صحافی ادیب بن گئے ہیں اور ادیب صحافی۔ شعروں میں خبریں ہیں اور خبروں میں قافیہ پیمائیاں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
کیفیات
راحیلؔ فاروق
فہرست
قُلْ لَّآ اَجِدُ فِىْ مَآ اُوْحِىَ اِلَىَّ مُحَرَّمًا عَلٰى طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٝٓ اِلَّآ اَنْ يَّكُـوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْـمَ خِنزِيْرٍ فَاِنَّهٝ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْـرِ اللّـٰهِ بِهٖ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْـرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ (انعام: 145)
کہہ دو کہ میں اس وحی میں جو مجھے پہنچی ہے کسی چیز کو کھانے والے پر حرام نہیں پاتا جو اسے کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت کہ وہ ناپاک ہے یا وہ ناجائز ذبیحہ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے، پھر جو بھوک سے بے اختیار ہوجائے ایسی حالت میں کہ نہ بغاوت کرنے والا اور نہ حد سے گزرنے والا ہو تو تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔
حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کہی ہوئی بات کو کہتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبرِ پاکؐ کو حکم دیا ہے کہ وہ کہیں کہ ان تک جو وحی پہنچی ہے اس کی رو سے مردار، خون، سؤر یا غیر اللہ کے ذبیحے کے سوا کوئی شے کھانے والوں پر حرام نہیں۔ الخ۔ مگر کتنی دلچسپ بات ہے کہ احادیث کے کسی مجموعے میں اس مضمون کی ایک بھی حدیث نہیں ملتی!
گویا احادیث کی رو سے کوئی ثبوت نہیں کہ رسولِ مصطفیٰؐ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر عمل کیا ہو۔ نعوذ باللہ، معاذ اللہ۔ الٹا جو روایات حلت و حرمت پر ملتی ہیں وہ اللہ کے دیے ہوئے اس حکم کے یکسر خلاف ہیں۔ ثم معاذ اللہ!
اللہ عزوجل نے قرآنِ مجید میں بالتصریح فرمایا ہے کہ رحمت اللعالمینؐ اپنی خواہش یا مرضی سے کچھ نہیں کہتے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اللہ ایک بات کہنے کا حکم دے اور وہ ہمارے نبیؐ کبھی کسی سے نہ کہیں اور جس بات کا اشارہ تک قرآن میں نہ ملے اس پر تواتر سے احادیث مل جائیں؟
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 20 ستمبر 2020ء
- ربط
سب مجرم کے درپے ہیں۔ حیرت ہے کہ قانون بھی اس کے والدین سے نہیں پوچھنا چاہتا کہ بزرگو، خدا نے آپ کو ایک موم کا گڈا دیا تھا۔ آپ نے اسے سنگین درندہ کیسے اور کیوں بنا دیا؟
ہماری رائے میں ہر مجرم کے والدین کو کم از کم برابر کی سزا ہونی چاہیے۔ وہ دراصل جرم کے ماں باپ ہیں۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 19 ستمبر 2020ء
- ربط
ہماری شناخت اکیسویں صدی کے پاکستانی کے سوا کچھ نہیں۔ ہم عرب نہیں ہیں۔ ترک نہیں۔ بھارتی نہیں۔ امریکی اور یورپی نہیں۔ ہمارا تمدن ان سب تمدنوں ہی کی طرح ایک منفرد اور بھرپور تمدن ہے۔ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ مذہب، سائنس، ترقی یا جغرافیے کے نام پر کسی کی غلامی اختیار کریں؟
خدا عرب اور ترکی کی طرح پاکستان کا بھی ہے۔ سائنس اور ترقی یورپ اور امریکہ کی طرح پاکستان کے لیے بھی ناممکن نہیں۔ ہندوستان کی طرح ایک جغرافیائی اور زمینی حقیقت مملکتِ خداداد پاکستان بھی ہے۔
ہماری شناخت اکیسویں صدی کے پاکستانی کے سوا کچھ نہیں۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 20 مئی 2020ء
- ربط
لاہور میں وکلا کے امراضِ قلب کے ہسپتال پر حملے کے تناظر میں
(اقبالؒ کی روح سے معذرت کے ساتھ)
سبق پھر پڑھ جہالت کا ضلالت کا رذالت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا میں وکالت کا
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 11 دسمبر 2019ء
- ربط
وہ زمانہ میں نے دیکھا ہے کہ راہ چلتی خواتین تاریک اور ویران راہوں میں مرد کی پرچھائیں دیکھ کر لرز اٹھتی تھیں۔ دل ڈوبنے لگتا تھا کہ خدا جانے کون مردوا ہے۔ عورت ذات دیکھ کر شرارت نہ کرے۔ لیکن وہی آدمی ڈاڑھی والا نکلا تو گویا پوبارہ ہو گئی۔ ہائے، یہ تو مولوی ہے۔ بھلا مانس ہے بیچارہ۔ کچھ نہیں کہے گا۔ بلکہ کسی نے کہا تو بچائے گا۔
یہ زمانہ میں دیکھ رہا ہوں کہ مرد بھی اکیلے میں مولوی کو دیکھ لیں تو پیشاب خطا ہو جاتا ہے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 21 اکتوبر 2019ء
- ربط
سائنس اور سائنسی طرزِ فکر پر یقین ہمارے ہاں کم و بیش ایک مذہب کی سی جارحیت اور کٹر پن اختیار کر گیا ہے۔ عوام کے جہل پر گرفت کرنے والے بر خود غلط علما کی اکثریت اس حقیقت سے ناواقفِ محض ہے کہ مغربی فلاسفہ میں بھی ہیوم سے لے کر رسل تک بہت سے قدآور لوگوں کے نزدیک سائنس کی علمی و عقلی بنیادیں مشتبہ اور موہوم ہیں۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 12 ستمبر 2019ء
- ربط
قیامت کی نشانیاں بتا کر مختلف کاموں سے روکنے والے کیا چاہتے ہیں؟ قیامت نہ آئے؟ اس طرح نہیں آئے گی؟ اعمالِ صالحہ سے موت نہیں ٹلتی۔ قیامت ٹل جائے گی؟ یہ نشانیاں مبینہ طور پر مقرر اور مقدر ہیں۔ تو کیا کوئی انھیں پورا ہونے سے روک بھی سکتا ہے؟ مشیتِ ایزدی معلوم ہوتے ہوئے بھی اس کی اتنی مخالفت چہ معنیٰ دارد؟ کھلواڑ سمجھا ہے؟ چکر کیا ہے؟
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 28 جولائی 2019ء
- ربط
میں سیاست کا نبض شناس نہیں۔ نجوم سے شغف نہیں۔ الہام کا دعویٰ بھی نہیں۔ مگر زندگی کو حتی المقدور گہری اور ہمدردانہ نگاہ سے دیکھا ہے۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ جو شخص بگڑے ہوئے معاشرے کو سدھارنے کا بیڑا اٹھاتا ہے اسے ہمارے وزیرِ اعظم کے سے حالات پیش آتے ہیں۔
کہنے والوں کے پاس بہت باتیں ہیں۔ ہم سنتے بھی ہیں۔ سمجھتے بھی ہیں۔ مگر کیا کریں کہ زندگی نے سکھایا ہے کہ ہر چلتی ہوئی زبان کے پیچھے دماغ نہیں ہوتا۔ ہر روتا ہوا شخص مظلوم نہیں ہوتا۔ ہر مشکل مصیبت نہیں ہوتی۔ ہر لاجواب ہو جانے والا غلط بھی نہیں ہوتا!
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 10 جولائی 2019ء
- ربط
یہود و نصاریٰ نے گزشہ صدیوں میں عہد نامہ ہائے عتیق و جدید کے معتبر اور متفق علیہ تراجم پر توجہ دی ہے۔ اگر ہم ان کی کسی اچھی روایت کی بھی اتباع کرنے کی توفیق رکھتے ہیں تو مناسب وقت ہے کہ قرآنِ مجید کا ایک مستند اور خالص اردو ترجمہ اس پر ایمان رکھنے والے تمام مکاتبِ فکر کے اتفاق سے جاری کیا جائے جو مسلکی اور ذاتی حواشی، تعلیقات اور تاویلات سے حتی الوسع پاک ہو۔ اگر ہمارے علما فی الحقیقت علما ہیں، قرآن کا واقعی فہم اور اس کے معانی کا حقیقی درک رکھتے ہیں اور دکان آرائی، حبِ جاہ اور فرقہ پرستی سے سچ مچ مبرا ہیں تو یہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ عین نعمتِ دو جہاں ثابت ہو سکتا ہے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 22 جون 2019ء
- ربط
راحیلؔ فاروق
پنجاب (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے اردو ادیب۔
کیفیات
چھوٹی چھوٹی باتیں۔ جذبات، کیفیات، احساسات اور خیالات۔ سماجی واسطوں پر دیے جانے والے سٹیٹس (status) کی طرح!
آپ کے لیے
میرا خیال ہے کہ جسے نرم دھوپ، قدرتی ہوا، کچی مٹی اور تازہ پانی کا ذوق نصیب نہیں ہوا وہ بدقسمت ہے۔ اتنا کہ اسے اپنی بدقسمتی کا احساس بھی نہیں۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 9 فروری 2022ء
- ربط
کاملی گفتست میباید بسی
علم و حکمت تا شود گویا کسیلیک باید عقل بی حد و قیاس
تا شود خاموش یک حکمت شناس(شیخ فرید الدین عطارؔ)
ترجمہ
ایک کامل کا قول ہے کہ بولنے کے لیے بڑے علم اور حکمت کی ضرورت ہے۔ لیکن چپ ہونے کے لیے حکمت والے کو (اس سے بھی زیادہ یعنی) بے انتہا عقل کی ضرورت پڑتی ہے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 1 دسمبر 2021ء
- ربط
سیاست سے کسی قدر دلچسپی عمران خان کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ اس شخص کے خلوص اور دیانت کا خیال اب بھی دل میں قائم ہے مگر سوچتا ہوں کہ سیاست کم از کم ہمارے ملک میں شرفا کا کام نہیں۔ ماؤں بہنوں اور بہو بیٹیوں تک کی عزت داؤ پر لگوانے کا یارا ہو تو آدمی انتخاب لڑے۔ کمینوں کے ساتھ کمینہ اور سفلوں کے ساتھ سفلہ ہو جانے کا ذوق پایا ہو تو پارلیمان میں آئے۔ اپنی اور دوسروں کی آبرو پانی کر سکے تو تقریریں اور جلسے کرے۔ مکاری اور چالبازی میں یدِ طولیٰ رکھے تو کرسی پر بیٹھے۔ اور بےشک عمران خان نے یہ سب کیا ہے۔
مشہور قصہ ہے کہ غالبؔ نوکری کے لیے انگریز افسر کے ہاں گئے تھے۔ جب وہ ان کے نوکر ہونے کے خیال سے استقبال کو نہ آیا تو یہ کہہ کر پلٹ آئے کہ گورنمنٹ کی ملازمت باعثِ زیادتئ اعزاز سمجھتا ہوں نہ یہ کہ بزرگوں کے اعزاز کو بھی گنوا بیٹھوں۔
میں ہرگز نہیں کہتا کہ ایسے غیرت مند اور وضع دار جی صرف اگلے وقتوں میں پائے جاتے تھے۔ شریف النفس اور کریم الطبع لوگ ہر زمانے میں ہوتے ہیں۔ آج بھی ہیں۔ بس سیاست نہیں کرتے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 9 اپریل 2022ء
- ربط
سر اپنا تہِ تیغ میں دھرنے کو چلا ہوں
لڑنے کو تو جاتا نہیں مرنے کو چلا ہوں(میر انیسؔ)
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 8 جولائی 2023ء
- ربط
میں سیاست کا نبض شناس نہیں۔ نجوم سے شغف نہیں۔ الہام کا دعویٰ بھی نہیں۔ مگر زندگی کو حتی المقدور گہری اور ہمدردانہ نگاہ سے دیکھا ہے۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ جو شخص بگڑے ہوئے معاشرے کو سدھارنے کا بیڑا اٹھاتا ہے اسے ہمارے وزیرِ اعظم کے سے حالات پیش آتے ہیں۔
کہنے والوں کے پاس بہت باتیں ہیں۔ ہم سنتے بھی ہیں۔ سمجھتے بھی ہیں۔ مگر کیا کریں کہ زندگی نے سکھایا ہے کہ ہر چلتی ہوئی زبان کے پیچھے دماغ نہیں ہوتا۔ ہر روتا ہوا شخص مظلوم نہیں ہوتا۔ ہر مشکل مصیبت نہیں ہوتی۔ ہر لاجواب ہو جانے والا غلط بھی نہیں ہوتا!
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 10 جولائی 2019ء
- ربط