قُلْ لَّآ اَجِدُ فِىْ مَآ اُوْحِىَ اِلَىَّ مُحَرَّمًا عَلٰى طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٝٓ اِلَّآ اَنْ يَّكُـوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْـمَ خِنزِيْرٍ فَاِنَّهٝ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْـرِ اللّـٰهِ بِهٖ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْـرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ (انعام: 145)
کہہ دو کہ میں اس وحی میں جو مجھے پہنچی ہے کسی چیز کو کھانے والے پر حرام نہیں پاتا جو اسے کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت کہ وہ ناپاک ہے یا وہ ناجائز ذبیحہ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے، پھر جو بھوک سے بے اختیار ہوجائے ایسی حالت میں کہ نہ بغاوت کرنے والا اور نہ حد سے گزرنے والا ہو تو تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔
حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کہی ہوئی بات کو کہتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبرِ پاکؐ کو حکم دیا ہے کہ وہ کہیں کہ ان تک جو وحی پہنچی ہے اس کی رو سے مردار، خون، سؤر یا غیر اللہ کے ذبیحے کے سوا کوئی شے کھانے والوں پر حرام نہیں۔ الخ۔ مگر کتنی دلچسپ بات ہے کہ احادیث کے کسی مجموعے میں اس مضمون کی ایک بھی حدیث نہیں ملتی!
گویا احادیث کی رو سے کوئی ثبوت نہیں کہ رسولِ مصطفیٰؐ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر عمل کیا ہو۔ نعوذ باللہ، معاذ اللہ۔ الٹا جو روایات حلت و حرمت پر ملتی ہیں وہ اللہ کے دیے ہوئے اس حکم کے یکسر خلاف ہیں۔ ثم معاذ اللہ!
اللہ عزوجل نے قرآنِ مجید میں بالتصریح فرمایا ہے کہ رحمت اللعالمینؐ اپنی خواہش یا مرضی سے کچھ نہیں کہتے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اللہ ایک بات کہنے کا حکم دے اور وہ ہمارے نبیؐ کبھی کسی سے نہ کہیں اور جس بات کا اشارہ تک قرآن میں نہ ملے اس پر تواتر سے احادیث مل جائیں؟