مواد پر جائیں۔
  • راحیلؔ
  • قرارداد
  • تشہیر
  • ضوابط
  • رابطہ
  • راحیلؔ
  • قرارداد
  • تشہیر
  • ضوابط
  • رابطہ
اردو گاہ
  • زبان

    فرہنگِ آصفیہ

    • لغت
    • تعارف
    • معروضات
    • لغت
    • تعارف
    • معروضات

    املا نامہ

    • املا
    • املا نامہ
    • مقدمہ
    • ابواب
    • املا
    • املا نامہ
    • مقدمہ
    • ابواب

    اردو محاورات

    • تعارف
    • فہرست
    • مقدمہ
    • اہمیت
    • ادب
    • مراجع
    • تعارف
    • فہرست
    • مقدمہ
    • اہمیت
    • ادب
    • مراجع

    اردو عروض

    • تعارف
    • فہرست
    • ابواب
    • مصطلحات
    • تعارف
    • فہرست
    • ابواب
    • مصطلحات
  • کلاسیک

    ادبِ عالیہ

    • تعارف
    • کتب
    • موضوعات
    • مصنفین
    • شمولیت
    • تعارف
    • کتب
    • موضوعات
    • مصنفین
    • شمولیت

    لہجہ

    • تعارف
    • فہرست
    • ادبا
    • اصناف
    • تعارف
    • فہرست
    • ادبا
    • اصناف
  • حکمت

    اقوالِ زریں

    • اقوال
    • فہرست
    • شخصیات
    • زمرے
    • زبان
    • اقوال
    • فہرست
    • شخصیات
    • زمرے
    • زبان

    ضرب الامثال

    • تعارف
    • فہرست
    • زبان
    • زمرہ
    • تعارف
    • فہرست
    • زبان
    • زمرہ
  • نظم و نثر

    اردو شاعری

    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے
    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے

    زار

    • تعارف
    • فہرست
    • پیش لفظ
    • پی ڈی ایف
    • تعارف
    • فہرست
    • پیش لفظ
    • پی ڈی ایف

    اردو نثر

    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے
    • تعارف
    • فہرست
    • اصناف
    • زمرے

    کیفیات

    • کیفیت نامے
    • کیفیت نامے
  • معاصرین

    معاصرین

    • معاصرین
    • فہرست
    • مصنفین
    • اصناف
    • موضوعات
    • لکھیے
    • برأت
    • معاصرین
    • فہرست
    • مصنفین
    • اصناف
    • موضوعات
    • لکھیے
    • برأت

تخلیقِ فن – ایک نامیاتی نظریہ

مضمون

16 مارچ 2017ء

فن کی نوعیت اور عوام پر اس کے اثرات کی بحث گو معاشرے کے لیے نہایت سودمند ہے مگر فنکار عام طور پر اس سے تقریباً بےنیاز ہی رہتا ہے۔ البتہ ایک کانٹا اور ہے جو کبھی کبھی اس کے دل میں کھٹکتا ہے۔ میری مراد اس سوال سے ہے کہ تخلیقِ فن بذاتِ خود کیا شے ہے؟ اس کی نوعیت کیا ہے؟ کیفیت کیا ہے؟ کیا ہم اس تجربے کو کسی طور پر سمجھ سکتے ہیں؟ اگر ہاں، تو کیا ہم اسے دوسروں کو بھی سمجھا سکتے ہیں؟ یعنی جب ایک موسیقار ایک دھن ترتیب دے رہا ہوتا ہے یا ایک شاعر غزل کہہ رہا ہوتا ہے تو وہ عمل کیا ہے اور کیسا ہے جس کے نتیجے میں یہ تخلیقات وجود میں آتی ہیں؟

دراصل تخلیقِ فن کا عمل ایک ایسا وجدانی اور سیلانی قسم کا تجربہ ہے کہ گزر چکنے کے بعد اس کا تجزیہ تو ایک طرف، بازیافت بھی کماحقہٗ ممکن نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نوعیت یا کیفیت کو سمجھنے کی کوششیں ہمارے ذہن میں ایک مبہم اور بعض اوقات غلط سا خاکہ تو قائم کر دیتی ہیں مگر اس تجربے کا جوہر ہاتھ نہیں آ پاتا۔ میرا خیال ہے کہ ہم روایتی طور پر اس مسئلے کو غلط زاویۂِ نگاہ سے دیکھتے آئے ہیں۔ شاید ہمیں تخلیقِ فن کو اس کے نتائج و عواقب سے ماورا ہو کر خود فنکار کے محسوسات کے آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

ممکن ہے عوام الناس کو وہ باتیں چونکا دیں جو میں کہنے جا رہا ہوں۔ مگر میرے مخاطب وہ نہیں ہیں۔ میرا خطاب دراصل فنکاروں سے ہے۔ یعنی ان لوگوں سے جو فنکارانہ تخلیق کے عمل سے گزر چکے ہیں یا گزرتے رہتے ہیں۔ باقی تمام لوگوں کے لیے یہ بحث فکر انگیز تو ہو سکتی ہے، معنیٰ خیز نہیں!

میرا تجربہ ہے کہ فنکار تخلیقِ فن سے قبل ایک عجیب قسم کے اضطراب سے گزرتا ہے جس میں بےانتہا کشش کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ یعنی جب ایک شاعر غزل کہتا ہے تو اس سے کچھ پہلے اس کی طبیعت میں ایک بےچینی پیدا ہو جاتی ہے جو رفتہ رفتہ بڑھتی جاتی ہے۔ یہ کیفیت اپنے اندر اسی قسم کا اضطرار رکھتی ہے جس طرح کا ایک مرد اپنی محبوبہ کی یاد آنے پر محسوس کرتا ہے۔ یعنی ابھی وہ یاد پوری طرح ذہن کے آئینے پر منعکس بھی نہیں ہوتی کہ عاشق کا دل ڈوبنے لگتا ہے۔ اور بالآخر وہ جذبے کی شدت بڑھنے کے ساتھ عقلی سطح پر بھی باور کر لیتا ہے کہ اسے دراصل محبوبہ کی یاد ستا رہی ہے۔

بالکل اسی طرح کی کیفیت شعر کہنے سے قبل شاعر پر گزرتی ہے اور اس کے دل و دماغ میں ایک ہیجان برپا ہوتا ہے۔ وہ بھی اس ہیجان سے ایک وابستگی اور کشش محسوس کرتا ہے جو اسے بےبس کر ڈالتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ وقت آ جاتا ہے کہ یہ اضطراب اپنے عروج کو جا پہنچتا ہے اور شاعر کے پاس قلم اٹھا لینے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔ گویا عاشق اپنی محبوبہ کے پاس جا پہنچا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں سے تخلیق کے عمل کا باقاعدہ طور پر آغاز ہوتا ہے۔ میں جہاں تک سمجھا ہوں یہ شاعر کا فطرت کے ساتھ وصال ہے۔ جس طرح عاشق اور معشوق دنیا و مافیہا سے بےخبر ہو کر ایک دوسرے میں گم ہو جاتے ہیں بعینہٖ اسی طرح شاعر ایک گونہ فریفتگی اور بےخودی کے عالم میں شعر کہنے شروع کرتا ہے۔

جنسی عمل اپنے اندر جس قسم کی والہانہ ازخود رفتگی اور نشہ رکھتا ہے بالکل وہی تخلیقی عمل کے دوران فنکار میں بھی مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں۔ پھر یہی نہیں، اس کی تکمیل کے بعد فنکار عاشق ہی کی طرح ایک ایسا خمار بھی محسوس کرتا ہے جس میں لطف اور تکان دونوں بدرجۂِ اتم موجود ہوتے ہیں۔ ایک سرور اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے جس میں وہ پوری طرح یقین نہیں کر پاتا کہ وہ واقعی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اسی طرح اس کے لیے فوری طور پر دوبارہ اس عمل کی جانب متوجہ ہونا بھی ممکن نہیں ہوتا۔

اگر کسی عاشق کو اس کی محبوبہ بلاتردد مل جائے اور اسے وصال کے لیے کوئی کشٹ نہ بھوگنے پڑیں تو وہ اس درجے کا لطف کبھی نہیں اٹھا سکتا جو صدہا مصائب اور رکاوٹوں کو عبور کرنے کے بعد ملنے پر نصیب ہوتا ہے۔ شاعر کا معاملہ بھی یہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس کی راہ ظالم سماج نہیں مارتا بلکہ قواعدِ فن اور عروضی پابندیاں اس کے پاؤں کی بیڑیاں بنتی ہیں۔ مگر جس قدر استقامت اور استقلال کے ساتھ وہ ان مزاحمتوں سے نمٹتا جاتا ہے اسی قدر اہتزاز تخلیق کے لمحوں میں اسے ارزانی ہوتا ہے۔

عملی نقطۂِ نگاہ سے دیکھا جائے تو شاید بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ عام آدمی کے مزاج میں فنکارانہ جوہر کا فقدان کم و بیش اسی قسم کے میکانکی طرزِ حیات کو جنم دیتا ہے جو ایک زاہدِ مرتاض کے ہاں تجرد کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ مگر فنکار اور عاشق کی زندگی ان مشینی رویوں کے برعکس ایک نامیاتی اور زندہ روش پر قائم رہتی ہے۔ یعنی ہر دو کے دل میں اکثر ایک تلاطم اور تموج ایسا برپا ہوتا رہتا ہے جو زندگی اور معاشرے کے جمود کا دشمن ہے۔

پھر یہ بھی طے ہے کہ جذبات کا مناسب نکاس انسان کی جسمانی سے لے کر روحانی صحت تک کا ضامن ہے۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اظہارِ فن یا تخلیقِ فن کا سب سے بڑا وظیفہ ذاتی اور حیاتیاتی ہے۔ یعنی ہر بار سامنے نظر آتی ہوئی موت کا رخ موڑ کر فنکار کو ایک نئی زندگی بخشنا۔ دوسرے لفظوں میں، اگر تخلیقِ فن کے تمام راستے مسدود کر دیے جائیں تو یہ امر فنکار کے حق میں پیغامِ اجل کا حکم رکھتا ہے۔

گویا فنکار عاشق ہے اور فطرت معشوق۔ اور تخلیقِ فن عاشق و معشوق کے باہمی اختلاط کا عمل ہے۔ یہاں مجھے وہ پرانے لوگ یاد آ رہے ہیں جو یہ یقین رکھتے تھے کہ شاعروں کو شاعری کی دیوی الہام کے ذریعے سے تعلیم کرتی ہے۔ مجھے تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی بات میں بہرحال صداقت کا ایک بڑا عنصر موجود ہے۔ بلکہ ممکن ہے کہ وہ تخلیقی عمل کو کم و بیش اسی زاویے سے دیکھتے ہوں جس سے ہم آج اسے دیکھ رہے ہیں اور ان کی بات امتدادِ زمانہ کے سبب ہم تک پوری یا صحیح نہ پہنچ پائی ہو۔

راحیلؔ فاروق

پنجاب (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے اردو نثر نگار۔

Prevپچھلی نگارشمشاعرے اور تحسینِ فن
اگلی نگارشیہ جو چشمِ پر آب ہیں دونوںNext

تبصرہ کیجیے

اظہارِ خیال

آپ کا کیا خیال ہے؟ جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل کا پتا شائع نہیں کیا جائے گا۔ تبصرہ ارسال کرنے کے لیے * کے نشان والے خانے پر کرنا ضروری ہے۔

اردو نثر

راحیلؔ فاروق کی نثری نگارشات۔ شعری، ادبی، فکری، معاشرتی اور مذہبی موضوعات پر انشائیے، مضامین اور شذرات۔

آپ کے لیے

دو مغالطے

31 مارچ 2017ء

آزادی کی مختصر ترین تاریخ

14 اگست 2022ء

اردو شاعری میں بھینس کا انڈا

6 جون 2020ء

حافظ

9 دسمبر 2017ء

توحید اور شرک

29 مارچ 2019ء

تازہ ترین

روٹی اور پڑھائی

10 اگست 2025ء

جا ری عقل

29 جون 2024ء

الوداع، اماں!

4 مئی 2024ء

غلام یاسین فوت ہو گیا

27 دسمبر 2023ء

شاعرانہ مزاج

18 دسمبر 2023ء
ہمارا ساتھ دیجیے

اردو گاہ کے مندرجات لفظاً یا معناً اکثر کتب، جرائد، مقالات اور مضامین وغیرہ میں بلاحوالہ نقل کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مراسلے کی اصلیت و اولیت کی بابت تردد کا شکار ہیں تو براہِ کرم اس کی تاریخِ اشاعت ملاحظہ فرمائیے۔ توثیق کے لیے web.archive.org سے بھی رجوع لایا جا سکتا ہے۔

© 2022 - جملہ حقوق محفوظ ہیں۔