہ سے چھاتی ہٹائی کہ خوش ہو گئے، قلقاریاں مارنے لگے۔ شیخ ملھو اپنے تجربات کے بھروسے پر بہت غور کیا کرتے اور بھیڑوں کے بچے کے دودھ پینے کے طریقہ سے بھی اس کو ملا کے دیکھا مگر اس کی علت اس کی سمجھ میں بھی نہ آئی۔ حمیقہ کا تو یہ مشغلہ ہو گیا تھا کہ جب تماشا دیکھنے کو جی چاہتا دودھ پلانے لگتی۔ طرفہ یہ ہے کہ سب بچوں کی طرح دودھ پینے میں ہمارے شیخ چلی صاحب حریص تھے اور اسی طرح ہمک ہمک کے چٹخارے لیتے تھے مگر ساتھ ہی روتے بھی جاتے تھے۔
سوا دو برس تک خوب رو رو اور مچل مچل کے دودھ پیا۔ اس کے بعد بڑھا دیا گیا۔ ایلوے اور نیم کی پتی سے تو اُنھوں نے سلامتی سے کبھی منھ نہیں موڑا۔ مگر عقیلہ جوجو کے نام سے بوٹی کانپتی تھی۔ دودھ تو درکنار اُس کا نام سُن کے وہ پہروں آنکھیں نہ کھولتے اور ماں کو ٹٹول ٹٹول کے ڈھونڈھ لیتے۔
شیخ چلی کو چار سال چار مہینے کے بعد بسم اللہ کے لیے مستعد کیا گیا۔ اللہ آمین اماں باوا کے الفاظ کا وہ یوں بھی عالم بلکہ حافظ ہو چکا تھا۔ اس رسم میں اُستاد نے بہت سر مارا، ہزار طرح پُھسلایا، بہلایا۔ مگر میرے شیر نے سون جو کھینچی پھر نہ بولنا تھا نہ بولا۔ شیخ ملھو نے اُستاد کو آخر کار روک دیا۔ شیخ کو ماں کے پاس پہنچا دیا۔ اس کی ماں نے چٹ پٹ بلائیں لے کے پوچھا کیوں بیٹا بسم اللہ پڑھ آئے۔ شیخ چلی نے گردن کو تین جھٹکے سامنے کی طرف دیے جو اقبال کا اشارہ تھا۔ مگر منہ سے نہ بولا۔ اس رسم کے بعد وہ چند روز تک یونہی چھوٹا رہا اور اپنے ارادے سے جب چاہتا رو لیا کرتا یا ہنستا رہتا۔ اس کا کھیل بھی سب لڑکوں سے جدا تھا۔ یعنی لڑکوں کے ساتھ وہ کھیلتا تھا۔ مگر اس طرح کہ سب تو دوڑ دھوپ رہے ہیں اور یہ ایک طرف بیٹھا ہوا غور اور خوض سے دیکھ رہا ہے۔ جہاں کسی لڑکے نے اپنے کھیل میں غلطی کی اس نے فوراً اصلاح کر دی اور ایسی بات بتا دی کہ سب لڑکے یا تو ہنس پڑے یا اس کو دو چار دھولیں، چپیتیں رسید کر دیں۔ چونکہ وہ ایک ہونہار اور صاحب فکر لڑکا تھا، خدا نے اس کو متانت اور تحمل بھی دیا تھا وہ اس مارپیٹ کی کچھ پروا نہ کرتا اور اپنے دوستوں کی دراز دستی پر رنجیدہ نہ ہوتا۔ ہاں جب اس کا جی چاہتا تو بلاوجہ اور بغیر چھیڑے وہ ایک بڑی اینٹ یا کھنگڑ اٹھا کے اپنے ساتھیوں پر بلا تعین شخصی دے مارتا اور اس قدر کھلکھلا کر ہنستا کہ بے تاب ہو جاتا۔ اس حرکت کا عوض اس سے بہت سختی کے ساتھ لیا جاتا مگر وہ کچھ پروا نہ کرتا اور روتا ہوا اپنی ماں سے جا کے شکایت کرتا۔ لڑکوں پر منحصر نہیں ہے، وہ راہ چلتوں کو اپنی بذل و نوال سے محروم نہ رکھتا اور بے تحاشا ڈھیلے کی تواضع کر بیٹھتا۔
ایک دن لڑکوں نے گدھا پکڑا اور اس کی جان عذاب میں کر دی۔ شیخ چلی کو اس حرکت پر غصہ آیا اور بہزار خرابی گدھے کو ان ظالموں کے ہاتھ سے چھڑا کے الگ لے گیا اور اپنے کمر بند سے اس کے منہ میں گرہ دے کے سوار ہوا اور سیدھا دھوبی کے پاس پہنچا۔ دھوبی ابھی بولنے بھی نہ پایا تھا کہ شیخ چلی اس پر برس پڑا کہ ہم کیا تیرے باپ کے نوکر ہیں جو تیرا گدھا لونڈوں سے چھڑاتے پھریں۔ اگر اب کی بار تو نے گدھے کو چھوڑ دیا تو تیرا گھر پھونک دوں گا۔ دھوبی بہت جھلایا مگر ملھو کو جانتا تھا اور شیخ چلی کی دراز دستی سے بھی واقف تھا، گدھے کو چھین لیا اور شیخ چلی کو شکریہ کے ساتھ رخصت کیا۔
ایک دن وہ پیشاب کرنے بیٹھا اور اتنی دیر تک بیٹھا رہا کہ اس کی ماں کو پکارنے اور خبر لینے کی ضرورت ہوئی۔ مگر اس نے کچھ جواب نہ دیا۔ جب زیادہ دیر ہوئی شیخ ملھو اس کے قریب گیا اور ہاتھ پکڑ کے کھینچا۔ شیخ اٹھ تو کھڑا ہوا مگر بولتا نہیں ہے۔ باپ نے چاہا کہ ماروں۔ شیخ چلی ہاتھ جوڑنے لگا۔ مگر بولا اب بھی نہیں۔ باپ نے غور سے دیکھا تو اس کے دونوں گال اس طرح پھولے نظر آئے گویا کہ کوئی چیز منہ میں بھری ہوئی ہے اور ہونٹ چپکا ہوا ہے۔ شیخ ملھو نے زور سے منہ دبا دیا تو ایک کلی پانی اس کے منہ سے گرا۔ ساتھ ہی وہ رو کے مچل گیا۔ واہ تم نے میری محنت برباد کی، میں نے منہ میں کلی بھر کے پیشاب کرنا چاہا کہ دیکھوں منہ کا پانی پیشاب کی راہ سے نکل جاتا ہے یا نہیں۔
شیخ چلی آٹھ برس کا ہو گیا مگر مکتب میں نہ بیٹھا۔ وہ اپنے ہم جولیوں کے ساتھ دنیا کے خارجی امور کا تجربہ حاصل کرنے میں تو بہت سرگرم تھا مگر پڑھنے میں ان کا ساتھ کبھی نہیں دیا۔ چونکہ سلامت روی اس میں اس درجہ پر تھی کہ باپ کو یقین نہ آتا تھا میرا بیٹا ایک غیر معمولی طبیعت کا انسان ہونے والا ہے یا ایسی وارستہ مزاجی میں بلا کی جدت اور طباعی چھپی ہوئی ہے، اسی وجہ سے شیخ ملھو نے اس کے مکتب میں زبردستی بٹھانے کی کوشش نہیں کی۔
شیخ چلی باغوں اور کھیتوں کی طرف اکثر نکل جاتا اور کھلے میدانوں میں گھنٹوں وہ اس بات کی کوشش کرتا کہ دوڑ کے آسمان کی جھکی ہوئی دیوار کو چھو لے۔ ہر بار کی ناکامی سے وہ ایک منٹ کے لیے بھی مایوس نہ ہوا اور ہمت سے یہی باور کر لیتا کہ کل ضرور دیوار تک پہنچ جاؤں گا۔
وہ اکثر چلتے چلتے یہ خیال کرتا کہ دونوں پاؤں ایک ساتھ اُٹھیں اور ساتھ ہی زمین پر پڑیں تو زیادہ تیزی سے راہ طے ہو۔ اس امتحان میں وہ دیر تک اُچھلتا اور منہ ہاتھ کی چوٹوں کی پروا نہ کرتا۔ اس کو یقین تھا کہ چند روز میں میرے دونوں پاؤں ضرور ساتھ اُٹھنے لگیں گے۔
وہ انتہا کا نازک مزاج اور لطافت پسند تھا۔ بارہا اُس نے صرف اس لیے کپڑے اُتار کے پھینک دیے کہ میرا جسم بوجھ پڑنے سے کُچل نہ جائے۔ شب برات میں اس کے باپ نے آتش بازی منگوا دی۔ چونکہ برسات کا موسم تھا۔ چھچھوندریں، پھل جھڑیاں، انار وغیرہ سب نمی کی وجہ سے چھوٹتے نہ تھے۔ شیخ چلی سب گھر والوں کی آنکھ بچا کے اپنی طباعی کے جوہر دکھانے چاہے اور ایک بڑی سی پتیلی میں ساری آتش بازی بھر کے چولہے پر چڑھا دی۔ آنچ تیز کر دی۔ مطلب یہ تھا کہ اس ترکیب سے آتشبازی سوکھ جائے گی مگر دم بھر میں پتیلی تیز ہوئی اور چھچھوندروں نے زور باندھا۔ شیخ چلی نے اس کا تدارک پہلے ہی سوچ لیا تھا۔ گھڑا بھر پانی چھوڑ دیا اور اس طرح اپنی آتش بازی بچالی۔
اس عمر تک اُس کے جس قدر حالات معلوم ہوئے اُس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ معمولی طبیعت کا لڑکا نہ تھا بلکہ ذکاوت خداداد سے فوق العادت حرکتیں اس کی زندگی کے حصے کی نسبت یہ راے قائم کرنے پر مجبور کرتی ہیں کہ وہ ایک بڑا مدبر اور موجد ہونے والا ہے۔ اس وجہ سے ہم زیادہ تفصیل سے نہیں لکھتے۔ بلکہ اُس کی کسر اُس کے شباب اور جوانی کے حالات میں نکل جائے گی۔ تاہم بعض واقعات جو بالکل اس کی طبع زاد خاص ہوں گے ہم بیان کرتے جائیں گے۔
تیسرا باب
شیخ چلی کی تعلیم وغیرہ
نویں برس باپ نے بہت مجبور کیا اور وہ محلے والی مسجد کے مکتب میں جانے لگا۔ اپنی لاجواب ذہانت سے بغدادی قاعدے اس نے دسواں برس شروع ہوتے ہوتے ختم کر دیے۔ اُستاد کو اس کے پڑھانے میں کچھ دقت ہی نہ ہوتی تھی۔ کیونکہ وہ ہر کام اصول سے کرتا تھا یعنی دو حرف یک مشت اُستاد اُس کو بتا دیتے تھے اور تین دن میں رے زے رے زے کہتے کہتے وہ بالکل یاد کر لیتا تھا۔
شیخ چلی کے مکتب میں بیٹھنے سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اُستاد کو اتنی سکت ہی نہ رہتی تھی کہ شیخ چلی کی مرمت کے بعد کسی اور لڑکے کو قمچیاں مارنے کا موقع ملتا تھا۔ لڑکے وہی تھے جو اس کے ساتھ کھیلا کرتے تھے اور اس لیے اس نوگرفتار سے انس اور یارانہ پیدا کرنے میں ان کو کچھ محنت نہیں پڑی۔ وہ سدھا ہوا ان کا ہم جولی تھا۔ آپس کی شرارتوں کو وہ آسانی کے ساتھ غریب شیخ کے سر تھوپنے میں کبھی نہ چوکتے اور مولوی صاحب کی پرسش پر یہ صابر اور متحمل لڑکا بے تکلف اپنا قصور قبول کر لیتا۔ بلکہ جس بدسلوکی کی فریاد ہوتی تھی اسی کو عملی طور پر بھی دکھا دیتا کہ میں نے یوں منہ چڑھایا تھا یا اس طرح چپت مار دی تھی۔ لڑکوں کی کتابوں اور قلم دوات کے انتظام میں اس نے بڑی دلچسپی ظاہر کی۔ ممکن نہ تھا وہ کسی کی کتاب پا جاتا اور دو چار ورق کی تخفیف نہ کر دیتا اُس کا خیال تھا کہ اس ترکیب سے کتاب جلد ختم ہو سکتی ہے اور دوسری کتاب شروع کرنے کی اس سے بہتر کوئی تدبیر نہیں ہے۔ قلموں سے وہ میاں جی کے حقہ بھرنے کی انگیٹھی کو ہمیشہ گرم کر دیا کرتا اور نیم سوختہ قلم نکال کے دیتا اور کہتا پھر بنا لو۔ تختی پر وہ اس طرح مشق کرتا کہ تل بھر سفیدی نہ چھوٹتی۔ آسان لٹکا اس کے ہاتھ آگیا تھا کہ دوات سے صوف نکالا اور تختی کو لیپ دیا۔ اس کامیابی پر وہ اس قدر خوش ہوتا کہ استاد کو بغیر دکھائے نہ رہتا۔ جس کا صلہ وہ خوشی سے قبول کرنے پر ہر دم تیار تھا۔
کتب فروش اس کو ہمیشہ دعا دیتے تھے، کیوں کہ اس کی وجہ سے نہ صرف اس کا باپ دوسرے چوتھے روز نئی کتاب خرید کرتا، اور لڑکوں کے ورثا بھی جلد جلد کتابیں لینے پر حریف تھے۔ استاد نے کئی بار اس کو عزت کے ساتھ یہ کہہ کے رخصت کر دیا کہ جاؤ تم فاضل ہو گئے مگر وہ علم کا ایسا شوقین تھا کہ تیسرے ہی روز باپ کے ساتھ مکتب میں داخل ہو جاتا۔ اور پچھلا پڑھا لکھا از سر نو دہراتا تاکہ کچھ غلطی نہ رہ جائے۔
تمام جہان کے معلم بد خو ترش مزاج ہوا کرتے ہیں۔ اس مکتب کے میاں جی ان صفات میں کسی سے پیچھے نہ تھے اور لونڈوں کو بھی بالطبع استاد سے عداوت ہوتی ہے اس کلیہ کی بنا پر ایک بار لڑکوں نے سازش کی کہ مولوی صاحب کو کِوانچ کی پھلیوں کا مزہ چکھانا چاہیے۔ بیچارے نے عمر بھر میں دیکھی بھی نہ ہوں گی۔ اس مشورے میں شیخ چلی صاحب بھی شریک تھے۔ گو سب لڑکوں سے ان کی راے مختلف تھی یعنی ان کی صلاح تھی کہ پھلیوں کو استنجے کے ڈھیلوں پر نہ ملنا چاہیے بلکہ دھوبی ہمارا دوست ہے اس سے کہہ کے پائجامہ میں ملوا دیں گے لیکن کثرت آرا سے ان کی راے نا منظور ہوئی اور حقہ کی مہنال، استنجے کے ڈھیلوں، وضو کے لوٹے میں پھلیاں پیس کے چھڑکی گئیں۔ سویرے یہ سب کام ہو چکا تھا۔ مولوی صاحب نے ابھی کوئی چیز استعمال نہ کی تھی کہ شیخ کا آموختہ سننے بیٹھے۔ یہاں وہی الف دو زبر آن اور آگے آیہ مطلق۔ پٹے اور بہت پٹے۔ تب تو دانت پیس کے مولوی صاحب سے کہہ دیا۔ میں نے تو پاجامہ میں پھلیاں ملنے کو کہا تھا۔ مگر سب نے لوٹے میں ڈالی ہیں اور ڈھیلوں پر ملی ہیں، اب کی بار میں بھی تم کو پان میں کھلا دوں گا۔ مولوی چوکنا ہوئے اور بھید کھل گیا۔ شیخ چلی سے اگر حماقت ہوئی ہے تو عمر میں یہی ہوئی کہ مولوی صاحب بال بال بچ گئے۔ الغرض شیخ چلی اپنی خدا داد طبیعت کے زور دکھا رہا ہے اور روز ایک نئی ادا اس دانش مند لڑکے کے انداز سے پیدا ہو رہی ہے۔ دنیا کے مرقع میں کل نہیں تو اس کے قصبہ سکونتی کے لوگ اس کی حرکات سے دلچسپی حاصل کرنے لگے ہیں اور وہ اتنے سے سن میں ناموری کے آسمان پر زینہ لگا چکا ہے، چڑھنے کی کسر باقی ہے۔ صرف تعلیم میں اس نے پندرہ برس کے سن تک مصروفیت کے ساتھ اپنے کمالات کو ایک متوسط ایشیائی ذی علم کی حد تک پہنچا دیا۔ چونکہ طباعی کے ساتھ اس کا حافظہ بھی بے نظیر تھا، وہ اپنے کل سبق حفظ کر لیا کرتا اور چونکہ ذہین اور طباع آدمی بے پروا بھی ہوا کرتے ہیں اس لیے وہ اپنے لکھنے پڑھنے میں استغنا کو بہت دخل دیتا تھا۔ اسی وجہ سے آج کا سبق جو حفظ کرنے کی حد تک پہنچ جاتا تھا کل بالکل سپاٹ اور سہو محو ہو جاتا تھا۔ جس کو وہ باہمت طالب علم پھر دہرانے سے کبھی نہیں تھکتا تھا۔ اس نے تعلیم کے بعد مکتب چھوڑ دیا اور نام خدا اب جوان ہو گیا، اس لیے شوریدگیِ شباب نے اس کے دلی جذبات کو اور بھی چمکا دیا جس سے اس نے اپنی اس جدید زندگی کو بہت ہی قابل یادگار بنانے میں ذرا بھی کمی نہیں کی۔
چوتھا باب
شیخ چلی کا شباب
مرادوں کی راتیں، جوانی کے دن، شباب کی امنگ، سودا جوش پر۔ یہ سن ہر انسان کو جو رنگ دکھاتا ہے سارے زمانے کو معلوم ہے۔ مگر اس حکیم مزاج، فخر زمانہ، ہونہار نوجوان کو اپنے شباب کے زمانہ میں ان تمام نامعقول خواہشوں اور ارادوں کے روکنے میں کچھ بھی دقت نہ پڑی۔ جس کو بڑے محتاط اور تعلیم یافتہ نوجوان بھی نہیں روک سکتے۔
آغاز شباب کے آثار میں وہ غیر مہذب مقدمہ تھا جو ہر جوان ہونے والے لڑکے کو قدرتاً پیش آیا کرتا ہے۔ شیخ چلی ایسا ویسا گھامڑ تو تھا ہی نہیں کہ ایسے بڑے معاملہ کو سرسری چھوڑ دیتا۔ اس نے قیاس کیا کہ میرے زیر ناف اندروار کوئی پھوڑا ہوا ہے جس کا ریم خارج ہوتا ہے۔ دو ایک روز وہ خود سوچا کیا کہ اس کا کیا علاج ہونا چاہیے مگر جب اس نے کچھ زیادہ احساس پھوڑے کا نہ پایا یعنی درد وغیرہ نہ ہوا تو اس نے بے اعتنائی کی مگر دوسری بار تو اس کو بہت اہتمام کے ساتھ وہم نے گھیرا کہ پھوڑا اب تک باقی ہے۔ اس نے بالائی لیپ اور پولٹس وغیرہ کا استعمال کیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ ناچار اس کو اپنے باپ سے اطلاع کرنے کی ضرورت پیش آئی اور اپنی ذہانت کو اس نے اچھی طرح ثابت کر دیا۔
باپ نے جو تدبیر اس کے دفعیہ کی فی الوقت کی ہوگی اس کا پتہ کسی تاریخ وغیرہ سے نہیں چلتا۔ ہاں اتنا تحقیق ہوا ہے کہ اس نے بیٹے کی شادی کر دینے کا مصمم قصد کر لیا اور دلہن کی تلاش ہونے لگی۔
شاید بلکہ یقیناً شیخ چلی تمام انسانوں کی طرح اپنے پھوڑے کے بےضرر ہونے کی وجہ سے پھر اس کے علاج وغیرہ کا درپے نہ ہوا ہوگا، کیونکہ عام قاعدہ ہے کہ بیماری جبکہ دوامی ہو جائے یا متاذّی نہ ہو تو عملاً اس سے قطع نظر کر لی جاتی ہے۔ شیخ چلی بھی اس پھوڑے کو سمجھ گیا کہ ناسور ہو گیا ہے جو علاج پذیر نہیں ہے اور نہ اس کو تکلیف ہے۔ اس لیے مارو بھی گولی۔
اب اس کا سن سترہ یا اٹھارہ سال کا ہو گیا ہے۔ شباب کے جادو اس پر چل رہے ہیں۔ اور وہ پنگھٹ، بازار، میلہ، محلوں کی گلیوں میں معمول سے زائد پھرنے لگا ہے۔ مگر اس کی باقابو طبیعت کا یہ حال ہے کہ کہیں دل نہیں اٹکتا۔ راہ چلتے کسی عورت کو عام اس سے کہ یقین ہو یا نہ ہو وہ دو ایک کنکریاں، ایک آدھ ٹھوکر یا دھکا رسید کرنے میں مشاق ہو چلا ہے جس کے عوض گالیاں کھا کے بھی بد مزہ نہیں ہوتا۔ بلکہ ہنستے ہنستے خود ہی لوٹ جاتا ہے۔ اس کی فرزانگی کا یہ عمدہ نمونہ ہے کہ شیرے کی مکھی بن کے نہیں چمٹتا بلکہ دو گال یہاں ہنس لیے دو گال وہاں۔ بڑی بات یہ تھی کہ وہ بے فائدہ فکروں سے بچنے کی ہمیشہ کوشش کرتا رہا، اس لیے اس نے اس میں کوئی ایسا طوطا نہیں پالا جس کی وجہ سے زندگی اجیرن ہو جائے۔ وہ دن بھر میں سو ہی بار عاشق ہوتا اور سو ہی بار عشق رخصت کر دیتا۔ محبت کے مضبوط پھندے اس کو پھانستے۔ مگر آنکھ اونٹ ہوتے ہی وہ سب کو تار تار کر ڈالتا۔ چونکہ فطرتاً قلب و دماغ مادۂ فساد سے خالی نہ تھا، پھر بھی باوجود تمام احتیاطوں کے دلی جذبات کے ہاتھوں پسپا ہو جاتا۔ چنانچہ وہ ایک دن چڑی ماروں کے محلہ میں گیا۔ اسی دن بہت سے جانور ایک چڑی مار پکڑ لایا تھا اور اس نے اپنی ناکتخدا بیٹی کو ان کے بیچنے کے لیے بھیجا تھا۔ گلی کے موڑ پر ناگاہ شیخ چلی اس سے دوچار ہو گیا اور تیر محبت ساتھ سینہ میں ترازو ہوا۔ آشفتہ سروں کو کبھی ننگ و نام کی پروا ہوتی ہی نہیں۔ شیخ چلی بغیر اس کے کہ ذرا بھی پس و پیش کرے لڑکی کے سامنے خاموش کھڑا ہو گیا۔ وہ بچ کے نکلنا چاہتی تھی اور یہ آڑ ہو جاتا تھا۔ آخرش اس نے ذرا ڈانٹا تو یہ بھی گرمائے اور پوچھا کہ تو مجھ سے کیوں بات نہیں کرتی، میں تیری چڑیاں نہ لوں گا۔ بلکہ تو کہے تو ان کو بیچ کے لادوں۔ لڑکی گھبرائی یہ سڑی تو نہیں ہو گیا ہے اور پیچھے پلٹنا چاہا۔ اس عاشق جانباز نے اتنی فرصت ہی نہ دی اور چڑیوں کی پھٹکی چھین کے سب اڑا دیں۔ لڑکی کو زور سے کاٹ لیا اور اپنا راستہ لیا۔ بلکہ کچھ پہلے ہی چڑیمار کے مکان پر پہنچ کے جڑ دیا کہ تیری لڑکی نے جانور چھوڑ دیے۔ چڑیمار دوڑا تو لڑکی کا گال لہو لہان اور اس کو زار و قطار روتے پایا۔ جب تک شیخ چلی کے پاس آئے آپ دوسری تفریح کی فکر میں جاچکے تھے۔
شیخ چلی شباب کی ترنگوں میں گویا کنہیا ہو رہا ہے۔ کوئی مقام تفریح اس سے بچ نہیں رہتا۔ جہاں وہ دن میں دو ایک بار نہیں ہو آتا اور ایک نہ ایک کرشمہ نہ دکھا دیتا ہو۔ چونکہ اس کا خاندان معزز ہے اور باپ بڑا ملنسار نیک بخت لہذا اس کے ساتھ لوگ ایک حد تک مراعات بھی کر جاتے ہیں اور عادت سی ہو جانے سے اس کی دراز دستیوں یا شوخیوں کی مکافات ناقابل برداشت نہیں کرتے بلکہ اکثر ٹال جایا کرتے ہیں۔ غالباً اس کی بھی وجہ یہ تھی کہ شیخ چلی کے حرکات و افعال چونکہ معمولی ہوتے نہیں بلکہ ان کی تہ میں ایک نہ ایک بدیع نکتہ یا حکمت چھپی ہوئی ہے جس کے غوامض پر عوام الناس تو درکنار خاص لوگوں کو وقوف ہونا بہت مشکل ہے۔ اس لیے اپنے عجز کا اعتراف کر کے کوئی اس سے معترض نہیں ہوتا اور گویا سانڈ بنا کے چھوڑ دیا ہے۔ اس وجہ سے اس کو اپنی مطلق العنانی کا لطف خاصی طرح مل رہا ہے۔
جوانی میں اُس کی عقل بھی زیادہ پرزور ہو گئی ہے۔ ایک بار اُس نے جامن کھانے میں گٹھلی نگل لی۔ اے ہے غضب ہو گیا۔ اُس نے فوراً علم فلاحت کے اصول سے یقین کر لیا کہ ضرور میرے پیٹ میں درخت اُگے گا۔ وہ اس بات کی پروا کبھی نہ کرتا کہ درخت اُگنے سے کیا نتیجہ ہوگا اگر اس کو اس بات کا افسوس نہ ہوتا کہ وہ کیسے پھیلے گا اور بڑھے گا، کیونکر پھل لگیں گے۔ پیٹ کی وسعت اور بساط سے وہ ناواقف نہ تھا اس لیے اُس نے اہتمام بلیغ کیا کہ کسی طرح تخم خارج ہو جائے ورنہ درخت بیکار جائے گا۔ چنانچہ استفراغ کر کے اُس نے اپنا اطمینان کر لیا کہ اب کچھ خطرہ نہیں ہے۔
اُس کے باپ کے زراعت پیشہ ہونے سے ہر قسم کے جانور گھر میں موجود تھے۔ ایک گائے دو دھاری تھی جس کا دودھ ہمیشہ گھر کا نوکر دوہا کرتا تھا۔ ایک دن نوکر نہ تھا۔ شیخ چلی نے باپ سے اپنے وسیع تجربہ کے بھروسے پر دودھ دوہنے کی درخواست کی جو منظور ہوئی۔ اور دودھ کا ظرف لے کے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ مگر گائے کے تھن سے ایک قطرہ بھی نہیں نکلتا۔ گھنٹہ بھر تک اس نے محنت کی اور تمام تدابیر عمل میں لایا لیکن ناکامی ہوئی۔ آخر جھنجھلا کے اُٹھ کھڑا ہوا اور لوٹا پٹک دیا۔ باپ نے پوچھا یہ کیا حرکت ہے۔ غصہ میں بھرا ہوا تھا ہی، جواب دیا گائے سب دودھ چڑھا گئی۔ اِس کو بیچ ڈالنا چاہیے۔ جب باپ نے زیادہ تحقیقات کی، معلوم ہوا کہ ایک بڈھے بیل کو وہ دوہتا رہا جو بدھیا بھی تھا۔ اس غلطی کی صفائی میں شیخ چلی کا یہ جواب کہ اندھیرے میں شناخت نہ ہو سکی، بالکل مسکت اور کافی تھا۔
اللہ اللہ اس کی قابلیتوں اور دانش مندیوں کا ایک گنج شائگاں ہے جس کو اہل زمانے کی بے خبری یا ناقدردانی نے خاک میں ملا رکھا ہے اور کسی نے اُس سے نفع اُٹھانے کا ارادہ نہ کیا۔ ایسے اہل کمال ہوتے کاہے کو ہیں۔
دنیاوی کاروبار میں اُس کو اس درجہ دقت نظر حاصل تھی ممکن نہیں کہ وہ کہیں پر چوک جاتا اور اپنا نقصان کر لیتا۔ پورے حالات تو اپنے موقع پر بیان ہوں گے، یہاں صرف ایک قصہ نمونہ کے طور پر لکھا جاتا ہے۔
اُس کے باپ نے اپنی بی بی کے لیے چاندی کے کڑے سُنار کو بنانے کے لیے دیے۔ ایسے پیشے والے جھوٹے ہوتے ہی ہیں۔ کئی بار وعدے کرتا رہا اور تیار کر کے نہ دیے۔ ایک دن شیخ چلی کو اس نے تقاضے کے لیے بھیجا۔ سُنار کڑے تیار کر چکا تھا صرف جلا باقی تھی۔ اُس نے شیخ چلی کو ٹھہرا لیا کہ ذرا دیر میں کڑے لیتے جاؤ۔ شیخ کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہی کڑے جو بن رہے ہیں میری ماں کے ہیں چپکا بیٹھ گیا۔
سُنار نے کڑوں کو سُہاگے میں لتھ کر کے آگ میں ڈالا اور خوب تپانے کے بعد نکال کے اور صاف کر کے شیخ کے حوالے کیے۔ شیخ بگڑ گیا کہ واہ! جلے ہوئے کڑے میں کبھی نہ لے جاؤں گا۔ ماں پہن کے گھر کا دھندا کرے گی۔ پھر پانی لگا اور یہ پگھلے۔ سُنار نے بہت سمجھایا۔ مگر وہ ہوشیار آدمی ایسے چکموں میں کب آتا تھا۔ آخر یہ طے ہوا کہ باپ کو لے جا کے دکھاؤ۔ اگر وہ جلے ہوئے سمجھ کے پھیر دے گا، میں دوسرے کڑے بنا دوں گا۔ شیخ اس پر راضی ہوا اور کڑے لے کے گھر چلا۔ اُس کی شوخ طبعی اور تیزی گھر تک پہنچنے کی کہاں متحمل تھی، اس لیے راستہ کے تالاب میں اُس نے خود ہی امتحان کے واسطے کڑے ڈالے جو فوراً ایسے گُھلے کہ غائب ہو گئے۔ لپکا ہوا باپ کے پاس آیا اور تمام واقعہ بیان کر کے کہا کہ سُنار نے ایک تو کڑے جلا دیے، دوسرے یہ ظلم کیا کہ ایسی دوا لگا کے جلائے تھے کہ میں نے جب پانی میں ڈالے ذرا بھی چاندی کی سفیدی نہ معلوم ہوئی اور بالکل گُھل کے اس میں مل گئے۔ باپ بیچارہ نے بیٹے کی اس کارستانی کو اس وجہ سے کہ بیٹے کو نظر نہ لگ جائے کسی سے نہیں کہا اور چپکا ہو رہا۔
ایک مرتبہ اس کے گھر کے جانور تالاب میں پانی پی رہے تھے۔ ایک بیل پانی پینے میں پیشاب بھی کرنے لگا۔ اُس نے دیکھا اور اُسی وقت ذبح کر ڈالا کہ ٹوٹا ہوا بیل کس کام کا۔
پانچواں باب
شیخ چلی کی شادی
غریب باپ کو جس قدر دقت اس معاملہ میں اٹھانی پڑی تمام عمر کو کافی تھی۔ جب سے وہ جوان ہوا باپ کو شادی کی فکر ہوئی اور اپنے قبیلہ میں کئی لڑکیوں کی خواست گاری اُس نے کی۔ لیکن شیخ چلی کی باریک بینی اور موشگافی سے سب نشانے ہیچ گئے۔ جب کہیں بات چیت ہوئی بھی کوئی امر طے نہ ہونے پایا تھا کہ آپ سُسرال پہنچ جاتے اور اپنا استحقاق زوجیت اضمار قبل الذکر کی طرح جتانے لگتے۔ ساتھ ہی یہ خواہش بھی پیش کی جاتی کہ ہماری منسوبہ جو عنقریب ہماری بی بی ہو گی، کیوں ابھی سے ہمارے ساتھ نہیں بھیج دی جاتی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس دانش مند شخص کو آج کل کے یورپ کے طریقۂ شادی کا موجد ہونا قدرت نے پہلے ہی مقدر کر دیا تھا یعنی اس درخواست سے اس کی غرض یہی تھی کہ جس عورت سے تمام عمر کا سابقہ ہے جو دنیا کی گاڑی کو میرے ساتھ کندھا دے کے ہمیشہ کھینچنے والی ہے، اُس کے اخلاق، عادات، تعلیم، تمیز، سلیقہ وغیرہ پر مجھے پہلے ہی سے مطلع ہو جانے کا ضرور حق ہے۔ دیکھ لو یہی طریقہ آج تمام دنیا میں جاری ہے اور نئی روشنی کے چشم و چراغ ایشیائی نوجوان جو یورپی تہذیب سے کامیاب ہو رہے ہیں اس طریقہ کو جاری کرنے میں کس قدر ساعی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ شیخ چلی کی یہ جلد بازی سراسر حکمت اور دور اندیشی پر مبنی تھی۔ مگر واے ناکامی اس وقت کی جہالت اور خاندانی رسموں نے اس کی بات پیش نہ جانے دی اور تابڑتوڑ ناکامیوں کا شکار بننا پڑا۔ شیخ چلی جب بہت تنگ آ گیا سرے سے شادی کا انکار ہی کر دیا اور باپ سے صاف کہہ دیا کہ یوں صبر نہیں کر سکتا جب تک میری منسوبہ میرے گھر نہ آ جائے، شادی کیسی۔ اس ضد نے شیخ کے باپ کو بہت پریشان کیا۔ ایک تو یونہی کوئی لڑکی اُس کے جوڑ کی اپنے کفو میں نہ تھی، دوسرے اس حکیمانہ طلب نے سب کو چونکا دیا اور شیخ چلی کے انکار سے پہلے ہی سب جگہ سے انکار ہو گیا۔
باپ تھک کے بیٹھ رہا اور مجنون عامری کے باپ کی طرح بیٹے کی سرشوریوں نے اس کا دل پاش پاش کر دیا۔ اب شیخ کو ہمت بندھی بلکہ ہٹ آ پڑی کہ ہم خود ہی اپنی بی بی ڈھونڈھ لائیں گے۔ چنانچہ وہ اپنے قصبہ سے نکلا اور سیدھا بداؤں پہنچا۔ جن صاحبزادہ کا قصہ عالم میں مشہور ہے کہ ان کے باپ کے دوست دروازہ پر آئے تو صاحبزادے لونڈی کے گود میں باہر نکلے۔ ماشاء اللہ اس وقت سترہ برس کا سن تھا۔ آنے والے نے برخوردار سے پوچھا میاں کیا پڑھتے تو گردن پھرا کے فرمایا بوا بتا دے “ٹل ہو اللہ”۔ وہ صاحبزادے اب اچھے خاصے جوان ہو چکے تھے۔ شیخ کو راستہ میں مل گئے اور بہت آؤ بھگت سے اپنے گھر لے گئے۔ شیخ کی مہمانی میں انھوں نے کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ مگر شیخ کو ذرا لطف نہ آیا۔ وہ دلہن کی فکر میں ایسا غلطاں پیچاں تھا کہ کھانا بھی اچھا نہ معلوم ہوا۔ میزبان نے سبب دریافت کیا تو شیخ نے اپنا قصہ اور قصد بیان کیا۔ حرف مطلب سنتے ہی میزبان رو پڑا اور شیخ کو لپٹ گیا۔ بات یہ کہ اسی آفت میں وہ بھی مبتلا تھے۔ شیخ نے ان کو سمجھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ فوراً اس خیال سے کہ کہیں ایسا نہ ہو میں جو فکر اپنے لیے کروں، وہی اس کی سمجھ میں بھی آ جائے اور میری مطلوبہ کو چھین لے۔ اسی وقت میزبان سے بہت بدمزگی کے ساتھ رخصت ہوئے اور بازار میں ایک دکان خالی دیکھ کر رات کی رات پڑ رہے۔ صبح کو محلوں کی سیر کو نکلے۔ آدمی سجیلے نکیلے تھے۔ ماوراء النہری خون کی گلکاریاں چہرہ سے ظاہر تھیں۔ گلی میں جو دیکھتا حیرت میں آجاتا۔ چال ڈھال بھی زمانے سے نرالی تھی۔ کہیں تو قدم پھونک پھونک کے دھرتے، کہیں پینترے بدلتے ہوئے چلتے۔ اکثر الٹے پاؤں چلنے کے کرتب دکھاتے۔ غرض کہ جس موقع پر جیسی ضرورت ہوتی وہ دانش مند اپنے سے ویسا ہی ٹھاٹ بدل لیتا۔
اس طرح آوارہ پھرتے پھرتے وہ ایک بڑے محل کے دروازے پر پہنچے اور بے کھٹکے اندر جانے کی ضرورت سے انھوں نے ڈیوڑھی میں قدم رکھا۔ دربانوں کے روکنے سے وہ کیا رک سکتا تھا۔ لیکن اس بے وجہ بد تہذیبی سے متاثر ہو کر جو دربان نے انکے ساتھ کی تھی وہیں ٹھہر گئے اور دیر تک غصہ میں روتے رہے۔ دو ایک آدمی اور جمع ہو گئے تب شیخ نے اپنے حالات خاص بیان کیے اور صاحب خانہ سے ملاقات کا اشتیاق ظاہر کیا۔
وہ دولت سرا جناب شریعت پناہ قاضی القضاۃ کی تھی۔ اس زمانے میں قاضی بدر الہدیٰ اس مسند پر جلوہ فرما تھے۔ سپاہیوں نے قاضی صاحب کو اطلاع دی۔ انھوں نے نہایت اخلاق سے شیخ کو اندر بلایا اور معمولی مراسم کے بعد استفسار حال کیا۔ شیخ نے اپنی شادی کی درخواست کو بہت ہی مؤدب طریقہ سے پیش کیا اور بعد بہت سی رد و قدح کے قاضی صاحب نے اپنی خانہ زاد لونڈی کے ساتھ عقد قرار دیا۔ شیخ کو نہیں معلوم تھا کہ وہ جاریہ زادی ہے۔ عقد پر راضی ہو گئے۔ مگر معمولی ہلا پتی میں قبل نکاح کے اپنی منسوبہ سے ملنے کی درخواست پیش کی۔
قاضی صاحب نے بہت سمجھایا لیکن ایسا تجربہ کار آدمی کب ماننے والا تھا۔ ناچار قاضی کے شرعی انکار پر شیخ ناراض ہو کر چلا آیا اور بہت حیران ہوا کہ شادی کیسے ہو اور کہاں سے ڈھونڈھ کے بی بی لانا چاہیے۔ اس فکر میں وہ دو روز تک برابر ایک غیر نافذہ کوچہ کی موڑ پر بیٹھا رہا اور عہد کر لیا کہ جب تک اپنی مرضی کی بیوی نہ ڈھونڈھ لوں گا کھانا پینا حرام ہے۔ سچ کہا ہے “جویندہ یابندہ”۔
تیسرے روز سویرے ایک سڑان نوجوان عورت خوب گدبدی ایک خاص مستانہ ادا سے اُدھر سے نکلی اور شیخ کی طرف نگاہ اٹھا کے دیکھا ہی تھا کہ شیخ بول اٹھا ؏
پہچانتی ہو وہ طبلہ والا
دل کا میلان یا قدرتی سامان کچھ سمجھنے کی بات نہیں۔ آنکھ چار ہوتے ہی دونوں میں وہ میل جول ہوا کہ برسوں کے شیدائیوں اور چاہنے والوں میں کیا ہوگا۔ شیخ کی اداشناسی کا امتحان ایسے ہی وقت پر منحصر تھا۔ اس نے سر سے پانوں تک ایک بار اسے دیکھا اور گویا تمام اندرونی بیرونی خوبیوں کی سلیس لکھی ہوئی کتاب پڑھ لی جس کے مطالب و معانی میں غور کرنے کی اُسے ذرا بھی مشکل نہ پڑی۔ اسی وقت نظر نے سب کچھ تاڑ لیا کہ ہو نہ ہو یہی میرے لیے راحت اور باعث آسائش ہو۔ غرض کہ دونوں نظر باز ایک دوسرے کو تاڑ گئے اور ایسے بے تکلف ملے کہ پھر جدا نہ ہونے کی قسم کھا لی۔ شیخ کوئی معمولی آدمی تھا نہیں، آناً فاناً اس کے انتخاب اور پسند کا چرچہ ہو گیا اور ہر طرف سے لوگ امنڈ آئے۔ غریب الدیار آدمی اُس پر اتنا بڑا ذہین عقیل۔ سب نے اس کے ساتھ خالص ہمدردی کی۔ اور اس برخوردار جوڑے کو ایک مرفہ الحال آدمی اپنے ہمراہ لے گیا۔ دوسرے ہی دن قاضی صاحب نے آ کے نکاح پڑھ دیا ؏
ہو گئی دھوم دھام سے شادی
چھٹا باب
امتحان روزگار
شادی ہوئے پانچ برس بھی نہ گذرے تھے کہ تین چار بچے شیخ کے یہاں ہو پڑے۔ شیخ کے ماں باپ دونوں شادی کے قبل ہی انتقال کر گئے تھے۔ اثاثہ خاندانی میں بڑی چیز کچھ غلہ چند بیل تھوڑی زمین ایک مکان شیخ کو ملا تھا۔ غلہ تو پہلے ہی سال ہو ہُوا گیا۔ بیلوں کو اُس نے اپنی جبلی رحم دلی کی وجہ سے آزاد کر دیا اور زمین کی نسبت اُس کو ہمیشہ اپنی ایمانی قوت سے یہ شبہ رہا کہ ذرا بھی میں نے اس میں تردد کیا یا اس کو کھودا تو یقیناً خزانہ نکل آئے گا جو دوسرے لوگ مفت مجھ سے چھین لیں گے۔ مکان اس نے اپنے قبضہ میں رہنے دیا اور اپنی محبوبہ بیوی اور بچون کے ساتھ اُس میں بسر کرتا تھا۔
گھی کے گھڑے کا مشہور قصہ اہل زمانہ کی نافہمی یا شوخ مزاجی سے شیخ کی طرف بہت ہی بڑے اور قابل نفرت نتیجہ کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس سچے قصے کے رموز اور غوامض پر اگر غور کیا جائے تو وہ ایک محنتی دنیادار، ایک اصولی تاجر، ایک متمدن دانش مند، ایک بلند نظر اور مہربان افسر خاندان تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ضرورت وقت کے لحاظ سے اُس نے گھی کا گھڑا اُجرت پر پہنچا دینے میں جو آمادگی ظاہر کی اُس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ کام چور اور محنت سے بھاگنے والا اسامی نہ تھا اور زمانے کی نگاہ اور ضرورت کی ہوا پہچاننے میں بڑا ہی صاحب نظر تھا۔ پھر جب اس نے یہ منصوبہ باندھا کہ اس اُجرت سے میں مرغی لوں گا اور مرغی کے انڈے بیچ کے بکری خریدوں گا، بکریوں کو ترقی دے کے گائے اور پھر بھینس اور پھر گھوڑوں کا سوداگر بنوں گا۔ اس کے بعد ہاتھیوں کا بیوپار کروں گا۔ اس حد تک وہ ایک ماہر تاجر اور تجارت کے تمام جزئی و کلی امور پر کامل بصیرت رکھنے والا انسان تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ دنیا میں آج اور آج سے ہزاروں برس پہلے تجارت کے یہی اصول مانے جاتے ہیں کہ یورپین تجارت کو دنیا بھر میں اس وقت جو کامیابی اور فتح حاصل ہے اُس کی ابتدا یوں ہی ہوئی ہے۔ انگریزوں کا ابتدائی داخلہ ہندوستان کی تاریخ کے ورقوں میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے، اس سے ذرا بھی الگ نہیں ہے اور اسی طرح تجارت کے ساتھ ایک ایک قدم بڑھتے بڑھتے آج تمام ہندوستان کی سلطنت انگریزوں کے ہاتھ میں ہے۔ پس شیخ کی یہ خیالی ترقیِ تجارت ہرگز مضحکہ کے قابل نہیں ہے اور اگر اتفاقی اور تقدیری حرکت سے گھڑے کو گردن کی غصہ آمیز جنبش نے زمین پر نہ پٹک دیا ہوتا تو ہم دکھا دیتے کہ شیخ الغنم ملک التجار کے یادگار خاندان کا عروج اقبال کہاں تک پہنچا ہے۔ ہاتھیوں کی تجارت کے بعد جو خاکہ اس نے کھینچا تھا اس کے اعتبار سے اس کی تدبیر منزل اور تمدنی قوت کا اندازہ کرنے میں بڑے بڑوں کا وہم و قیاس قاصر ہے۔ چونکہ وہ ایک پُرمحبت شوہر اور مہربان باپ بننے کی استعداد رکھتا تھا، لہذا اس نے اپنی خیالی دولت کو پہلے ایک امیرانہ عمارت کی طرف صرف کرنے میں پسند کیا اور ہونا بھی یہی چاہیے تھا۔ اس عمارت کے نقشے اور ایوان امارت کی تقسیم میں جو کچھ اس نے قابلیت دکھائی اُس سے اُس کی خلقی ریاضی دانی اورفن انجینری میں اعلیٰ مہارت ثابت ہوتی ہے اور پھر اس کے سجنے اور آرائش میں تدبیر منزل کی تمام ضرورتیں اس کے پیش نظر تھیں۔ اسی سلسلہ میں اس نے ان تمام ضروریات کو مکمل تسلیم کر کے شادی کی تجویز بھی کر لی اور اُس کے نتائج یعنی توالد و تناسل کی اصلی غایت پر کس قدر صحت اور عجلت کے ساتھ اُس کا ذہن منتقل ہوا ہے جس کی مثال ہر متمدن اور متاہل دانش مند میں پائی گئی ہے۔ الغرض اس نقل کو ابناے روزگار نے نے جس حد تک نقل محفل بنا رکھا ہے اس سے کہیں زیادہ اُس کی شان ارفع اور اعلیٰ ہے۔ اگر شیخ کا یہ منصوبہ جو شادی کے قبل زمانہ کا ہے پورا ہو جاتا تو اس وقت جبکہ وہ بچوں کی ضروریات اور جورو کی فرمائشوں سے باوجود کمال مستقل مزاجی کے کسی قدر کسی وقت پریشان نظر آتا ہے، ہرگز اس کی نوبت نہ آتی مگر سوء تدبیر بڑے بڑے مدبران سلطنت کو بھی مٹا چکی ہے۔ وہی سلوک اس غریب شیخ کے ساتھ ہوا کہ بچوں پر گھرکنے کی خیالی ادا نے بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا اور گھڑے کے گرنے سے اُس کی تمام امیدیں خاک میں مل گئیں۔
میرے نزدیک اہل کمال کی وہ عام پریشان حالی جو ضرب المثل ہے اور جس کی حکایتیں تاریخ عالم میں اس قدر کثرت سے موجود ہیں کہ کوئی نظیر پیش کرنے کی ضرورت نہیں، اسی کلیہ میں ہمارا شیخ بھی پابند تھا اور کچھ نہیں کہ اس کی غیر معمولی خلقت اور غیر معمولی صداقت ذہنی اور اعلیٰ درجے کی طباعیاں خود اس کی کامیابیوں کے لیے سد راہ ہو جایا کرتی تھیں۔
بیچارہ شیخ بال بچوں کی کثرت سے اکتا گیا اور اس کی حکیمانہ طبیعت نے اپنی آزادی پر مضبوط پھرے تو اُس کو بہت الجھن ہوئی۔ ہرچند یوں بھی کہ وہ اپنی بے قید فطرت کے اعتبار سے کچھ زیادہ بال بچوں کے دھندوں میں پھنسنا پسند نہ کرتا اور نہ کبھی اس نے خود داری کو ہاتھ سے جانے دیا۔ بلکہ بارہا اُس نے بچوں کے ہاتھ سے روٹی چھین کے صرف اس خیال سے کھالی کہ بچہ اگر ایک وقت بھوکا رہا تو مضائقہ نہیں، میں بھوکا رہوں گا تو دوسرے وقت کی روٹی کما لانے کی قوت ہی نہ رہے گی۔ اس فعل میں اس کو کبھی کبھی طبی اصول کا بھی لحاظ رہتا تھا۔ وہ جانتا کہ بچوں کی نازک امعا میں خشک روٹی سُدّوں کی تولید کا باعث ہوگی جس کے روکنے کی ہر مہربان ماں باپ کو ضرورت ہے۔
یہ زمانہ شیخ کے لیے انتہا کے کڑے امتحان کا تھا اور دنیا داروں میں شاید ہی کوئی اس امتحان سے بچا ہو۔ مگر اس عالی ہمت بلند نظر نے جس خوبی اور خودداری سے اس امتحان کو پاس کیا ہے اور اس مسئلہ کو طے کر گیا ہے وہ دوسرے کا حوصلہ نہ تھا۔ بیوی کی فرمائشیں تو کیا دھیان میں لانے والا تھا، مگر چڑچڑے پن اور زبان درازی سے البتہ بہت گھبراتا تھا۔ مگر ہمیشہ اس نے ایک غیرت مند شوہر کی طرح اُس کی بدمزاجیاں برداشت کیں۔ گو بیوی اس کی پسند کی اور خلقتاً اس سے موافق مزاج تھی مگر غیرت اور تکلیف اچھے اچھے صابرین اور غم خوار لوگوں کا قدم ڈَگا دیتی ہے۔ اِسی وجہ سے اس کی محبوبہ بیوی اس کے دق کرنے پر مجبور تھی اور بچوں کی چل پوں الگ جان کھائے جاتی تھی۔ گو شیخ خود بچوں کے ساتھ اتنا زیادہ مانوس نہ تھا کہ اُن کی سرشوریاں سہے مگر بیوی کی آزردگی اور دلگیری کا خیال سب کچھ برداشت کرا رہا تھا۔ مگر با ایں ہمہ اس نے نہ کبھی قرض لیا نہ چوری کی۔ محنت مزدوری سے جب تک کام نکلا۔ مگر جب اُس سے بھی پورا نہ پڑا تو وہ بے تکلف کسی بنیے بقال کی دکان پر چلا جاتا اور جو کچھ اناج پانی نقد جنس اس کے ہاتھ لگتا اٹھا لیتا۔ لالا جی یوں ہی بڑے بہادر ہوتے ہیں اس پر شیخ کی معمولی آزادی کی دھاک سے مجال نہ تھی کہ اس کو کوئی روک سکے بلکہ شیخ کی آمد دیکھ کے وہ دست درازی یا دست اندازی کی نوبت ہی نہ آنے دیتے اور ہنسی خوشی خاطر مدارات کر دی جاتی۔ شیخ کی نسبت ان افعال سے یہ گمان پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ سینہ زور اور مفت خور آدمی تھا۔ مگر یہ گمان انھی لوگوں کا ہوگا جو سطحی اور اوپری باتوں کو دیکھتے ہیں ورنہ شیخ اصول سے باہر کبھی قدم نہیں رکھتا تھا۔ اور درحقیقت غور سے معلوم ہوگا کہ یہ فعل اس کا کچھ بھی بدنما اور قابل ملامت نہیں ہے، کیونکہ وہ اس بات کا سچے دل سے قائل تھا کہ جو کچھ انسان کو ملتا ہے خدا ہی دیتا ہے اس میں کسی کے باپ کا اجارہ نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ تمدنی قاعدہ سے سمجھا ہوا تھا کہ ہر انسان دوسرے انسان کا محتاج ہے اور ممکن نہیں کہ دنیا میں اکیلا آدمی کچھ کر سکے۔ جب یہ کلیہ تسلیم کر لیا گیا تو ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بنی نوع انسان ایک دوسرے کی مدد پر مجبور ہیں اور کچھ فرض نہیں ہے کہ امداد کے لیے ظاہری رضامندی یا معمولی ارادہ اور قصد پیدا ہونے کے بعد ہی امداد بھی تسلیم ہو چکی تو ہر شخص کے مال و ملک میں دوسرے شخص کا حصہ ضرور ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ میں بنیے بقال سے اپنے حق اور حصہ کے حاصل کرنے میں ان کی رضامندی اور اجازت کا منتظر رہوں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ قرضہ کے ناقابل برداشت بار اور اُس کے نفرت انگیز عزت باز نتائج سے ہمیشہ محفوظ رہا اور نہ اس کو ضرورت وقت اور احتیاج نے چوری وغیرہ سقیم جرائم پر متوجہ اور مائل کیا۔ مگر اس امداد غیر اختیاری یا خود مختاری کا سہارا کچھ ایسا مستحکم او دوامی تو تھا نہیں کہ اس کو بہت عرصہ تک فارغ البال اور بے فکر رکھے۔ بلکہ ابناے روزگار کی تنگ دلی اور کم ہمتی یا مہمل بخل نے اُس کو ایسے قابو اور دست رس کے موافق سے دوسرے طور پر محروم اور مایوس کر دیا اور اس بدخلقی اور بے مروتی سے وہ ایسا متاثر ہوا کہ گھر چھوڑنے پر پوری آمادگی ہو گئی۔
ساتواں باب
سفروسیلۃ الظفر
قصبہ چلہ کی خلقت اورخاصۃً اہل تمول اور بنیے بقالوں کی اذیتوں اور بے مروتیوں نے شیخ کو جب بہت ہی دلگیر اور مجبور کر دیا تو اس نے اپنی بیوی سے مشورہ کرنا ذرا ٹیڑھی کھیر خیال کیا کہ مجھ کو کیا کرنا چاہیے اور نیز وہ خود ایک معلومات کا خزانہ تھا اور یہ بھی سمجھتا تھا کہ عورت ناقص العقل ہوتی ہے اس لیے اس نے چپکے چپکے اپنے ارادے کی تکمیل کے اسباب پر غور کرنا شروع کیا اور جب تمام دقتوں اور مشکلوں کو اس نے اپنی عالی ہمتی سے مار کے ہٹا دیا تو دفعتاً وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بغیر تعین اس امر کے کہ کہاں جاؤں گا آدھی رات کو گھر سے نکل گیا۔ چونکہ ہم شیخ کی سوانح عمری میں اُس کے اُن دھبوں کے مٹانے کا قصد کر چکے ہیں جو اس کے دامن ناموری پر لگا گئے ہیں اور جہاں تک امکان میں تھا ہم نے صحیح صحیح حالات فراہم کر لیے ہیں اور مدتوں کی عرق ریزی اور محنت سے یہ واقعات جمع کر سکے ہیں۔ اس واقعہ کے تسلیم کرنے میں بالکل انکار ہے جو بڈھی عورتیں بچوں کے بہلانے کے لیے ایک کہانی میں اُس کی نسبت بیان کیا کرتی ہیں اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شیخ چلی جب جوان ہوا تو گھر میں عسرت تھی۔ اُس کی بوڑھی ماں نے بیٹے کو کمانے کی ترغیب دی مگر وطن میں اُس کی لیاقت کا اندازہ کرنے والا کون تھا، اس لیے وہ دلی جانے پر آمادہ ہوا۔ ماں نے چار روٹیاں توشہ سفر کے لیے پکا دیں۔ وہ سویرے اُٹھ کے چلا اور دوپہر کو ایک کنویں پر پہنچا۔ چاروں روٹیوں کو چاروں کونوں پر رکھ کے کہنے لگا: ایک کو کھاؤں، دو کو کھاؤں، تین کو کھاؤں، کیا چاروں کو کھا لوں۔ قضا را اس کونے میں چار پریاں رہتی تھیں، وہ ڈریں کہ اللہ ایسا کون زبردست ہے جو ہم کو کھانے آیا ہے۔ مگر شیخ کی بے ساختہ تقریر سے سمجھ گئی تھیں کہ ہے کوئی تیکھا ہی۔ ناچار چاروں نے تجویز کی کہ اس کو کچھ رشوت دے کے ٹال دینا چاہیے۔ چنانچہ اُنھوں نے ایک بکری اس کو دی جو سونے کی مینگنیاں گراتی تھی۔ شیخ اس کو لے کے پلٹے تو سرا میں اُترے۔ بھٹیاری نے بکری اور مینگنیوں کو دیکھا تو ششدر ہو گئی اور بے ایمانی سے رات کو بکری بدل لی۔ دوسری بکری شیخ کے گلے منڈھی۔ وہ خوش خوش گھر آئے، ماں سے خوش خبری کہی کہ بکری ملی ہے اس کی سونے کی مینگنیاں ہوتی ہیں۔ ماں نے باندھا اور انتظار کیا تو بکری نے وہی معمولی مینگنیاں ڈالیں۔ شیخ حیران ہو گئے اور چار روٹیاں باندھ کر چلے اور کنویں پر وہی عمل کیا۔ اب کی بار ایک مرغی ملی جو سونے کا انڈا دیتی تھی۔ مگر سفاک بھٹیاری نے اُسے بھی اُڑا لیا۔ تیسری بار گئے تو ایک دیگچی ملی جس میں یہ تاثیر تھی کہ لیپ پوت کے چولھے پر چڑھادیا اور جو نعمت مانگی پک کے تیار ہو گئی۔ بھٹیاری کو خدا سمجھے اُسے بھی لے مری۔ ایک ٹھیکرا پتیلی دے کے شیخ کو رخصت کیا۔ چوتھی بار شیخ گئے تو پریوں نے تاڑ لیا کہ اس بیچارہ سے کوئی وہ چیزیں چھین لیتا ہو تب انھوں نے ایک سونٹا اور ایک رسی حوالے کی کہ رسی حکم دیتے ہی مشکیں باندھ لے گی اور سونٹا خود بخود پیٹ چلے گا۔ شیخ اب کی بار جو سراے میں آئے تو بھٹیاری کو کوئی چیز نظر نہ آئی اور رسی سونٹے پر اس کی توجہ ہی مائل نہ ہوئی۔ شیخ بھی چپکے ہو رہے۔ رات کو شیخ نے اپنے جی میں کہا: لاؤ اس کا امتحان کریں اور فوراً رسی کو حکم دیا کہ بھٹیاری اور اس کے گھر بھر کی مشکیں کس لے۔ رسی نے فوراً تعمیل کی تب تو شیخ نے کہا: “چل سونٹے تیری باری”۔ سونٹا اُٹھا اور گداگد پیٹنے لگا۔ دہائی ہے تہائی ہے۔ بھٹیاری قدموں پر گر پڑی اور سب چیزیں بکری، مرغی، پتیلی شیخ صاحب کے حوالے کردیں اور وہ گھر لے آئے۔
اس کہانی کی اصولی غلطیاں تو ایک طرف سطحی باتیں بھی اس قابل نہیں کہ ایسے فخر روزگار کی طرف نسبت دی جائے۔ مثلاً روٹیوں کو رکھ کے اُن کے کھانے کا سوال ایک لغو بات تھی، وہ تو کھانے ہی کے لیے ہیں پھر شیخ ایسی تحصیل حاصل میں کیوں پڑتا۔ اس کے بعد پریوں کا ڈرنا اور رشوت دینا بالکل جھوٹ ہے کیونکہ پریوں کو انسان کھا ہی نہیں سکتا بلکہ دیو پری انسان کا ناشتہ البتہ کیا کرتے ہیں، جب ہی تو تاج الملوک ڈرا تھا اور دیو نے بھی شکر کیا تھا کہ اللہ اللہ مدت کے بعد حلواے بے دود ملا ہے اور فرض کرو کہ پریوں کو بمقتضاے بشریت([2]) خوف ہوا تھا تو جب نکل کے دیکھا تو ایک مفلوک مفلس کو دیکھا ہوگا جس سے ڈر گیا کیونکہ وہ ایک یہ چار کیا بنا لیتا۔ بکری سونے کی مینگنی نہیں کرتی نہ مرغی سونے کا انڈا دیتی ہے۔ اور بھلا دیگچی میں بغیر جنس ڈالے کیسے کھانا پک سکتا ہے۔ سونٹا اور رسی بے جان چیزیں ہیں، ان میں ارادہ یا حکم کی تعمیل کجا۔ الغرض یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ ہمارے شیخ صاحب پر محض بہتان باندھا گیا۔
شیخ گھر سے نکلا تو راستے کی صعوبت کا حال اور منزل اور مقام کی تفصیل ہم اس لیے نہیں بتا سکتے کہ اُس نے کوئی سفرنامہ اپنا نہیں چھوڑا اور ہو بھی تو قلمی کتابوں میں کسی خاص کتب خانہ میں پڑا ہوگا۔ زمانہ کی ناپرسانی ایسی بیش بہا چیزوں کو باہر آنے کا موقع ہی نہیں دیتی۔ ہمیں جو کچھ پتہ چلا یہ ہے کہ شیخ صاحب مدتوں مارے مارے پھرتے رہے اور کہیں تھل بیڑا نہ لگا۔ آخر اکبر آباد پہنچے۔ شہنشاہ اکبر اعظم کا زمانہ تھا، اہلِ کمال کی اتنی قدر اس سے بھی پہلے نہ اس سے بعد کبھی ہوئی نہیں۔ ہر طرف سے عقلاے روزگار اور ہر فن کے کامل چلے آتے تھے۔ دربار میں داخل ہوئے اور پاس ہو گئے۔ شیخ جس دن اکبر آباد میں پہنچا ہے، دو پیسے اُس کے پاس باقی تھے۔ بیچارہ سرا میں پہنچا اور اپنی معمولی دریا دلی اور فیاضی سے بھٹیاری سے کئی کھانوں کی فرمائش کردی اور اُس دن سرا کے سب مسافروں کو دعوت بھی دے دی کہ ہمارے ہی ساتھ ماحضر تناول فرمائیں۔ بھٹیاری نے بنیے سے سودا لیا اور کھانا وانا پکا کے شیخ کو مع دعوتیوں کے کھلایا۔ صبح کو شیخ جی سے دام جو مانگے یہاں کیا دھرا تھا ٹھن ٹھن گوپال وہی دو پیسے پھینک دیے۔ بھٹیاری حق حیران کہ معاملہ کیا ہے۔ جب ذرا بات کھلی تو میاں جما مہتر بھٹیاری کے کمترین شوہر بھی آدھمکے، اُدھر سے بنیا بھی لیے ہوئے دوڑا۔ اب آؤ تو جاؤ کہاں، شیخ کے حواس پیترا ہو ہی چکے تھے کہ دفعتاً ایک بزرگ شریف صورت مقطع متشرع سراے میں پہنچے اور چونکہ ادھر بڑا مجمع تھا اور غوغو پشتو ہو رہی تھی، آپ بھی اُسی طرف چلے آئے۔ یہ مولانا عبد القادر بدایوانی تھے جنھوں نے اکبر کی تاریخ بڑی دھوم کی لکھی ہے اور اکبر کو مذہباً کافر ملحد قرار دیا ہے جس کی نسبت آج تک جمہور اہلِ علم و اہلِ دول میں مذاکرے جاری ہیں اور قول فیصل اب تک نہ ہوا کہ فی الواقع اکبر کا مذہب کیا تھا۔ غرض کہ مولانا کے آتے ہی سب چُپ ہو گئے کیونکہ آپ ایک مشہور معروف آدمی اور دربار اکبری میں بھی بہت با اثر تھے مگر مُلا اور بالکل سادہ مزاج تھے۔ ان کو اپنے اعزاز دنیا یا علوے کمال اور تبحر علمی کا ذرا بھی غرہ یا گھمنڈ نہ تھا اور اس وقت تشریف لانے کی غایت یہ تھی کہ آپ کے وطن سے کوئی بزرگوار آنے والے تھے۔ دن بہت ہو گئے تھے۔ انتظار سخت شاق تھا۔ آج خود ہی سرا میں بہ نفس نفیس اُن کو ڈھونڈھنے چلے آئے۔ وہ تو ہنوز راہ ہی میں ہوں گے کہ یہاں اس ہنگامہ میں شیخ صاحب ان کو نظر پڑے۔ آدمی مردم شناس تھے، وضع قطع نے بھی کچھ بتا دیا اور تاڑ گئے کہ یہ شخص تو ہمارے جوار کا معلوم ہوتا ہے۔ دریافت کرنے سے رہا سہا شک بھی جاتا رہا اور قصبہ چلہ کا نام سُن کے مولانا نے شیخ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ بھٹیاری کی اُجرت اور بنیے کے دام خدمت گار سے دلا دیے اور مکان پر لے آئے اور شیخ نے اپنے حالات سفر اور تجربات عظیم کا دفتر مولانا کے سامنے کھول دیا۔ مولانا کو شیخ کی ہمدردی کا خیال فطرتاً ہونا چاہیے تھے۔ مگر مجبوری یہ تھی کہ آج کل بعض دربار رس لوگوں سے ان بن ہو گئی تھی کیونکہ اکبری([3]) دربار میں مذہب کے متعلق اختراعات اور بدعات ہو رہے تھے۔ مولانا اُس سے بہت ہی بیزار تھے اور بہتیروں پر کفر کے فتوے جڑ دیے تھے۔ اس لیے چند روز سے آپ کا دربار بند تھا۔ سوچتے سوچتے خیال آگیا کہ ملا دوپیازہ سے مجھے خلاف نہیں ہے اور وہ خود بھی ان بدعتوں سے متنفر ہیں۔ مگر ضرورت وقت سے ظاہر نہیں کرتے۔ لاؤ اُن سے شیخ کی تقریب کر دیں۔ چنانچہ مولانا نے ملا صاحب کی خدمت میں ایک اشتیاقیہ رقعہ دے کے اپنے خدمت گار کو بھیجا۔ وہ اُسی وقت دربار سے آئے تھے اور کمر کھول رہے تھے اور آج معمول سے زائد خوش بھی تھے کیونکہ بیربل کو اکبر کے سامنے کئی لطیفوں میں زک دی تھی اور خاطر خواہ انعام ملا تھا اور نیز مولانا کے علم و فضل کے معتقد بھی تھے، زبانی کہلا بھیجا کہ آج رات کو خفیہ طور سے میں آپ سے ملوں گا۔
اس وعدے کی تکمیل یوں ہوئی کہ ملا نے ایک بیراگی کا روپ بھرا اور چمٹا کھٹکاتے ہوئے مولانا کے دروازہ پر پہنچے۔ پہلے تو خدمت گار نے روکا مگر جب ملا صاحب نے اپنی انگوٹھی مولانا کے پاس بھیج دی تو بُلا لیے گئے اور بعد معمولی مزاج پُرسی جناب شیخ صاحب کا تعارف کرایا گیا۔ مولانا نے ملا صاحب سے مسکرا کے یہ بھی کہہ دیا کہ آپ کے ملحد بادشاہ کے دربار نورتن میں ایک آدمی کی جگہ آج کل خالی ہے۔ ہمارے شیخ صاحب اس کمی کو پورا کر دیں گے۔ ملا صاحب نے شیخ کے ناصیۂ حال اور مجمل قیل و قال سے اندازہ کر لیا کہ ایسا باخبر اور ضروری شخص بے شک دربار ہی کے قابل ہے۔ اُسی وقت ساتھ لے کے مکان پر آئے اور دوسرے دن جب دربار میں جانے لگے تو شیخ صاحب سے کہہ گئے کہ میں چوبدار بھجوا دوں گا۔ تم دربار میں چلے آنا اور دربار کے ادب آداب بھی بتا دیے، جس کی ضرورت ہماری راے میں ایسے ذہین شخص کے لیے بالکل نہ تھی۔
خلاصہ یہ کہ آج ملا صاحب نے جب اکبر کو گرما گرم لطیفوں میں اپنے ڈھب پر لگا لیا تو شیخ صاحب کی تقریب کی اور کچھ اس برجستگی اور شوخی سے اس کو ادا کیا کہ اکبر پھڑک گیا اور فوراً حاضری کا حکم دیا۔ شیخ صاحب بایں ہیئت کذائی دربار میں پہنچے کہ لوٹا ڈور کاندھے پر تھا اور شترنجی سے کمر کسے ہوئے تھے۔ سر پر ملا صاحب کا پُرانا رفیدہ ڈھانک لیا تھا جو مقدار علم سے ذرا بھی زائد نہ تھا۔ اکبر نے ایسے باخبر شخص کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ وجہ یہ تھی کہ جس شخص کی سادگی اور بے تکلفی کا یہ عالم ہو کہ ہر وقت سفر پر تیار رہے، اُس سے عجیب و غریب کام بن پڑنے کی توقع ہرگز غلط نہیں ہے۔ چنانچہ اُسی وقت شیخ صاحب کا سیاہہ ہو گیا اور نورتن میں داخل ہو گئے۔
آٹھواں باب
کمال باعث و اقبال
شیخ چلی دربار میں اپنے جوہر قابلیت، لطافت مزاج، حُسن سلیقہ، حذاقت ذہن، قوت اختراع سے ہر دلعزیز ہو رہا ہے۔ علامہ ابو الفیاض فیضی اور اور علامہ ابو الفضل نے دھوم دھام سے الگ الگ اُس کی دعوتیں کیں مگر بایں ہمہ وہ اپنی بے روک طبیعت اور خالص آزادی سے ان کی غلطیوں سے بھرے دربار میں کبھی چشم پوشی نہیں کرتا اور بے دھڑک اعتراض جڑ دیتا ہے۔ فیضی نے تفسیر سواطع الالہام جب اکبر کے سامنے پیش کی ہے، سارا دربار دنگ ہو کے رہ گیا اور بڑے بڑے کملا و فضلا کے منہ پر ہوائیاں چھوٹنے لگیں۔ اکبر گو خود بے علم تھا مگر علم شناس اور قدردان اس کے برابر ہوا ہی نہیں۔ اس کو بھی حیرت تھی کہ تیس جز کی عربی تفسیر القرآن لکھی جائے اور ایک حرف نقطہ دار نہ آنے پائے۔ نہ عربیت اور محاورۂ عرب کے خلاف عبارت ہو واقعی اس سے زائد کمال قرب بمحال ہے۔ مگر یکتاے عصر شیخ نے سر دربار وہ جید اعتراض قائم کیا کہ فیضی بھی منہ دیکھ کے رہ گیا۔ آپ نے فرمایا کہ فیضی کے نام میں ایک حرف بھی بے نقطہ نہیں ہے پس جب تک تمھارا نام بھی بے نقطہ نہ آجائے کتاب کوڑی کام کی نہیں اور یہ محال ہے۔ اس لطیفہ پر دربار پھڑک گیا اور شیخ صاحب نے معرکہ مار لیا۔
اس قسم کی گل فشانیاں شیخ صاحب کی روز ہوا کرتی تھیں اور ان کی مدارات بھی برابر جاری تھی۔ مگر کوئی خاص کار نمایاں نہ ہوا تھا جس سے اعلی ترقی کا موقع ملتا۔ دفعتاً ہیمو بقال کا واقعہ پیش آیا اور اس نے علم بغاوت بلند کیا۔ اکبر کی خلقی اولو العزمی ایسی خفیف بغاوت کو خیال میں بھی نہ لاتی۔ مگر شیخ چلی نے کمال ہی کیا کہ بادشاہ کو فوری توجہ کی ضرورت پڑی۔ واقعہ یہ ہے کہ ہیمو کی سرکشی کی خبریں جب حد تواتر کو پہنچ گئیں اور نہ اس کی سرکوبی کی ہنوز کوئی تیاری بادشاہ کی طرف سے ہوئی تھی کہ ملا صاحب کی زبانی یہ تمام واقعہ شیخ صاحب کو معلوم ہوا۔ ان کو انتہا سے زیادہ نہ تھا آیا اور بے حد پیچ و تاب کھا کے دربار میں پہنچے۔ اکبر ابھی چوکے ہی میں تھا کہ آپ نے حاضری کی اجازت چاہی مگر موقع نہ ملا، اور بھی بگڑے اور خون پی کے رہ گئے۔ جب بادشاہ برآمد ہوئے، شیخ نے عرض کیا کہ اتنے بڑے بادشاہ سے ایک بقال کا یوں بگڑ بیٹھنا بالکل واہیات ہے۔ ہمارے چلہ میں جتنے بنیے بقال تھے ہم سب کو دبائے رکھتے تھے۔ کوئی چوں تک نہیں کرتا تھا۔ آپ کا اس نے کچھ بھی خیال نہ کیا۔ ہم ایسے بادشاہ کی نوکری نہیں کرتے۔ سلام علیک، خدا حافظ۔ بادشاہ نے جواب بھی نہ دیا تھا کہ دربار سے چلے آئے اور سیدھے ہیمو کے پاس پہنچے۔ وہ بنیا اور کیسا بنیا کہ کچے گھڑے کی چڑھی تھی، ان کا آنا غنیمت سمجھا کہ دربار کے آدمی ہمارے پاس ٹوٹ کے آنے لگے۔ مگر شیخ چلی نے نہ اپنا کوئی ارادہ ظاہر کیا نہ کوئی درخواست بیان کی۔ چپ چاپ وہاں ٹھہر گئے۔ تیسرے دن ہیمو دتون کر رہا تھا اور شیخ صاحب سامنے کھڑے تھے۔ اُس نے تھوکا تو ایک چھینٹ اُن پر پڑ گئی۔ بس اللہ دے اور بندہ لے، چھاتی پر چڑھ بیٹھے اور دانت سے ناک اتار لی([4])۔ پرچہ نویس تو لگے ہی ہوئے تھے، فوراً اکبر کو خبر ملی۔ اُدھر شیخ جی بھاگے اور سیدھے چلہ کا رخ کیا مگر بادشاہ نے سانڈنی سوار دوڑا دیے کہ جہاں ملیں پکڑ لا اور ایسا ہی ہوا کہ جنگل میں پکڑے گئے اور مچل مچل کے دربار میں حاضر کیے گئے۔ اکبر نے بڑی عزت کی اور اس کارگزاری کی قدر فرمائی۔ منصب اور تنخواہ میں اضافہ ہوا۔ گو شیخ صاحب اپنے بیوی بچوں کو یاد بہت کرتے تھے مگر کچھ خرچ نہیں بھیجتے تھے اور اُس زمانہ میں یہ بات مشکل بھی تھی۔ مگر ملا صاحب ان کی تنخواہ اور انعام اُس سے لے لیا کرتے اور بغیر ان کی اطلاع کے خفیہ طور پر اُن کے گھر پر ہزارہا روپیہ بھیجتے رہے۔ وہاں بڑا لڑکا سیانا ہو گیا تھا اور خداداد دولت نے ہر طرح کا حوصلہ پیدا کر دیا تھا۔ چنانچہ اُس نے بڑا عالیشان مکان بنوایا اور ہر طرح کی آسائش اور آرائش کے سامان مہیا کر لیے۔
ادھر شیخ صاحب تجرد کی وجہ سے زیادہ گھبرا گئے۔ احتیاط کا اقتضا ہی سمجھنا چاہیے کہ کوئی جدید تعلق نہیں پیدا کیا۔ مگر ملا صاحب ان کو صلاح دیا کرتے تھے نکاح کر لو۔ آخر جب بہت تنگ ہوئے، دربار سے رخصت چاہی مگر نا منظور ہوئی۔ ناچار ایک رات چھپ کے چل دیے۔ جو کچھ روپیہ اشرفی بچا کھچا پاس تھا کمر میں باندھا اور سیدھے چلہ کو پہنچ گئے۔ ؏
طبیعت پختہ مغزوں کی جدھر آئی اُدھر آئی
نواں باب
بے اعتباری اور موت
محلہ میں پہنچ کے مکان ڈھونڈھتے ہیں تو پتہ ہی نہیں۔ لوگوں سے پوچھا تو ایک عالی شان محل بتایا گیا۔ یقین کس کو یہ ہمارا جھوپڑا بگڑ کے محل ہو گیا۔ دروازہ پر ٹھہر گئے اور لوگوں پر خفا ہونے لگے کہ ہم سے دل لگی کرتے ہیں۔ اندر سے بیٹا نکل آیا اور سعادت مندی کے ساتھ قدم بوس ہوا، مگر شیخ صاحب نے غصہ میں مکان پوچھا۔ اس نے بیان کیا کہ آپ نے جو روپیہ بھیجا اُس کا مکان تیار ہوا۔ یہ سب آپ ہی کا ہے۔ والدہ صاحبہ نے چند روز ہوئے انتقال کیا۔ اس کا صدمہ ایسا ہوا کہ شیخ کے حواس جاتے رہے۔ مکان کی تبدیل ہیئت کا اعتبار ہی نہ تھا کیونکہ خود تو روپیہ بھیجا نہ تھا۔ اس پر بیوی کا واقعہ سُن لیا، چُپ سُن ہو کے رہ گئے۔ اور بیٹے سے الگ ہٹ کھڑے ہوئے۔ اُس نے ہر چند سمجھایا، محلہ والوں نے لاکھ سر مارا مگر ایک نہ مانی اور بستی سے باہر ایک جھوپڑی اپنے اُسی روپیہ سے بنوا لی جو ساتھ تھا اور پاؤں توڑ کے بیٹھ رہے۔ سِن بھی اب زیادہ ہو گیا تھا اور دنیا کی بے اعتباریوں سے گھبرا گئے تھے، سب سے کنارہ ہی مناسب معلوم ہوا۔ بیوی کی وفات سے اور بھی دل سرد ہو گیا تھا اور ایسی ہم خیال اور غم خوار بیوی ملتی کہاں ہے۔ غرض کہ یہ اسباب تھے جن کی وجہ سے ایسا بے نظیر شخص دنیا کو فائدہ پہنچانے سے ہاتھ کھینچ کے بیٹھ گیا۔
سات برس تک مسلسل اُسی جگہ گذار دی اور ۹؍رجب ۱۰۱۲ھ کو اکسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی اور حسب وصیت اُسی جھوپڑی میں دفن کیے گئے۔ یزار و یتبرک ؏
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
دسواں باب
شیخ کا مذہب
مذہب کے اعتبار سے کسی کو پتہ نہیں لگا کہ شیخ کا معتقد علیہ کون مذہب تھا۔ چونکہ وہ اطول کا یادگار تھا اور مضافات ماوراء النہر میں اس کے بزرگ رہتے تھے، اس نظر سے اس کا باپ یقیناً اُن بدوی عربوں کا ہم مذہب ہوگا جو اس نواح میں رہتے ہیں۔ مگر شیخ کی نسبت جہاں تک معلوم ہوا اُس نے اپنے مذہب کو کسی خاص طریقہ کے ساتھ پابند اور مقید نہیں کیا تھا۔ دربار اکبری میں پہنچنے سے پہلے وہ وحدانیت اور رسالت کے متعلق تو کبھی کچھ کہہ گذرتا تھا جس سے قیاس ہوتا ہے کہ وہ ان دونوں ارکان ایمان کا قائل ضرور تھا اور عملی طور پر بھی وہ نماز وغیرہ فرائض اسلامی ادا کر لیا کرتا تھا مگر کسی کی تقلید اُس نے نہیں کی اور نہ وہ پابندی کے ساتھ ائمہ اربعہ یا مذہب اثنا عشری کا معتقد تھا۔ اور جب کبھی ان امور کے متعلق اُس سے سوال کیا گیا اُس نے لاپروائی کے ساتھ جواب دیا کہ ہم کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بذاتہ قوت اجتہاد رکھتا تھا اور کسی امام یا مجتہد کی تقلید اُس کے لیے ضروری نہ تھی۔ اسی وجہ سے وہ ہر طریقہ میں عبادت اور عمل کیا کرتا تھا اور کبھی اُس کو ایک طریقہ پر اصرار یا قیام نہ تھا۔ اکبر آباد میں وہ ایک ایسے دربار سے تعلق رکھتا تھا جہاں ہر عقیدہ اور مذہب کے لوگ بلکہ اگر تاریخ صحیح ہے تو لامذہب بھی جمع تھے اور علوم و فنون کی معرکہ آرائیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی مباحثے اور دینی مناظرے آئے دن ہوا کرتے تھے۔ خصوص اس زمانہ میں امام غزالی کے رسالہ تہافۃ الفلاسفہ پر زور شور سے نکتہ چینیاں اور اعتراض ہو رہے تھے اور امام صاحب کی مخالفت فلسفہ پر بڑی ناراضی پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی حالت میں چونکہ وہ فطرتاً حکیمانہ خیال کا آدمی تھا، فیضی کی صحبت نے اُسے اور بھی چمکا دیا۔ اس لیے آخر آخر میں اُس کا رحجان فلاسفہ کی جانب بہت ہو گیا تھا اور گو وہ معتزلی تھا نہ مشائی کیونکہ وہ تقلید سے سخت متنفر تھا، تاہم فلسفی اصول اُسے کچھ ایسے پسند آ گئے تھے کہ ان کی دل سے قدر کرتا مثلاً وہ آگ کو جلا دینے والی چیز ہمیشہ تسلیم کرتا رہا اور برق کی تاثیر اُس کے ذہن میں بھی رہی کہ جب چمکے تو ضرور کانوں میں انگلیاں دے لینی چاہیے۔ اس طرح قضا و قدر کے مسئلہ میں اُس نے حجت قائم کی تھی کہ صرف مرنے کے لیے اُس کی ضرورت ہر شخص کو ہے۔ جبر و اختیار میں وہ مطلق سکوت کرتا تھا۔ کسی نے اس اہم مسئلہ کے متعلق ایک حرف کبھی نہیں سُنا۔ صرف ایک بار فیضی کو اُس نے یہ نکتہ بتا دیا تھا کہ کسی کا مال چھین لینا جبر ہے اور دے دینا اختیار۔ علت العلل کے مسئلہ میں اُس کی دقت نظر نے ایک نئی بات پیدا کی تھی کہ جب خدا کے متعلق ایسی بات کہی جائے تو بہت چپکے سے کہنی چاہیے تاکہ وہ سُن نہ لے۔
جزا و سزا کے بارہ میں اُس کا قطعی فیصلہ یہ تھا کہ مٹی کے نیچے نہ آگ زندہ رہ سکتی ہے جو انسان کو بعد مرنے کے جلائے گی، نہ باغ پیدا ہو سکتے ہیں جس کے مزے لوٹیں گے۔ دوزخ کا لفظ اُس نے اچھی طرح جی لگا کے نہیں سُنا کیونکہ بجز دل پریشان ہونے کے اس میں دھرا ہی کیا تھا۔ جنت کا جب حال سننے میں آیا تو اس کو ہمیشہ قصبہ چلہ کی جامن، امرود، بیر، آم یاد آ جاتے تھے۔ حوروں کا ذکر سُن کے جی ضرور للچاتا تھا کہ اللہ! اتنی دور آسمان پر چڑھ کے اُن کے لیے کون جائے۔ ہمارا یہیں سے سلام ہے۔ بندہ ایسا طوطا نہیں پالتا۔ چونکہ فلسفہ کا شیدائی تھا اس لیے حکمت کے بعض مسائل میں جزء لا یتجزیٰ پر خاص دلچسپی کے ساتھ غور کیا کرتا تھا اور کبھی باور نہیں آتا تھا کہ چھوٹے چھوٹے ذرے جو اُس کو اپنے گھر کے روشن دان کے سامنے اُڑتے نظر آتے ہیں یہ بھی کوئی چیز ہیں۔ اکبری دربار میں مذہب ہنود کی بڑی آؤ بھگت تھی اور حکماے دربار میں جید شاستری ویدانت لوگ جمع تھے مگر آواگون کے متعلق اُس نے ایک لحظہ کے لیے یقین نہ مانا کہ آدمی مر کے پھر کتا یا گدھا ہو کے پیدا ہو۔ وہ کہتا تھا کہ مرنے کے بعد خاک ہو گئے چلو چھٹی ملی۔ مگر یہ خیال اُس کا اُس وقت سے ہوا تھا جبکہ اُس نے کئی آدمی مرتے اور قبر میں رکھے جاتے دیکھے تھے؛ ورنہ پہلے وہ صرف اس لیے کہ میں نہیں مرا ہوں، مرنے ہی کا قائل نہ تھا تو آواگون کجا۔ اس کا خیال تھا کہ بتوں کے سامنے پوجا کرنے میں بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ کسی بات کا جواب نہیں دیتے۔ البتہ آفتاب کی پرستش پر اُس کا دھیان تھا، وہ اس لیے تھا کہ جب اس کو پوجتے ہیں تب ہی تو جاڑوں میں دھوپ کھانے کا موقع ملتا ہے اور سردی سے وہ ہم کو بچاتا ہے، ورنہ خفا ہو جائے اور نہ نکلے تو مارے جاڑے کے اکڑ جائیں۔ ندیوں کی پوجا کو بھی وہ اچھا جانتا تھا کہ اُن کا پانی گرمیوں میں بہت شفاف اور ٹھنڈا ہوتا ہے۔ برگد کے درخت کے پوجنے سے وہ متفق نہ تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ اس کے پھل صرف چڑیوں کے کام آتے ہیں وہی پوجا کریں، آدمیوں کو اُس سے کچھ فائدہ نہیں ہے۔ گئو ماتا کا وہ بہت ادب کرتا تھا کہ سیروں دودھ دیتی ہے۔ گھی الگ چکھنے میں آتا ہے۔ دہی میں گُڑ ملا کے کھانے کا مزہ کچھ نہ پوچھو۔ اس وجہ سے ایسی عمدہ چیز کو ضائع کرنا حماقت ہے۔ وہ تو بکریوں کے ساتھ بھی ہمدردی کرتا مگر اُس کا گوشت پوست انھیں سے بنا تھا اس لیے کچھ زیادہ خیال نہ کیا۔ علاوہ اس کے دودھ دہی ان میں اس افراط سے کہاں جو گائے میں ہے۔
الغرض اس کا مذہب کچھ عجیب سمویا ہوا تھا اور حق یہ ہے کہ اُسے ہر طرح کے اجتہاد کی قدرت حاصل تھی۔ وہ جو مذہب اختیار کرتا یا خود موجد بنتا اُس کے حق بجانب تھا۔ مگر اُس نے عمداً ان جھگڑوں میں پڑنا پسند نہ کیا اور ایک گومگو حالت میں بسر کر دی۔ ورنہ آج شیخ چلی کا مذہب بھی بہتر میں ایک نمبر لیے ہوتا۔ اُس کو درحقیقت ایسی پڑی ہی کیا تھی کہ اس درد سری کو مول لیتا۔ وہ بجاے خود یہ تسلیم کر چکا تھا کہ انسان کو جہاں تک ممکن ہو آزادی اور سادگی سے بسر کرنا چاہیے اور جس ڈھب سے کام چلے چلا لیا جائے۔ زیادہ غور کرنے سے دماغ الگ تھکتا ہے، طبیعت جدا پست ہو جاتی ہے۔ پھر نیتجہ معلوم کہ کچھ نہیں۔ اور اس استغنا کی خاص وجہ یہ تھی کہ اُس کی ذہنی قوت کے مبادی دوسروں کے انتہائی معقولات کے مساوی تھے۔ پس وہ جانتا تھا کہ میری سرسری انتقالات ذہنی کے نتائج کا تو کوئی متحمل ہو ہی نہیں سکتا۔ دقیق باتوں کو کیسے سمجھاؤں۔ اسی وجہ سے اس نے اپنے دماغ کو اس حد تک استعمال ہی نہیں کیا جس کی دوسروں کو ضرورت ہوتی ہے اور اس میں وہ سچا بھی تھا۔
گیارھواں باب
طرز معاشرت اور بعض ذاتی خصائص
چوں کہ شیخ نے ابتداے عمر سے سادگی کے ساتھ بسر کی اس لیے دربار اکبری میں پہنچنے تک تو بغیر کہے ہر شخص خیال کر سکتا ہے کہ اس کو تکلفات کی پروا ہی نہ تھی اور وہ اس قدر صاف اور بے ساختہ پن کے ساتھ رہتا تھا کہ دوسرے سے بن نہ پڑے۔ چنانچہ اس کے حالات خود شاہد ہیں کہ اس نے کبھی نمائش اور تکلف کو پاس نہیں آنے دیا۔ وہ غذا میں تو اس قدر بے پروا تھا کہ کئی مرتبہ اشتہاے صحیح میں اس نے اپنی محبوبہ بیوی کو روٹی پکانے کی بھی تکلیف نہ دی اور دال چانول آٹا جو کچھ موجود ہوتا تھا یوں ہی استعمال کرلیا کرتا۔ اس کو یقیناً معلوم تھا کہ غذا کی غایت پیٹ بھرنا یا بھوک کی تکلیف سے نجات پانا ہے جو بغیر پکائے بھی ممکن ہے، پھر ضرورت کیا کہ ایک وقت طلب امر کے لیے بیوی کو الگ تکلیف ہو اور خود جدا انتظار کی زحمت اٹھائے۔ بھوک میں مٹی کا نوالہ سونے کا ہوتا ہے بس اسی پر اس کا عمل تھا اور بڑی ہمت سے وہ اس پر نباہ بھی کرلیا کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ بیماری کے اسباب اور مرض کے موجبات غذا کی بد پرہیزی یا خارجی علتیں ہرگز نہیں۔ وہ کہتا تھا کہ جس پیٹ میں پکی روٹی ہضم ہو جاتی ہے، کچا آٹا کیوں نہ ہضم ہو۔ ہمیشہ دہی کھایا کرتے ہیں، آج کیا وجہ ہے کہ دہی سے زکام ہو جائے۔ اگر دہی مضر ہوتا تو ہمیشہ مضر ہوتا۔ کبھی ہو کبھی نہ ہو یہ عقل کی بات نہیں ہے۔ یا بیماری میں گھی کم کھایا جائے، دودھ کی ممانعت ہو، شیرینی سے پرہیز کرو۔ یہ سب باتیں واہیات ہیں۔ بیماری میں ضعف ہوتا ہے اور گھی طاقت لانے والی چیز ہے، پس ضرور عین بیماری میں کھانا چاہیے تاکہ ضعف نہ آنے پائے۔ اسی طرح دودھ اور شیرینی تو بخار میں کھانا فرض ہے کیوں کہ منہ کا مزہ کڑوا ہو جاتا ہے، اس کے بدلنے کے لیے میٹھی چیز سے زیادہ کوئی ضروری بات ہی نہیں۔ وہ لرزہ اور بخار کی علت صاف طور پر اس طرح بیان کر دیتا تھا کہ جاہل اور گنوار تک سمجھ جاتے تھے۔ یعنی جب دھوپ میں بہت دیر تک رہو گے ضرور بدن گرم ہو جائے گا۔ یہی بخار ہے اور جاڑا ایسے آتا ہے کہ برسوں سے خصوص سردی کے دنوں میں جو پانی پیا جاتا ہے وہ جمع ہوتے ہوتے اور پیٹ کی کوٹھری میں جہاں مطلق گرمی یا آگ نہیں پہنچ سکتی، ٹھنڈا رہتے رہتے بدن میں کپکپی پیدا کر دیتا ہے۔ یہی لرزہ ہے۔ اسی پر دلیل یہ لاتا تھا کہ دیکھو! جاڑوں میں جب سرد پانی پیو تو بدن کانپنے لگتا ہے پھر پیٹ میں اتنا بہت سا پانی جمع رہے اور لرزہ نہ آئے اس کے کیا معنی۔
دست آنے کے متعلق بھی اس کا یہ اعتقاد تھا کہ کسی دن پانی زیادہ پی لیا گیا پس پیٹ کے اندر فضلہ گھل گیا اور پتلا ہو کے نکلا۔
پیٹ میں درد اس وجہ سے ہوتا ہے کہ آنتیں تو بڑی ہوشیار ہیں۔ جب کھانا ان میں پہنچتا ہے تو اتفاق سے ایک آدھ کو نہیں ملتا ہے۔ بس وہ دوسری آنتوں سے لڑتی اور چھینتی ہے۔ اب یہ سب پیٹ کے اندر دوڑی دوڑی پھرتی ہیں۔ ان کے چلنے اور دوڑنے سے پیٹ میں ان کے پاؤں زور زور سے پڑتے ہیں اور دکھنے لگتا ہے۔
دربار اکبری میں جب وہ پہنچا ہے تو وہاں کے امرا اور خواجہ شیون نے اس کی پر تکلف دعوتیں کیں۔ مگر وہ ہمیشہ شاکی اور متنفر رہا جس کی وجہ یہ تھی کہ کھانے تو اس قدر لذیذ مگر کثرت اتنی کہ ایک ایک لقمہ بھی لیا اور پیٹ بھر گیا۔ پس منہ میں ایک لقمہ کا مزہ کیا معلوم ہوسکتا ہے۔ جب تک ہر چیز کو بہت سی نہ کھایا جائے خاک بھی ذائقہ نہیں ملتا۔ ایسے کھانوں سے بجز اس کے کہ غصہ آئے کہ ہاے کچھ نہ کھایا کوئی حاصل نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس نے چند روز کے بعد دعوتوں میں جانا چھوڑ دیا اور ملا دو پیازہ کے گھر پر چونکہ رہتا تھا ان کے کھانوں سے بھی ہچکچاتا رہتا اور ذرا ان کی آنکھ بچی کہ بازار سے سیر آدھ سیر چنے بھنوا منگائے یا دس پانچ پھوٹیں، دو تین سیر گاجریں، کبھی چنے کے ستو لیے اور پیٹ بھر کھا کے آسودہ ہو گیا۔ جب ملا صاحب کے یہاں رہنے سے زیادہ تکلیف ہونے لگی اور اپنی پسند اور آزادی کے ساتھ کھانے کا موقع کم ملنے لگا تو شیخ الگ مکان میں اٹھ گیا، مگر باورچی خانہ کا انتظام نہ کیا اور کھڑا کھیل فرخ آبادی بازار سے کچھ لیا، کھا پی کے ٹھکانے لگا دیا۔
لباس میں ہمیشہ سادگی کا لحاظ رکھا۔ یورپ کے اصول اس کو اس وقت معلوم تھے جن پر آج عمل ہو رہا ہے یعنی وہ موٹے کپڑے کو بہت پسند کرتا تھا اور اس زمانہ میں ملکی صنعت کے گاڑھے دھوتر اس کی مرغوب ترین چیزیں تھیں۔ دو سوتی کی مرزائی یا پنبی پاجامہ وہ اکثر پہنتا۔ گرمیاں، جاڑے، برسات ہر موسم میں اصول صحت کے قاعدہ سے اس کا لباس خالی نہ تھا۔ یعنی جاڑوں میں مسامات بند ہونے کا اس کو کامل یقین تھا، اس لیے مصلحتاً باریک کپڑا استعمال کرتا۔ جس کی کھلی دلیل یہ تھی کہ ایک تو مسامات بند اس پر اگر گرم لباس پہنا جائے تو یقیناً دوران خون میں فرق واقع ہوگا اس لیے ہلکا اور باریک لباس پہننا چاہیے۔ اسی طرح گرمیوں میں گرم اور موٹا لباس اختیار کرتا۔
درباری لباس میں اس کو ہمیشہ الجھن اور بے چینی رہی۔ بڑے بڑے گھیردار جامے اور کمر میں پانچ سیر کا پٹکا، سر پر گراں بار رفیدہ، شلوار کی قطع نرالی، یہ تکلفات اس کو بہت ناگوار تھے۔ وہ بے قید رہنا زیادہ پسند کرتا تھا اور اسی وجہ سے وہ کبھی کبھی دربار میں بالکل تحت اللفظ ایک جانگھیا یا مرزائی پہنے چلا جاتا۔ اس کے الناس باللباس کے مشہور مقولہ سے کبھی اتفاق نہ تھا۔ وہ ذاتی خوبیوں کے سامنے صفات اضافی کو کچھ چیز ہی نہ سمجھتا۔ اس کا قول تھا کہ گدھا جُلّ اطلس سے گھوڑا ہو جائے تو ہو جائے، مگر انسان لباس فاخرہ سے گھوڑا ہو نہیں سکتا۔ نہ برہنہ رہنے سے وہ گاے بیل ہو جائے گا۔ انسانی خوبیاں تمام لباس اور آرائش سے افضل ہیں اور کامل آدمی کبھی اس کا مقید ہو ہی نہیں سکتا۔ ستر عورت کے متعلق اس کا انوکھا خیال آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ یعنی جب تمام اعضا ایک ہی جسم میں ایک ہی انسان کی ملکیت ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہر عضو کے کھولنے یا چھپانے پر تو آدمی آزاد ہو اور ایک خاص چیز کو ہمیشہ بند اور ڈھنکا رکھنے پر مجبور رہے۔ کیا اس پر ہم کو حق ملکیت حاصل نہیں ہے۔ کیا ہم اس کے مطیع ہیں کہ ہمیشہ ڈھانپے رہیں۔اصول صحت کے اعتبار سے بھی وہ اس پر بحث کرتا تھا کہ اعضا کو ہوا پہنچنے سے تازگی اور تندرستی رہتی ہے، پھر کیوں سب کے ساتھ یکساں برتاؤ نہ کیا جائے۔ اس حکیمانہ خیال سے وہ کبھی کبھی مخلیٰ بالطبع ہو کے بالکل برہنہ ہو جاتا یا جسم اسفل کو کھلا رکھتا اور اعلی کو ڈھانپ لیتا۔
اخلاق کے اعتبار سے وہ ایک سراپا تہذیب بلکہ شرح تہذیب تھا۔ اس نے بارہا لوگوں سے محض اخلاقاً ایسے وعدے کر لیے جن کے پورے کرنے کا اسے خیال بھی نہ آیا۔ وہ کسی کی دل شکنی گناہ کبیرہ سمجھتا تھا۔ اکثر اس نے دروغ مصلحت آمیز بہ از راستیِ فتنہ انگیز کے بھروسے پر سازشی گواہی دی اور کسی مجرم کو بچا لیا۔ دعوتیں تو اکثر دے دیا کرتا اور مہمانوں کی خاطر مدارات یا کھانا موجود نہ ہونے کی صورت میں وہ کسی پڑوسی کے مال پر تصرف کرنا نہ صرف ضروری سمجھتا تھا بلکہ واجب خیال کرتا تھا۔
لڑکوں کے ڈھیلوں کا اس نے کبھی خیال ہی نہ کیا اور تحمل کے ساتھ ان کی اذیت گوارا کر لیا کرتا مگر محض اس خیال ہم دردی سے کہ لڑکے زیادہ شوخ نہ ہو جائیں اور ایسی ہی کوئی حرکت اپنے والدین سے نہ کر بیٹھیں، راہ چلتے کسی لڑکے کو پکڑ کے وہ قرار واقعی گوشمالی کر دیا کرتا تھا۔ یہ اس کی انسانی ہمدردی قابل تعریف ہے۔
وہ زاہد خشک تو خدانخواستہ کیوں ہونے لگا بلکہ ایک بذلہ شیخ خوش مزاج آدمی تھا۔ ظرافت اور مزاح میں کبھی نہ چوکتا۔ ایک بار اس نے اپنے مہمان کو جمال گوٹے دے دیے کہ اس سے زیادہ تفریح کا مشغلہ بھی نہ تھا۔ ملا دو پیازہ کے طہارت کے لوٹے میں مرچیں گھول دیں۔ ملا صاحب کا خفا ہونا اور اس کا مارے ہنسی کے لوٹنا عجب سماں تھا۔ ایک بڑھیا اکبر آباد میں رستے سے جا رہی تھی، آپ نے اس کے قریب جا کے باد مخالف صادر کر دی اور بڑھیا سے کہا: “لے دے میرا نام”۔
حاضر جوابی میں اس کا کوئی مقابل ہی نہ تھا۔ شیخ اور میخ کے قافیہ کا مشہور لطیفہ اسی کی طبیعت خداداد کا نتیجہ ہے جس سے جاٹ بے چارہ کولہو کا نام سن کے حیران رہ گیا۔ ایک شیعی عالم سے اکبر نے اس کا مناظرہ کرا دیا اور انصافاً بازی شیخ کے ہاتھ رہی۔ عالم نے کہا کہ ہاتھ باندھ کے نماز پڑھنا درست نہیں ہے، مشرکین مکہ آستینوں میں بت رکھ کے نماز میں شریک ہوتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائی کہ ہاتھ باندھ کے نماز نہ پڑھی جائے۔ اس کا جواب شیخ نے یہ دیا کہ ہاں واقعی حکم ہوا تھا مگر جن کی آستینوں سے بت نکلے ان کو تو ہاتھ کھول کے نماز پڑھنے کا ارشاد ہوا اور جن کے پاس نہیں نکلے وہ ہاتھ باندھ کے پڑھتے رہے۔
اس کا حافظہ معمول سے زائد قوی تھا۔ اکبر آباد میں جب وہ آیا تو پہلے پہل ہاتھی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس نے اس کو اپنی کتاب یادداشت میں ٹانک لیا: ہاتھی۔ چند روز کے بعد فصلی میوہ امرود بازار میں دیکھا، اس کا نام بھی پوچھ کے لکھ لیا: امرود۔ زمانہ گذر گیا اور یہ دونوں لفظ اس کے پاس لکھے رہے۔ جب وہ دربار سے خفا ہو کے گھر چلا آیا اور جھونپڑے میں رہنے لگا، ایک دن ایک ہاتھی چرکٹا لے کے ادھر سے نکلا۔ گاؤں کے لوگوں نے ایسی عجیب چیز دیکھ کے بڑی حیرت کی اور سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ ہے کیا۔ شیخ چلی کو خبر ہوئی اور ہاتھی دیکھ کے فوراً حافظہ نے یاد دلایا کہ میں نے اس کو دیکھا ہے اور لکھ بھی لیا ہے۔ جلدی جلدی یادداشت نکالی اور لوگوں سے کہنے لگا: میں سمجھ گیا۔ تم گھبراؤ نہیں، یا تو یہ ہاتھی ہے ورنہ امرود ضرور ہی ہے۔ یہ کہہ کے شیخ رو پڑا کہ ہمارے بعد یہ باتیں کون بتائے گا۔
شیخ کی شجاعت کا رتبہ تہوّر تک پہنچ گیا تھا جس کی نظیر تو ہیمو کے واقعہ سے مل سکتی ہے۔ اس کی پر قوت طبیعت میں خوف و ہراس پیدا ہی نہ ہوئے تھے، نہ اس نے کبھی جبن سے کام لیا۔ مستقل مزاجی شجاعت کا ایک خاص جوہر ہے، وہ شیخ کو پوری پوری حاصل تھی جس کی وجہ سے اس کے کسی کام میں ہلا پتی اور بے ترتیبی ہونے ہی نہ پاتی تھی۔ گھبرانا یا پریشان ہونا تو اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔ مگر تمام عمر میں ایک بار وہ ایسا بوکھلا گیا اور اتنا بدحواس ہوا کہ گویا وہ مجنون ہو جائے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ جب گھر سے نکل کے سفر کر رہا تھا، ایک دن ایک قصبہ میں پہنچا۔ وہاں ایک مبتذل سرا تھی جس میں وہ فروکش ہوا۔ کوٹھریاں تنگ، سائبان ندارد، صحن چھوٹا اور غلیظ، لید اور گوبر کے انبار لگے ہوئے، کوڑا کچڑا ڈھیروں پڑا ہوا۔ اور برسات کا موسم، نیم کے پھل تمام سڑے ہوئے صحن میں پھیلے ہوئے تھے۔ کیچڑ کی انتہا نہیں۔ ایسی خراب جگہ میں اس طرح کا میرزا منش اور نازک مزاج آدمی ایک گھڑی نہیں ٹھہر سکتا۔ مگر مجبوری لاچاری سب کچھ کراتی ہے۔ شیخ بیچارہ ایک کوٹھری میں ٹھہرا، امس اور گرمی کا تو اس نے کچھ خیال نہ کیا نہ اس کی اصلی صحت اور طبعی قوت ان خارجی امور کو مانتی تھی۔ مگر رات کو مچھروں نے شیخ کی گرمیِ صحبت کو اپنا افتخار سمجھا اور چاروں طرف سے دَل کے دَل ٹوٹ پڑے۔ شیخ نے پہلے تو ہاتھوں سے کام لیا اور بعض دفعہ کان کے پاس مچھر نے جب نفیری بجائی اور باضابطہ نوٹس دی کہ میں آ پہنچا، غصہ میں ایسا لپڑ جمایا کہ اپنی ہی کنپٹی جھنا گئی۔ جب مچھروں نے زیادہ نرغہ اور دست درازی کی تو بہادر شیخ نے جھپٹ کے تلوار گھسیٹ لی اور بزن بول دیا۔ مچھروں کے کشتوں کے پشتے لگا دیے۔ لاش پر لاش گرتی تھی۔ سارا پلنگ، تمام کوٹھری لہولہان ہو گئی اور یہ بہادر شیر دل برابر دو دستی پھینک رہا ہے۔ مچھر نے چیں کی اور شپ سے رسید کر دی۔ کان کے پاس بولا اور پینترا بدل کے طمانچے کا ہاتھ مارا۔ مگر مچھر بھی بلائے بے درماں تھے، ایک ہوں دو ہوں، سو ہوں ہزار ہوں تو کوئی مارے؛ یہ تو لاکھوں تھے اور تابڑ توڑ مدد آ رہی تھی۔ فوجوں پر فوجیں چلی آتی ہیں۔ جس طرح آج کل ٹرنسوال پر لام بندھا ہوا ہے۔ نفیری بج رہی ہے جس سے کوٹھری گونج اٹھی۔ اب شیخ تھکا اور بازو سست ہو گئے۔ پھر برابر تلوار کرتا رہا۔ آخر کب تک تازہ دم رہتا، ساتھ ہی حواس بھی بگڑے۔ آپ جانیے لڑائی میں حواس ہی کا کھیل ہے۔ یہ نہیں تو کچھ نہیں۔ اور غضب یہ ہوا کہ ایک تازہ دم فوج مچھروں کی اسی دم آ پڑی اور یہ خاص ملیشیا کی پلٹنوں سے مرتب تھی۔ لیجیے اور بھی ہوش بگڑے۔ باہر مینہ موسلا دھار برس رہا ہے۔ بھاگنے کا بھی رستہ نہیں، کس مصیبت میں جان پڑی ہے۔ سب پر طرہ یہ کہ لوگ سنیں گے تو کیا کہیں گے، مچھروں نے بھگا دیا۔ مگر اب تو جان ہی پر بنی ہے اور طاقت و حواس دونوں نے جواب دیا۔ ناچار اسی طرح شمشیر خونچکاں ہاتھ میں لیے ہوئے شیخ کوٹھری سے بھاگا۔ صحن میں کیچڑ اور پانی سے پاؤں نہیں ٹھہرتا۔ گھبراہٹ میں ایک گھوڑے کی پچھاڑی سے پیر الجھا اور دھڑام سے گرا، اٹھا اور پھر بھاگا۔ پھاٹک بند، سارے مسافر سو رہے ہیں۔ بھٹیاریاں الگ خراٹے لیتی ہیں۔ کدھر جائیے کیا کرے۔ آخر زور سے غل مچا دیا کہ دوڑو لوگو دہائی ہے۔ سب اٹھ پڑے تو شیخ صاحب کو اس ہیئت کذائی سے دیکھا کہ ننگی تلوار ہاتھ میں، خون ٹپک رہا ہے، کپڑوں پر لہو کے لختے جمے ہیں اور سخت بدحواس ہے۔ لوگ سمجھے ڈاکہ پڑا۔ اب پوچھتے ہیں تو شیخ کچھ بتاتا نہیں۔ ایک تو تھکاوٹ، دوسرے گھبراہٹ۔ بارے دیر کے بعد حواس ٹھکانے ہوئے، قصۂ جہاد بیان کیا۔ لوگوں نے دلاسا دیا، بڑی تعریف کی۔ بس یہاں تو شیخ کے استقلال اور جمعیت خاطر میں ذرا سا اختلال آگیا تھا ورنہ کیا طاقت کہ وہ سخت سے سخت معرکہ میں بھی گھبرائے ؎
آن نہ من باشم کہ روز جنگ بینی پشت من
آن منم کاندر میان خاک و خون بینی سری
قصبات دیہات میں خانہ جنگیوں کی کیا کمی۔ شیخ کو ایسے اتفاقات بارہا پڑے ہیں۔ وہ اکیلا دس دس کے مقابلہ میں ڈٹ گیا۔ گھر میں جھنیگر بولا اور اس نے دھڑےسے لاٹھی رسید کی۔ چوہوں کا تو ناس ہی کردیا۔ کھیت میں چڑیوں کو پھٹکنے تک نہ دیتا۔ کتے اس کی تلوار کے گھاٹ روز ہی اترا کرتے۔ اس کی دھاک تمام قصبہ میں اور اردگرد کے دیہات میں بندھی ہوئی تھی۔ ایسا جیالا منچلا سپاہی دیکھا ہی نہیں۔
ایک دفعہ اس کے قصبہ میں ایک شیر جنگل سے بھٹک کے آگیا اور کئی آدمیوں کو زخمی کر ڈالا۔ شیخ کو اس وقت خبر ہوئی جب لوگوں نے شیر کا کام تمام کر دیا تھا۔ مگر اس بہادر کو اس قدر جوش اور غصہ آیا کہ میان گھر ہی میں چھوڑی اور تلوار سونت کے لپکا۔ شیر کی نعش مارے تلواروں کے چو رنگ بنا دی، تب اس کا غصہ جلادت ٹھنڈا ہوا۔
شیخ کی غیوری کا کچھ ٹھکانا نہ تھا۔ فاقہ کی حالت میں بھی کسی سے سوال کرنا اس کے لیے موت تھی۔ اہل جیران اس کی مصیبت میں کبھی شریک ہو جاتے تو اس پر لاکھوں گھڑے پانی پڑ جاتا اور مارے غیرت کے جس طرح ممکن ہوتا وہ اس احسان کا بدلہ ضرور کر دیتا۔ اس کا چھوٹا بچہ جاتا رہا۔ اہل محلہ مخصوص ہمسایہ کے لوگ شریک ہوئے اور معمولی طور پر کفن دفن سے فراغت ہو گئی۔ اب شیخ کو فکر ہوئی کہ کسی طرح پڑوسی کا احسان اترے، مگر اتفاق سے جلد کوئی موقع نہ ملا۔ مدت کے بعد ایک بڑھیا چل بسی۔ شیخ سویرے ہی دروازہ پر پہنچ گئے اور کمال کشادہ پیشانی سے شریک رہے۔ جب سب باتوں سے فراغت ہو گئی، شیخ نے بڑے ناز کے ساتھ صاحب میت سے کہا کہ بھائی! آج اللہ نے تم سے سرخرو کیا اور تمھارا احسان سر سے اترا۔ آئندہ بھی ضرورت ہو تو مجھے ضرور خبر کرنا۔
جن دنوں شیخ سفر غربت میں تھا، ایک دن ایک گاؤں میں پہنچا۔ وہاں نہ دوکان تھی، نہ مسافر خانہ، نہ سرا۔ اور کسی سے جان نہ پہچان مگر گاؤں کے زمیندار نے اس کو کمال منت سے اپنے گھر لے جا کے کھانا کھلایا۔ شیخ نے بہ بمقتضاے انسانیت کھانا تو منظور کرلیا۔ لیکن اس کے دروازے پر سونے کے لیے محض غیرت کی وجہ سے کسی طرح گوارا نہ کیا اور میدان میں ایک املی کے درخت پر چڑھ کے رات بسر کردی۔ صبح کو اپنے میزبان کا شکریہ ادا کیا اور چل دیا۔
بارھواں باب
شیخ کی علمیت اور شاعری اور دیگر فنون
شیخ کی تعلیم کا حال ہم اس کی ابتدائی عمر کے حالات میں لکھ چکے ہیں۔ مگر وہ صرف رسمی بات تھی کہ اس کے باپ نے زبردستی اس کو پڑھوایا۔ خیر اچھا کیا۔ درحقیقت اس کی استعداد علمی بہت کم تھی مگر وہ خداداد قابلیت جو فطرتاً اس کی ذات میں ودیعت کی گئی تھی اس کے سامنے رسمی علوم کی نہ حقیقت تھی نہ ضرورت۔ اس کا جی حساب میں کبھی نہ لگا، گویا اسے طبعی نفرت تھی۔ گو وہ سو تک گنتی بے تکلف جانتا تھا مگر اپنی ایجاد و اختراع کو اس نے کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا یعنی بیس تک تو وہ فر فر گن جاتا اس کے آگے اکیس کے عوض بیس پر ایک بیس پر دو، اسی طرح بیس پر نو کے بعد وہ تیس کہتا اور تیس پر نو کے بعد بجاے چالیس کے دو بیس اور ساٹھ کو تین بیس۔ اسی کو چار بیس، اس کے بعد پورے سو اور پھر سو پر دس یا بیس اسی طرح شمار کرتا۔ مگر حق یہ ہے کہ اس فن میں اس نے مطلق بے توجہی کی اس لیے ہم کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔
فن انشا میں اس کی لیاقت کا حال معلوم نہیں۔ اس وقت ڈاک کی یہ آسانیاں تو موجود نہ تھیں، اس لیے خط لکھنے کا موقع ہی نہ ملا۔ البتہ وہ کچھ علمی مسائل یا حکمت کے معرکہ آرا مباحث لکھ لیا کرتا تھا جس کو زمانہ نے مٹا ڈالا پھر کیونکر اندازہ کیا جائے کہ اس کی فصاحت و بلاغت کا کیا رتبہ تھا۔
نظم میں البتہ اس کو زیادہ دلچسپی تھی اور شعر خوب کہتا تھا۔ اس وقت کی زبان تو نہ تھی خاص دربار شاہی میں فارسی بولی جاتی تھی۔ عوام کچھ بھاکا ملی ہوئی بولی بولتے تھے۔ اس لیے اس کی شاعری میں ان دونوں خصوصیتوں کی جھلک پائی جاتی ہے اور یہ صنعت سب سے زیادہ مشکل ہے۔ جب شہزادہ سلیم کی شادی نواب جودہ بائی مہاراجا بھگوان داس راجا جودھپور کی بیٹی سے ہوئی ہے، دربار اکبری کے شعرا نے بڑے صنائع و بدائع کے قصیدے، مبارکبادیں، سہرے وغیرہ لکھے۔ شیخ صاحب نے بھی یہ مبارک ؏
ہمیشہ دلبرے سو جان مبارک باشد
لکھ کے پیش کی۔ اکبر نے اس کو اس قدر پسند کیا کہ اسی وقت نور بائی رقاصہ خاص کو یاد کرائی گئی اور عین نکاح کے بعد بزم طُویٰ میں گائی گئی۔ اس کی خوبی اس کی مقبولیت ہی سے ظاہر ہے کہ آج تک جشنوں میں ضرور گائی جاتی ہے۔ ہزار روپیہ روز کا طائفہ بھی اس مبارکباد کو ضرور گائے گا۔ تذکرہ نگاروں کو اختلاف ہے کہ یہ شعر ؎
ضمنا ضمنی بہم آؤتے ہیں
تو چھپر اٹھانے کو کم آؤتے ہیں
شیخ چلی کا ہے یا لال بجھکڑ کا۔ مولانا غلام علی آزاد بلگرامی تو خزانہ عامرہ میں شیخ چلی ہی کا ثابت کرتے ہیں۔ مگر صاحب آتش کدہ لال بجھکڑ کے طرف دار ہیں اور میں حضرت آزاد سے متفق ہوں کیونکہ ایسی سلاست اور برجستگی، نشست الفاظ، طرز ادا حضرت شیخ کا خاص حصہ ہے۔ افسوس ناقدر دانیِ زمانہ نے جہاں اور ہزاروں گنج شائگاں خاک میں ملا دیے، اسی طرح شیخ کا دیوان اور دوسرا کلام یعنی یہ بے بہا لعل و گہر اس کے ساتھ ہی زمانہ سے ناپید ہو گئے۔ چند اشعار متفرق طور پر جو زبان زد خاص و عام ہیں درج کیے جاتے ہیں۔ ہم نے انتخاب کو دخل نہیں دیا ہے ؎
اکہتر بہتر تہتر چوہتر حسین آباد بنا بن کے نمودار ہوا آغا تقی کے باغ میں اک توپ کھڑی ہے آغا تقی کے باغ میں گچھا انار کا چندا ماموں آجا آجا اگر ہم باغباں ہوتے تو گلشن کو لٹا دیتے زلف اس مکھڑے پہ اس طرح سے لہرا رہی ہے |
پچھتر چھیتر ستہتر اٹھتر گلشن تو ایسا کہ بادشاہ کا نام ہوا بندر کی شکل ہو کے مچھندر سی لڑی ہے چھاتی پٹک کے مر گیا لونڈا سنار کا دھا جا دھپا جا سونے کا ٹیکہ دے جا اگر ہم پتنگ ہوتے لگا کر پیچ عشق کا فلک پر کٹا دیتے بھینس جس طرح سے کونڈے میں کھلی کھا رہی ہے |
موسیقی میں شیخ کا وہی پایہ ہے جو بغداد میں اسحق موصلی کا تھا۔ ڈفلی اور ڈفالیوں کا ربانہ آپ ہی کی ایجاد سے ہے۔ کنکڑی جو سرکیوں کی بنا کے بچے بجایا کرتے ہیں، اس کے اختراع کا فخر بھی اسی یگانہ روز کو حاصل ہے۔ حضرت امیر خسرو([5])نے اسی کو دیکھ کے ستار بنایا۔ سچ تو یہ ہے کہ خسرو کا ستار شیخ کی کنگڑی کا ہمیشہ ممنون رہے گا۔ ایجاد کا حق کبھی زائل نہیں ہوتا اور موجد کی دماغی قوت ہر زمانہ میں قابل احسان سمجھی جائے گی۔ میرے نزدیک ڈیوٹ کا موجد اور چرخہ کا بانی صدہا قطع کے لیمپوں اور ہزارہا شکل کی مشینوں کے بنانے والوں سے بدرجہا قابلِ عزت ہیں کہ اُنھوں نے ایک صورت قائم کی۔ اب تم تکلفات سے جو چاہو کر لو۔ شیخ خوش گلو ہو یا نہ ہو کیونکہ ہم نے اُس کا گانا نہیں سُنا۔ مگر اصول موسیقی کا بہت بڑا ماہر تھا۔ گدھے کی نہیق میں وہ ہمیشہ تال سم قائم کر لیا کرتا تھا اور زیر و بم اسی سے اُس نے حاصل کیا۔ نکھاد اور پنجم کے سروں میں ایسے جوڑ لگائے کہ اچھے اچھے کلاونت کان پکڑتے ہیں۔ ٹھیکہ پر سم اور دُون میں گٹکری اسی کی ایجاد ہے۔ سارنگ وہ آدھی رات کو اور بہاگ دوپہر کو اس طرح چھیڑتا کہ بے وقت کی راگنی کا الزام ممکن نہیں اُس پر کوئی لگا سکے۔ دیپک عمر بھر میں ایک دن جب وہ سفر میں تھا گائی تھی، آج تک مہابن میں آگ لگی ہوئی ہے۔ مشہور راگنیوں کے علاوہ اپنی اختراعی راگنیاں خوب ادا کرتا تھا۔ مثلاً ایک دُھن اُس نے صوت الحمیر نکالی تھی، اُس میں ایسے ایسے لہرے نکالے کہ آج تک نام ہے۔ اُس کا قول تھا کہ حنجرہ سے جو آواز نکل سکتی ہے وہ لے میں ڈوبی ہوتی ہے خواہ کسی کی ہو۔ طبلہ میں ٹکڑے بجانا تو اُس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ چوتالہ ایسا بجایا کہ منے خان اُس کا نام لے کے کان پکڑتا ہے۔ نغمۃ البعیر اس کا رسالہ اس فن موسیقی میں بہت مشہور ہے۔ اُس میں تھا پر سم کھانے کی ایسی باریک باتیں بتائی ہیں کہ سمجھنا دشوار ہے۔ اکبری دربار میں اس فن کے صلہ میں اُس کو اتنا کچھ ملا کہ اسحٰق کو مامون رشید نے بھی نہ دیا ہوگا۔
علم ہیئت میں بھی اُس کو کسی قدر ملکہ تھا۔ دربار اکبری میں ایک حکیم نے بڑا سا برنجی کرہ پیش کیا جو نہایت عجیب و غریب تھا۔ مگر شیخ نے اُسی وقت ایک زبردست غلطی ثابت کر دی۔ اس برنجی کرہ میں درجوں اور دقیقوں کے خطوط مرکز سے قطر کی تقسیم کے لیے برابر کھچے تھے۔ ثابت یہ کیا جاتا تھا کہ زمین گول ہے اور خط استوا کے دو جانب قطبین کی طرف اس کو بتدریج تدویر ہوتی جاتی ہے۔ شیخ نے اعتراض کیا کہ زمین گول کیونکر ہو سکتی ہے۔ اگر گول ہوتی ایک آدمی یا ایک چیز اُس پر قائم نہ رہ سکتی۔ ادھر اُدھر لڑھکتی پھرتی، گولے پر کہیں ٹھہرا جاتا ہے۔ قطع نظر اس کے سارے دریا سمندر اسی زمین پر جاری ہیں، اگر زمین گول ہوتی تو تمام زمین پر پانی پھیل جاتا گولا آپ ہی ڈبکیاں کھاتا پھرتا۔ یہ کیسی بد عقلی کی باتیں ہیں۔
شیخ باجرے کا ملیدہ اتنا خوش ذائقہ اور لطیف بناتا تھا کہ حلواے مسقطی اور نان بشیر کی حقیقت نہ تھی۔ دوسرے کھانے بھی وہ پکا لیتا تھا اور اچھے پکاتا تھا۔ مگر ماش کی دال میں بتھوے کا ساگ اس کے واسطے مخصوص تھا۔ کھچڑی بغیر ادھن کے اُس نے کبھی نہیں پکائی اور نہ ارہر کی دال بغیر پالک کے ساگ کے اُس کو اچھی معلوم ہوئی۔ کیری کی چٹنی اور املی کا کچھا بہت ہی لذیذ اور چٹ پٹا بناتا تھا۔ کچے کیتھے کو نمک کے ساتھ کھانا اُسی کی ایجاد ہے۔ جنگلی بیروں کو جوش دے کے وہ ایک قسم کی شراب بناتا تھا۔ اُسی کا نام شراب الصالحین ہے۔
شیخ نہایت سادہ مزاج تھا۔ اُس کو ہلکے ہلکے صوفیانہ رنگ بہت پسند تھے۔ ملتانی مٹی میں وہ ہمیشہ اپنی لنگی اور چادرہ بہت ہی تکلف کے ساتھ رنگ لیا کرتا تھا۔ ببول کی چھال کا رنگ کاٹ کے وہ ایسا پائدار رنگ رنگتا تھا کہ کپڑا پھٹ جائے مگر رنگ نہ جائے۔ ایک بار اُس کے یہاں ایک بکری بیمار ہو گئی جس کو ذبح کرنے کے بغیر چارہ نہ تھا۔ شیخ کو خون دیکھ کے اُس کا شوخ رنگ ایسا پسند آیا کہ اپنا کرتہ پاجامہ دونوں اُس میں رنگ لیے۔ گوالیار کے اکثر رنگ اُسی کی ایجاد سے ہیں۔
حقائق اشیا کا ماہر اتنا بڑا کوئی ہوا ہی نہیں۔ غلہ کے تمام اقسام کو وہ بلا تردّد پہچان لیتا تھا اور سب کے نام اُس کو حفظ تھے۔ اُن کی ترکیب استعمال میں بھی اُس نے کبھی غلطی نہیں کی۔ مثلاً گیہوں وہ ہمیشہ پسوا لیا کرتا تھا۔ چنوں کو بھون کے کھانے کی ترکیب اُس نے نکالی۔ تانبے، پیتل، لوہے کو وہ الگ الگ تمیز کر لیا کرتا تھا اور اُن کے رنگ صاف بتا دیتا تھا۔ معدنی اشیا کو ہمیشہ فلزی چیزوں سے برابر تبادلہ کر لینے میں اُس کو اہتمام رہا۔ سونے چاندی کے متعلق اُس کو یہ بحث تھی کہ صرف رنگ کے فرق سے کیوں قیمت میں تفاوت ہے۔ اس کے متعلق دربار اکبری سے زیادہ امتحان کا کون میدان تھا۔ وہاں جب اُس نے مناظرہ کیا ہے تو کسی کو جواب دینے کی مجال نہ تھی اور وہ اس بات پر اڑا رہا کہ صرف ایک ذہنی فرق پر ایک چیز کو کم حقیقت دوسری کو گراں قیمت کیوں قرار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ اسی بنا پر اُس نے بارہا اشرفی کو روپے کے ساتھ برابر برابر تبدیل کرا لیا اور صراف کو ماننا ہی پڑا۔
منطق الطیر میں بھی اس کو کچھ ملکہ تھا۔ سویرے سویرے کوے کے بولنے پر وہ دن بھر مہمان کا انتظار کرتا رہتا۔ صبح کو مرغ بولتے ہی وہ سمجھ جاتا کہ تڑکا ہو گیا۔ مرغیوں کے کڑکڑانے کے ساتھ ہی وہ بیوی کو بتا دیتا کہ اب انڈے دیں گی۔ گھر کے پلے ہوئے طوطے کی بولی وہ بہت ہی جلد اور صفائی کے ساتھ سمجھ جاتا تھا اور گھڑیوں اُس کی لغت میں باتیں کیا کرتا۔
اسی طرح اور جانوروں کی زبان جانتا تھا۔ گھر کی بکریاں جب رات کو غیر معمولی طور پر پکارتیں، وہ کہہ دیتا کہ بھیڑیا یا کتا آیا ہے۔ جب بکری باہر سے چر کے آتی اور بچہ پکارتا تو وہ ہنس کے بیوی کو بتا دیتا تھا کہ دیکھو یہ دودھ مانگتا ہے اور ماں بھی اُس کا جواب دے رہی ہے کہ ٹھہر جا پلاتی ہوں۔ کتوں کی بات چیت چوروں کے آنے پر اُسے برابر معلوم ہو جاتی اور بے تحاشا وہ پڑوسیوں کو پکار کے اس خطرے سے آگاہ کر دیتا تھا۔ گھوڑا اُس نے پالا ہی نہیں۔ مگر سراے وغیرہ میں کسی کا گھوڑا رات کو ہنہنایا کہ اُس نے بھٹیاری یا سائیس کو ڈانٹا کہ گھاس مانگتا ہے گھاس۔
بیل اُس کے گھر میں جب تک رہے وہ ان کی منطق ہی میں اُن سے بات چیت کیا کرتا۔ مثلاً بیل کو دھیما اور قابو میں کرنے کے لیے وہ ایک خاص آواز اور ادا سے چمکارتا اور وہ فوراً مان جاتا۔ یا چلنے کے لیے جو الفاظ بیل کی زبان میں معین تھے شیخ وہ ہی لفظ بولا کرتا اور بیل چل پڑتا۔ پانی پیتا باتیں اور ہی کچھ تھیں جس سے بیل فوراً متوجہ ہو جاتا اور گھٹ گھٹ پانی پی لیتا۔
بھینس کی آواز چونکہ زیادہ سُریلی اور خوش ہوتی ہے، شیخ کو بہت مرغوب تھی، خصوص جب وہ اپنے بچے سے دُلار کی باتیں کرتی تو شیخ زیادہ متوجہ ہو کے سُنتا۔ اور خود زبان دان تھا، اس کو لطف بھی بہت ملتا اور ہنسا کرتا۔
ہاتھی اکبر آباد میں بارہا دیکھا اور تمام اراکین سلطنت اُس کے یار تھے۔ سب نے اُس کو چڑھنے پر مجبور کیا۔ مگر وہ دانش مند ایسی جوکھم میں پڑنا پسند نہ کرتا تھا کہ ایک چلتے پہاڑ پر بیٹھ کے اپنی تشہیر کر آئے اس لیے کبھی ہامی نہ بھری اور دور ہی سے اُس کالی بلا کو سلام کیا۔ مگر زبان اُس کی بھی جانتا تھا اور اس فرق کے ساتھ کہ افریقہ کے ہاتھی عربی بولتے ہیں اور کجلی بن کے بھاکا۔ اس کا ثبوت اس طرح ہوا کہ ایک افریقہ کا دوسرا کجلی بن کا ہاتھی دونوں ایک مقام پر موجود تھے۔ پہلے ہاتھی کے فیل بان نے کہا میل میل اور ہاتھی فوراً بڑھ گیا۔ شیخ نے تڑ سے بتا دیا کہ یہ عربی سمجھتا ہے۔ میل اور مائل ایک ہی مادہ سے ہیں۔ فیل بان نے آگے بڑھنے کو کہا وہ چل نکلا۔ دوسرے ہاتھی کو دھت دھت کہا گیا وہ پیچھے ہٹا۔ شیخ نے بتایا کہ دھت کلمہ زجر کا ہے اور ہاتھی سمجھ گیا کہ مجھ پر ملامت ہوتی ہے وہ ہٹ گیا۔
بندر سے وہ بہت خفا رہتا کیوں کہ اس کی متانت کو اس مسخرے کی بے ہودگیوں اور شرارتوں سے کوئی مناسبت ہی نہ تھی۔ اکبر آباد کے سفر میں جب اس کا گذر بندرا بن سے ہوا، چاہا راستہ ہی چھوڑ دیں اور باہر باہر نکل جائیں۔ چنانچہ اُس نے جہاں سے سنا تھا کہ آگے بندرا بن ہے وہ وہیں سے کترا گیا اور داہنے ہاتھ کو مُڑ کے ایک طرف چل نکلا۔ شام تک چلا اور کچھ اس ترکیب سے چلا کہ جہاں سے مُڑا تھا اور جہاں شام کو پہنچا، نیم دائرہ کی شکل میں راستہ قطع کیا اور جب بستی میں پہنچ کے نام پوچھا تو معلوم ہوا کہ بندرا بن ہے۔ لا حول و لا قوة! یہ تو کچھ نہ ہوا۔ اخیر رات کو سرا میں سو رہا۔ صبح کو اُٹھا تو پہلے سامنے کھپریل پر ایک جغادری بندر ہی پر نظر پڑی اور اُس نے وہیں سے شیخ کو گھورا۔ یہ مُنہ پھرا کے پلٹے ہی تھے کہ اپنی کوٹھری کے سائبان پر دس پانچ دھوپ کھاتے نظر پڑے۔ آپ بہت چکرائے مگر حواس تو اس کے کبھی جاتے نہ تھے کوٹھری میں پلٹ کے چارپائی پر لیٹ گیا اور سوچنے لگا۔ ہزاروں ترکیبیں ذہن میں آئیں مگر سب بیکار۔ آخر ایک بات سوجھ گئی اور شیخ نے فوراً بھٹیاری کو بلا کے حکم دیا کہ ہمارے لیے جو کھانا پکے وہ دو آدمی کا ہو۔ بھٹیاری نے تعمیل کی اور جلد جلد کھانا تیار کر دیا۔ جب تک شیخ اندر ہی بیٹھا رہا تھا۔ کھانا پک کے آیا تو بندر پیچھے پیچھے وہ تو سمجھ ہی گئے تھے آج بڑے بھاگوان کا منہ دیکھا ہے، دعوت چکھیں گے۔ غرض شیخ ایک طرف سائبان میں کھانا رکھوا کے پھرتی کے ساتھ کوٹھری سے باہر ہو گیا اور آناً فاناً سرا سے نکل کے یہ جا وہ جا۔ اپنا راستہ لیا۔ بندر کھانے میں ایسے مصروف ہوئے کہ شیخ کا شکریہ تک نہ ادا کر سکے۔
تیرھواں باب
چند نکتے اور بس
اعتبار
شیخ کے گھر کسی نے لکھ بھیجا کہ شیخ کا انتقال ہو گیا۔ بیوی بچاری بہت روئی، چوڑیاں ٹھنڈی کر ڈالیں، نتھ بڑھا دی، رنڈ سالے کا جوڑا پہنا۔ سب رسوم سے فراغت کے بعد اکبرآباد کو قاصد روانہ کیا۔ یہاں پہنچا تو شیخ کو صحیح و سالم ہٹا کٹا پایا اور سارا ماجرا بیان کیا۔ شیخ زار و قطار رونے لگا۔ ملا دو پیازہ نے گھبرا کے پوچھا: خیر تو ہے۔ آپ نے فرمایا: بیوی بیوہ ہو گئیں۔ ملا صاحب نے کہا: تم زندہ بیٹھے ہو، بیوہ کیسے ہوئیں۔ شیخ نے فرمایا: ہوں کیا میں یہ نہیں جانتا مگر یہ آدمی بڑا معتبر ہے۔
وکیل قطعی
فیضی نے شیخ سے پوچھا کہ بتائیے تو سہی پہلے انڈا پیدا ہوا یا مرغی۔ شیخ نے ذرا سوچ کے اس مشکل مسئلہ کا چار طرح جواب دیا۔
1۔ انڈے سے مرغی پہلے پیدا ہوئی اور مرغی سے انڈا۔
2۔ مرغی سے انڈا ہوا اور انڈے سے مرغی۔
3۔ انڈا مرغی سے پہلے ہے کیونکہ انڈے سے مرغی نکلتی ہے۔
4۔ مرغی پہلے تھی کیونکہ اس سے انڈا ہوتا ہے۔
محنت کم فائدہ زیادہ
یورپ میں آج جو ہنرمندیاں پائی جاتی ہیں اور وہاں کے دانش مندوں کی طباعی نے مشینوں کے ذریعہ سے ایک میں دو دو چار کام لیے ہیں، اس اصول سے شیخ بے خبر نہ تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا کہ کھچڑی کی ترکیب اچھی تو ضرور ہے۔ مگر یہ دقت ہے کہ چاول دال ملانا پڑتے ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا ہے کہ ایسی ترکیب کی جائے کہ کھچڑی ہی کھیت میں پیدا ہو۔ بیوی نے اور شیخ نے چاول اور دال ملا کے تخم ریزی کر دی۔ مگر اتفاق سے اس سال پانی نہ برسا اور روئیدگی مطلق نہ ہوئی ورنہ کامیابی میں کیا شبہ تھا۔
رحم
شیخ کے باوا کے وقت کی ایک گھوڑی تھی۔ چونکہ موے باپ کی نشانی تھی اس کو بہت پیار سے رکھتے اور دانہ چارہ خود ہی دیتے۔ ایک بار جنگل کو لے گئے اور گھاس چھیل کے گٹھا باندھا۔ پہلے گھوڑی پر رکھا اور خود بھی سوار ہونے کو تھے۔ خیال آگیا اس پر بوجھ ہو جائے گا لہذا گٹھا تو اپنے سر پر رکھا، آپ گھوڑی پر لد لیے۔ اس طرح بوجھ تقسیم ہو گیا اور گھوڑی کو تکلیف نہ ہوئی۔
قومی جوش
شہنشاہ اکبر ایک روز بیربل کو حسب معمول قومی فضیلت کے بارے میں چھیڑ رہے تھے۔ بیربل نے عرض کیا: خداوند! ہندوؤں کو ہر طرح اولویت اور فضیلت حاصل ہے جس کی ایک نظیر یہ ہے کہ ہندو کا پہلے مسلمان کا بعد نام لیا جاتا ہے یعنی ہندو مسلمان۔ شیخ کسی اور کام میں راجا ٹوڈرمل کے پاس مصروف تھے، یہ آواز جو کان میں پہنچی وہیں سے بول اٹھے: جہاں پناہ! جیسے جورو مرد۔
سادگی
علامہ ابو الفضل نے ہنس کے شیخ سے کہا کہ یہ بات آج تک سمجھ میں نہ آئی کہ آخری چہار شنبہ بدھی کے روز پڑتا ہے۔ شیخ نے کہا: آپ اسی کو پوچھتے ہیں۔ ہمارے قصبہ میں عشرہ محرم ہمیشہ چاندنی میں آیا کرتا ہے۔
اپنی عزت اپنے ہاتھ
راجہ بھگوان داس والیِ امبر کے بیٹے کے جینو کی رسم میں بڑا جلسہ اکبرآباد میں ہوا۔ منی بائی طوائف کا مجرا ہو رہا تھا۔ کسی حریف کے اشارہ سے اس نے یہ شعر گایا اور شیخ کی طرف ہاتھ اٹھا کے بتایا ؎
ریش سفید شیخ پر ہرگز نہ جائیو
اس مکر چاندنی پہ نہ کرنا گمان صبح
شیخ نے جھپٹ کے ایک طمانچہ اس زور سے رنڈی کے مارا کہ سارا جلسہ درہم برہم ہو گیا۔
خاموشی اور حفظ لسان
شیخ کبھی بے موقع بات نہ کرتا اور خاموشی کے فوائد سے پورا آگاہ تھا۔ وہ ایک بار سخت علیل ہوا اور جان پر نوبت آگئی۔ شہنشاہ اکبر نے اپنے خاص طبیب مہاراج اندرمان ویدانت برہمن کو علاج کے لیے بھیجا۔ شیخ سے حال پوچھا: اس نے مطلق جواب نہ دیا۔ بڑی سر کھپی کے بعد ارشاد ہوا: بیمار ہوں۔ مگر نہ بیماری کا حال کہا نہ اس کے اسباب۔ طبیب نے اپنی اٹکل سے نسخہ لکھ دیا اور چلا آیا۔ اس طرح اس کے گھر میں آگ لگی۔ نوکر چاکر باہر تھے۔ شیخ صحن میں ٹہلا کیا، سب جل کے خاک ہو گیا مگر اس نے بے فائدہ بات نا پسند کی۔
جھوٹ کی برداشت نہیں
شیخ کی بستی میں دوسری جگہ سے ایک برات آئی اور اس کے دروازہ کے سامنے سے نکلی۔ وہ متین تو تھا مگر شوقین۔ لڑکیاں اور خود اس کی بیوی کوٹھے پر چڑھ گئیں۔ شیخ کا بھی جی چاہا مگر دروازہ پر کھڑے ہو کے دیکھنا خلاف تہذیب اور کسر شان سمجھ کے وہ بھی کوٹھے پر پہنچا۔ منظور یہ تھا کہ یہاں بھی کوئی پہچانے نہیں۔ اس لیے لال دوپٹہ اوڑھ کے عورتوں میں مل گیا اور برات دیکھنے لگا۔ بندہ بشر ہے چہرہ چھپانا بھول گیا۔ ایک شریر لڑکے کی نظر پڑ گئی، اس نے گھبرا کے دوسرے لڑکے سے کہا: “ارے غضب داڑھی مونچھوں والی عورت”، اور شیخ کی طرف اشارہ کیا۔ اس جھوٹ اور اتہام پر شیخ کے آگ لگ گئی۔ مگر پھر بھی تہذیب کو ہاتھ سے نہ دیا اور دوپٹہ اتار کے کہا: عورت آپ کی والدہ ہوں گی ہم تو مرد ہیں۔
دور اندیشی
مرزا شاہ نواز بیگ قاقشال جب اکبر کی طرف سے ابراہیم عادل شاہ کے پاس سفارت پر گیا، ابراہیم نے اکبر اعظم کے لیے بہت سے تحفے دیے اس میں تمباکو کا بھی ایک ڈبہ تھا۔ یہ نئی چیز جب دربار اکبری میں پہنچی اس پر بڑے مباحثے ہوئے۔ آخر خاص طبیب شاہی شفاء الملک کے امتحان اور مشورے کے بعد تمباکو حقے میں بھرا گیا اور سر دربار اکبر کے سامنے پیش ہوا۔ شیخ نے اس کے پینے سے بے محابا اختلاف کیا اور وجہ یہ بیان کی کہ چلم سے جس طرح دھواں کھچ کے منہ میں پہنچتا ہے، اگر کوئی چنگاری پیٹ میں اتر جائے تو غضب ہی ہوجائے۔
فن تعمیر کا کمال
نواب بیرم خان نے مسجد بنوائی۔ جب اس کے مینار اونچے ہونے لگے، شیخ نے راے دی کہ اس طرح مینار ٹیڑھے بننے کا احتمال ہے۔ پہلے دو گہرے کنوؤں میں اینٹ چونا خوب بھر دیا جائے، جب سوکھ جائیں مینار بنے بنائے نکل آئیں گے۔ وہی کھڑے کر دیے جائیں۔
تمیز بذوقات
حکیم افراطونوس یونانی کا قصہ کے سامنے الہ وردی خان نے بیان کیا کہ ایک سو ایک ادویہ کی مرکب معجون کو اس نے چکھ کے سب دواؤں کے نام بتا دیے تھے۔ شیخ نے ہنس کے فرمایا: یہ کونسی بڑی بات ہے، ہم ہمیشہ باجرے کا ملیدہ اور بیسن کی کڑھی کھا کے بتا دیا کرتے ہیں کہ ایک میں گڑ ملا ہوا ہے دوسرے میں نمک، مرچ، ہلدی، پیاز اور میتھی کا بگھار بھی ہے۔ بغیر چکھے وہ حکیم بتا دیتا تو اک بات بھی تھی۔
بشپ انڈریو سے انگریزی سیکھی
اکبر کے دربار میں پرتگیزوں کا سفیر رہتا ہی تھا۔ اسی کی وساطت سے انگلستان کے لاٹ پادری بشب انڈریو کو بھی حضوری حاصل ہوئی۔ یہ بڑے لائق اور ملنسار تھے۔ فیضی نے اسی سے انگریزی زبان سیکھی۔ چونکہ شیخ اکثر فیضی کے یہاں جایا کرتا تھا، فیضی کو انگریزی پڑھتے دیکھ کے آپ کو بھی شوق چرایا مگر ضد یہ کہ شاگردی کا ننگ کون گوارا کرے۔ شیخ کی ذہانت مسلمہ ہے، اس نے فیضی کے سبق سننا شروع کیے اور آپ سے ان میں جوڑ لگا کے انگریزی الفاظ یاد کر لیے۔ یہ مشہور شعر ؎
اے نامے توژژد کرسٹو
سبحانک لا الہ یا ہو
فیضی کے نام سے مشہور ہے مگر تذکروں سے ثابت ہے کہ شیخ نے اپنی انگریزی دانی کے اظہار میں کہا تھا۔
پرتگیزی سفیر کو زک
ڈیورنڈ شیوری پرتگیزون کا سفیر نہایت متکبر تھا مگر اکبر کی جبروت کے سامنے اس کی نخوت کیا چل سکتی تھی۔ تاہم اہل دربار اس کی رعونت کے چرچے کیا کرتے تھے۔ شیخ کو بھی یہ حال معلوم تھا مگر کبھی اس سے بات نہیں کرتے تھے۔ نواب بیرم خان نے ایک دن شیخ کو اشارہ کر دیا کہ آج اس نصرانی کی آپ خبر لیجیے۔ یہ بہت بڑھ چلا ہے۔ فوراً ہی اس کے خیال میں ایک بات آگئی اور آپ مستعد ہو گئے۔ آج ڈیورنڈ جس وقت دربار پہنچا، شیخ نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور کسی حیلہ سے سفیر صاحب کی کرسی کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ وہ آداب گاہ میں پہنچ کے مجرا اور ڈنڈوت بجا لایا اور ادب سے پچھلے پاؤں ہٹتا ہوا اپنی کرسی کے قریب پہنچا۔ بیٹھنے کے لیے جھکا کہ شیخ نے پیچھے سے کرسی گھسیٹ لی اور سفیر صاحب انٹاچت۔
موسیو باریو دینیو فرانسیسی سے یارانہ
شیخ کو تمام اہل دربار میں موسیو باریو دینیو ایک فرانسیسی ملک التجار سے نہایت تعلق اور محبت تھی۔ باریو بڑا ظریف تھا اور شیخ کی ظرافت کو اس سے زیادہ کوئی نہیں پسند کرتا تھا اور بڑی وجہ شیخ کو اس کے ساتھ یارانہ کی یہ تھی کہ وہ فرانس کے سنگھاڑے اور کمرَکھیں ہمیشہ شیخ کو کھلایا کرتا تھا مگر شیخ نے اپنے یار کو بھی نہ چھوڑا اور ایک دن بھرے دربار میں اس کی بری گت بنائی۔ واقعہ یہ ہے کہ موسیو باریو اکبر کے لیے فرانس کی بنی ہوئی سنہری لیس، کٹہل کا مربہ، اندرسے کی گولیاں، لونگ چڑے کباب اور مٹر کے گدگدے تحفہ میں لایا تھا۔ اکبر اعظم جس قدر عظیم الشان شہنشاہ تھا اتنا عظیم الاخلاق عمیم الاحسان بھی تھا۔ اس نے جب چیزیں بکشادہ پیشانی قبول کیں اور مربہ کی ایک ایک قاش، تھوڑے تھوڑے گدگدے درباریوں کو تقسیم کیے، شیخ چلی اپنا حصہ لے کے وہیں نوش جان کرنے لگے۔ موسیو باریو نے چپکے سے کہا: مرد خدا! ہم کو بھی دو۔ شیخ نے مربہ کی قاش اس کی طرف بڑھائی اس کے ہاتھ رکے ہوئے تھے۔ کہا: منہ میں دے دو۔ شیخ اس کے منہ کے پاس لے گیا، اس نے منہ پھیلایا کہ شیخ نے جھپ سے اپنے منہ سے قاش رکھ لی۔
دفع ضرر کی تدبیر
شیخ کی چارپائی میں بکثرت کھٹمل پیدا ہو گئے۔ گرم پانی کی معمولی ترکیب پر اس کی طبیعت نہ لڑی، نہ کچھ مفید سمجھی؛ مگر کھٹمل ہیں کہ سارا خون چوسے لیتے ہیں۔ شیخ نے ایک دن ذرا غور کیا اور ایک ترکیب سمجھ میں آگئی۔ چار تولہ سنکھیا خرید لایا اور باریک پیس کے سوتے وقت تمام جسم میں اس کا ابٹن مل لیا۔ اب کاٹو۔
بدلا
شیخ مبارک کے مرنے پر فیضی اور ابو الفضل نے حسب آئین اکبری بھنڈارا کیا اور ڈاڑھی مونچھیں منڈوا ڈالیں۔ دونوں بھائیوں کا تقرب اور اکبر اعظم کی مرضی سے اہل دربار کو بھی ڈاڑھی مونچھ منڈوانی پڑی۔ شیخ بھی ان میں شریک تھے۔ مولانا عبد القادر بدایونی اور صدر جہاں وغیرہ علما نے البتہ مطلق انکار کیا۔ خیر بات گئی گذری ہوئی۔ مگر شیخ کو اس کا خیال ضرور رہا۔ سال بھر کے بعد شیخ کی گاے مر گئی اور آپ نے اپنی ڈاڑھی مونچھ کا صفایا کیا سو کیا ہی، فیضی اور ابو الفضل کے بھی سر ہو گئے کہ ہم نے تمھارے باپ کے سوگ میں بھنڈارا کیا تھا۔ تم ہماری گئو ماتا کا بھنڈارا کیوں نہیں کرتے۔ ہر چند دونوں بھائیوں نے فلسفہ بگھارا اور حکمت کے سارے رموز کھول کے بیسیوں دلیلیں کیں مگر میرے شیر نے ایک نہ مانی۔ آخر اکبر تک یہ قصہ پہنچا اور راجا بیربل، دیوان ٹوڈرمل، مہاراجا مان سنگھ کچھواہا نے تائید کی۔ دونوں بھائیوں کو ڈاڑھی مونچھیں گئو ماتا کے بھنڈارا میں بھینٹ چڑھانا پڑا، تب جا کے شیخ نے دم لیا۔
دروغ مصلحت آمیز
شہزادہ سلیم (جہانگیر) اکبر سے باغی ہو گیا۔ مریم مکانی (اکبر کی ماں) الہ آباد گئیں کہ لاڈلے پوتے کو منا لائیں۔ وہ خبر پاتے ہی کشتیوں کے نواڑے میں بیٹھ کے بنگالہ چل دیا۔ مریم مکانی کو سخت رنج ہوا۔ اکبر کابل کی مہم پر حکیم مرزا کے مقابلہ میں صف آرا تھا۔ اس خبر کو سنتے بے چین ہو گیا۔ ارکان دولت نے تدبیروں کے باد ہوائی کبوتر اڑائے مگر ایک نے بھی چھتری پر پنجے نہ ٹیکے، سب مہمل۔ شیخ بھی ہمراہ رکاب تھے۔ بادشاہ کو زیادہ متردد پاکے آپ نے بیڑا اٹھایا کہ میں شہزادہ کو لے آؤں گا۔ اکبر نے کچھ سوار ساتھ کیے اور شیخ جی روانہ ہوئے۔ شہزادہ قلعہ بہار میں مقیم تھا کہ یہ پہنچ گئے اور جاتے ہی مژدہ سنایا کہ اکبر اعظم حکیم مرزا کے مقابلہ میں مارا گیا۔ چلیے تخت سلطنت آپ کے لیے خالی ہے۔ شہزادہ اٹھ کھڑا ہوا اور یلغار کرکے آگرہ پہنچا۔ ادھر سے اکبر بھی حکیم مرزا کی مہم فیصل کرکے آگرہ میں پہنچ گیا تھا۔ اس تدبیر سے باپ بیٹوں میں ملاپ ہو گیا اور شیخ کو بڑا انعام عطا ہوا۔
شیطان پورہ
اکبر نے آگرہ میں کسبیوں کے چکلہ کے نام شیطان پورہ رکھا تھا۔ شیخ لہری بندے تھے، ادھر بھی کبھی کبھی ہو نکلتے۔ اکثر سے یاد اللہ بھی ہو گئی تھی۔ لینے دینے کا سبق آپ نے نہیں پڑھا تھا۔ جہاں جاتے نائکہ بڑبڑاتی، یہ سنتے اور پی جاتے۔ ایک دن پتلی بائی کے کمرہ میں پہنچے، پان کھائے، الائچیاں چکھیں۔ اٹھے تھے کہ نائکہ کو زینہ پر چڑھتے دیکھا۔ ادھر سے یہ اترے، بیچ میں ٹکر ہوئی۔ نائکہ لڑھکتی پڑھکتی نیچے آرہی اور شیخ نے پھر منہ پیک اس کے اوپر تھوک کے خود ہی غل مچا دیا: “نائکہ جی گر گئیں، سر پھوٹ گیا”۔ پتلی بائی دوڑی، دیکھا تو سر لہو لہان۔ حالانکہ وہ حضرت شیخ کے اوگال کا رنگ تھا۔
مخبری
اسی شیطان پورہ میں ایک بار شیخ جی راجا بیربل کو بھری دے کے لے آئے۔ راجا جی مہاتما گُن وان پنڈت ہی نہ تھے بلکہ شوقین مزاج بھی تھے۔ راجا جی تو دیوی کے پوجا میں لگے۔ ادھر شیخ بھاگے اور جاتے ہی اکبر سے جڑ دی۔ اکبر نے بلا کے بری گت بنائی اور بیٹھک کی بڑی فضیحتی ہوئی۔
زنانہ بازار
اکبر کی ہزاروں ایجادوں میں زنانہ بازار بھی تھا۔ امرا، شرفا عورتیں بیٹیاں اس بازار میں جمع ہوتیں، دوکانیں لگاتیں۔ شاہی بیگمات، خان و خوانین کی مستورات سودے کرتیں، خریدار بنتیں۔ بیربل خلوت کا یار تھا۔ اکبر اسے چرا چھپا کے جانے دیتا۔ شیخ کو خبر لگی۔ شوق ہوا اور غصہ بھی آیا ہم نہ جائیں بیربل جائے۔ دربار میں گئے تو روٹھے ہوئے منہ پھیلائے بیٹھے ہیں۔ اکبر نے پہلے خیال بھی نہ کیا۔ جب ذرا غور سے حضرت شیخ کی طرف دیکھا تو سمجھ گیا، آج کچھ دال میں کالا ہے۔ پاس بلایا۔ اٹھے مگر کچھ بڑبڑاتے ہوئے، حال پوچھا تو ارشاد ہوا: بیربل تو زنانے اور ہم نہیں۔
بھوکے اشراف سے ڈرو
دھرم پورہ میں اکبر کی طرف سے ہندوؤں کے لیے سدا برت جاری تھا۔ برہمن دیوتا، رسوئی پرستے اور وارد و صادر، غریب غربا، ہندو حیمتے دعائیں دیتے۔ شیخ ایک دن ادھر سے نکلے بھوکے تھے۔ دیکھا پنگھٹ جمی ہے اور پتیلیاں خالی ہو رہی ہیں۔ مانگ کے کھائیں شان کے خلاف۔ گاے کا ہڈا پڑا تھا، اُٹھا کے پنگھٹ میں پھینک دیا۔ رام رام کر کے ہندو اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ نے ہتے مارے چکھ چکھا کے چلتے بنے۔
لطیفہ
اکبر نے امراے دربار کو چیلا بنانا شروع کیا۔ بڑے بڑے گیانی پنڈت اور علماے دین بھی اس کے مرید ہوئے۔ ڈنڈوت، سجدہ، آفتاب کی پوچا سب کے لیے شرط تھی۔ شجرہ کیسا، اس کی جگہ بادشاہ کی تصویر دی جاتی تھی۔ شیخ اگرچہ ایسی تقلیدی باتوں سے کوسوں بھاگتے تھے مگر فیضی کا منتر چل گیا اور یہ بھی مونڈے گئے۔ تصویر عنایت ہوئی۔ گھر میں رکھیں تو چور لے جائیں، کھو جائے۔ قبا میں سامنے ٹانک دی اور جس وقت جی چاہا درشن کر لیے ؏
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
لطیفہ
بادشاہ نے حکم دیا کہ بارہ مہینوں کی خصوصیات قلم بند ہوں اور آئین میں داخل کی جائیں۔ حکیم، حمام، میر فتح اللہ شیرازی، ابو الفضل، فیضی، راجا ٹوڈرمل سب نے مل کے ہر مہینے کا زیچ قائم کر کے اُس کے خواص معین کیے۔ محرم: جاندار کو نہ ستاؤ۔ صفر: بندے آزاد کرو۔ اسی طرح جمادی الثانی کو قرار پایا: چمڑا کام میں نہ لاؤ۔ جب بادشاہ کے سامنے تعینات سُنائے گئے، شیخ چلی بول اٹھے: “جہاں پناہ کیا جیتا مرا دونوں”۔
اپنی اپنی پسند
اکبر نے امرا کو کام تقسیم کیے مثلاً عبد الرحیم خان خاناں گھوڑوں کی نگہداشت، راجہ ٹوڈر مل ہاتھی اور غلہ، شریف خان بھیڑ بکری، ابو الفضل پشمینہ؛ غرض اسی طرح سب کے کام تھے۔ شیخ نے اپنی درخواست سے جمنا کی لہریں گننے کا کام اپنے ذمہ لیا اور پورا کیا۔
اللہ رے اطمینان
بدگمان لوگ اسے بزدلی سے تعبیر کریں گے مگر ہم ایسے بے وجہ شبہے نہیں کرتے۔ واقعہ یہ ہے کہ خان زمان علی قلی خان اور اس کا بھائی بہادر دونوں بادشاہ سے باغی ہو گئے۔ لڑائیاں ہوئیں، رن پڑے اور وہ قابو میں نہ آئے۔ آخر جنگ میں اکبر خود معرکہ میں موجود تھا۔ کڑہ مانک پور پر میدان داری تھی۔ پہلے تو توپ بندوق چلتے رہے۔ تب تک اکبر کے ہاتھی کے پیچھے شیخ بھی ڈٹے تھے۔ آخر دست بدست کی نوبت آئی اور جنگ مغلوبہ ہونے لگی۔ ایک کو دوسرے کی خبر نہیں۔ ہلڑ مچ گیا۔ جب ہیرانند ہاتھی نے علی قلی خان کو چیر کے پھینک دیا اور بہادر خان کو شہباز خان نے گرفتار کر لیا، لڑائی تھم گئی، میدان صاف ہو گیا۔ سردار اور خود بادشاہ اپنی اپنی جگہ پر پہنچے۔ مگر شیخ کا پتہ نہیں۔ زندوں، مردوں سب میں تلاش ہوئی۔ ہوں تو ملیں۔ شام کو گولنداز نے توپ صاف کرنی چاہی، سُمبھا ڈالتا ہے تو آگے نہیں بڑھتا۔ اس نے کھینچ لیا۔ ساتھ ہی شیخ جی آنکھیں ملتے نکل آئے۔ بادشاہ کے سامنے حاضر کیے گئے۔ حال پوچھا۔ عرض کیا: جب دست بدست لڑائی شروع ہو گئی مجھ پر نیند نے بے حد غلبہ کیا۔ کہیں جگہ نہ ملی۔ بادل گرج توپ میں سو رہا۔
بائیسکل
آج ہر شہر میں بائیسکلوں کی کثرت ہے۔ اس کی ایجاد کا بھی فخر شیخ چلی کو حاصل ہے۔ آگرہ میں وہ اکثر ایک بانس پر سوار ہو کے پھرا کرتا تھا اور نہایت تیز جاتا تھا۔ بشپ انڈریو نے اس سواری کو بہت پسند کیا اور یورپ میں جا کے اس کی شہرت دی۔ مدت تک یہی سواری وہاں مستعمل رہی مگر قاعدہ ہے ہر ایجاد میں زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق اصلاحیں ہوتی رہتی ہیں۔ رفتہ رفتہ بانس کی ہیئت کذائی یہ قرار پائی جو آج بائیسکلوں میں دیکھتے ہو۔ اس میں اُس میں تھوڑا سا فرق ہے۔
تثلیث کی تردید
پادری فریبتون نے جب دربار اکبری میں ثالث ثلثہ پر دلیلیں قائم کیں، تمام علما حکما دنگ ہو گئے کسی کو جواب نہ سوجھا۔ شیخ جی آستین چڑھا کے سامنے آئے فرمایا: ایک تین نہیں، نہ تین ایک، ہم اور تم اور یہ (فیضی کی طرف اشارہ کیا) تین ہیں اور تین ہی رہیں گے۔ ایک ہو نہیں سکتے۔ اسی طرح تم اکیلے ایک ہو ہم دونوں ایک ہو گئے، تم نہیں بن سکتے۔ بات معقول تھی۔ پادری ساکت اور بند ہو گیا۔
روپیہ نہ جائے
ملا دو پیازہ جب پہلی بار شیخ کو دربار میں لے گئے تو پانچ اشرفیاں ان کو دیں کہ بادشاہ کو نذر دکھانا۔ آپ نے نذر پیش کی۔ بادشاہ نے ہاتھ بڑھایا کہ نذر لے۔ شیخ پیچھے ہٹا اور ملا سے کہا: “ارے غضب اشرفیاں لے ہی مرا تھا”۔
خاتمہ
تمام زمانہ میں شیخ کی نمود ہو رہی ہے۔ کوئی ملک ایسا نہیں جہاں شیخ چلی کا نام نہ لیا جاتا ہو۔ جب کوئی فوق العادت کام کسی شخص کے ذہن میں آتا ہے اور اہل روزگار اس کے نتائج پر غور نہیں کرتے تو بادی النظر میں اس کام کو مشکل سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں: “یہ تو شیخ چلی کے منصوبے ہیں”۔ اس سے ثابت ہے کہ شیخ کی تقلید ہمیشہ عقلاے روزگار کرتے آئے ہیں اور آج یہی دنیا کے دانش مند اس کی پیری اپنا فخر سمجھتے ہیں اور ایسے ایسے منصوبے باندھا کرتے ہیں جن کی بنیاد وہ عقلمند رکھ گیا تھا۔ اس کے نقش قدم پر چلنے والے نہ صرف ایشیا میں بلکہ یورپ میں ہزاروں لاکھوں آدمی موجود ہیں جن میں ممبران پارلیمنٹ سے لے کر راہ چلتے مزدور بھی اس کی پیروی اپنا فخر جانتے ہیں۔ ایشیا اور خصوص ہندوستان میں اُس کے کمالات، خیالات کی بہت زیادہ داد دی جاتی ہے اور قدر کی جاتی ہے۔ درحقیقت ان لوگوں کے لیے اُس نے جو راستے کھول دیے اور جو نقش قدم چھوڑ گیا ہے، اس کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ عقل مندی اور حماقت کے بیچ میں جو عمیق سمندر واقع تھا، اسی باہمت شیخ نے اُسے گھنگول ڈالا اور دونوں کو اس طرح باہم آمیز کر دیا جس سے اُس کی تمیز محال ہے کہ “آیا شیخ چلی عقلمند تھا یا احمق”۔
قطعہ تاریخ از مصنف
چہچہے ہیں قہقہے جو شوخیاں ہیں ہر طرف سال تاریخش جو ہیگا ہاتف غیبی بگفت |
ہے جو ہے سو فی المثل فرخندگی خندیدگی شیخ چلی آ گئے دنیا میں باسنجیدگی 1319ھ |
اراکین مجلس ادبیات عالیہ
اردو کے مخلص، سچے اور بے لوث خادم جنھوں نے اردو ادب عالیہ کی یونی کوڈ سازی میں اپنا تعاون پیش کیا
آصف انظارندوی،کانپور
ابو ذر قوی،لکھنؤ اسامہ احمد ندوی، بھٹکل اسامہ نفیس، لکھنؤ اقبال احمد ندوی،سہرسا الشفاء انعام الحق ندوی، بھٹکل اوشو، مشرقِ وسطیٰ ایس ایس ساگر تفسیر حسین، دہلی ثقلین حیدر، دہلی ثمرین زارا جاسمن، کراچی راشد مرتضیٰ، سیتامڑھی سحر عرف محمل ابراہیم رشیدہ رومی سفیان الحسینی،لکھنؤ سمعان خلیفہ ندوی،بھٹکل سمیع اللہ خاں، کوکن سیما علی شعیب گناترا |
شفیع اللہ خان، بالاپور
شمشاد، سعودی عرب صابرہ امین طلحہ نعمت عاطف علی،سعودی عرب عبد الحمید اطہرندوی، بھٹکل عبد الرحمن، دہلی عبد الرؤوف عبدالصمد چیمہ عبد القادر، بھوپال عبد اللہ نیموی، بیگوسرائے عبد المعید خاں ندوی، ممبئی عبید رضا، پنڈی گھیپ عزیر فلاحی، بھوپال عطاء اللہ سنجری،کیرالا علقمہ فضل الرحیم، دہلی فیصل انس، حیدرآباد فرحت کیانی قرۃ العین اعوان گل یاسمیں، اسکینڈی نیویا لا ایلما |
محب علوی، لاہور
محمودالرحمن، دیوبند میر عابد علی، میدک محمد عاکف، بھٹکل محمد شاہد خان، لکھنؤ محمد اکرم قاسمی، ناگپور محمد راشد ندوی، امراؤتی وصی اللہ، بہرائچ محمد ندیم ندوی، امراؤتی ملک احمد ندوی، لکھنؤ محمد عامر ندوی، ودیشا محمد ابان، بھٹکل محمد محسن خاں ندوی، کلکتہ محمد زید، بہرائچ محمد اطہرندوی، مالیگاؤں محمد عمر، انگلستان محمد عدنان اکبری نقیبی مومن فرحین مقدس، انگلستان ماہی احمد نور وجدان |
حواشی
[1]۔ مطلب یہ کہ اپنے یاروں کے ساتھ۔ خدا نخواستہ ان کے یار کہاں سے آئے۔
[2]۔ مقتضاے بشریت کی داد دینی چاہیے۔ مصنف رحمۃ اللہ علیہ
[3]۔ ہماری تقریر پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔ مولف
[4]۔ اس واقعہ کو تاریخ سے مطابقت نہیں دینی چاہیے۔ تاریخ میں ایسی فروگذاشتیں ہزاروں ہیں یہ خاص تحقیقات اور معلومات کی باتیں ہیں جن کے لیے لہو پانی ایک کر دیا گیا ہے۔ مؤلف۔
[5]۔ مجھ کو تاریخ میں کس قدر عبور اور ید طولیٰ ہے۔ داد دیجیے۔ مولف