بہت سے ادیبوں کو ٹیکنالوجی اور بالخصوص سماجی واسطوں از قسم فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ سے یہ شکوہ رہتا ہے کہ ان کی تخلیقات چوری کر کے اپنے ناموں سے مشہور کر دی جاتی ہیں۔ خود میں نے اپنی ایک غزل کے مقطع میں مٹھو لکھا دیکھا ہے۔ تاہم اب الحمدللہ اس حوالے سے ایک حجتِ بالغہ ایسی ہاتھ آ گئی ہے کہ اگر اس کے بعد بھی کسی لکھنے والے کو صبر نہ آئے تو اسے خودکشی کر لینی چاہیے۔
کتابوں کے دیباچوں اور مقدموں سے میری جان جاتی ہے مگر کچھ دیر پہلے یونہی کچھ ورق گردانی کرتے ہوئے ایک عبارت نے اچانک توجہ کھینچ لی۔ یہ تھا کشف المحجوب کا دیباچہ اور داتا صاحب علیہ الرحمہ ایک ایسی داستان بیان کر رہے تھے جس پر آج ان کے ایک ہزار سال بعد بھی فیصلہ نہیں ہو سکتا کہ رونا چاہیے یا ہنسنا۔ لیجیے، دل تھام کر سنیے ذرا!
آنچه به ابتدای کتاب نام خود اثبات کردم، مراد اندر آن دو چیز بود: یکی نصیب خاص، دیگر نصیب عام. آنچه نصیب عام بود آن است که چون جهلۀ این علم کتابی نو بینند که نام مصنف آن به چند جای بر آن مثبت نباشد، نسبت آن کتاب به خود کنند، و مقصود مصنف از آن برنیاید؛ که مراد از جمع و تألیف و تصنیف بهجز آن نباشد که نام مصنف بدان کتاب زنده باشد و خوانندگان و متعلمان وی را دعای خیر گویند. و مرا این حادثه افتاد به دو بار: یکی آن که دیوان شعرم کسی بخواست و بازگرفت و حاصل کار جز آن نبود که جمله را بگردانید و نام من از سر آن بیفکند و رنج من ضایع کرد، تاب اللّه علیه؛ و دیگر کتابی کردم اندر تصوّف، نام آن منهاج الدین، یکی ازمدعیان رکیک که کرای گفتار او نکند نام من از سر آن پاک کرد و به نزدیک عوام چنان نمود که آن وی کرده است، هر چند خواص بر آن قول بر وی خندیدندی. تا خداوند تعالی بی برکتی آن بدو در رسانید و نامش از دیوان طلاب درگاه خود پاک گردانید.
"یہ جو میں نے کتاب کے شروع میں اپنا نام لکھا ہے اس میں دو باتیں ہیں؛ ایک خواص سے متعلق اور دوسری عوام سے۔ عوام سے متعلق بات یہ ہے کہ جیسے ہی علم سے پیدل لوگ کوئی ایسی نئی کتاب دیکھتے ہیں جس پر مصنف کے نام کے ٹھپے دو چار جگہ نہ لگا دیے گئے ہوں وہ اسے اپنی قرار دے دیتے ہیں اور لکھنے والے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ کیونکہ تصنیف و تالیف سے اس کے سوا کوئی مراد ہوتی نہیں کہ مصنف کا نام اس کتاب کے سبب زندہ رہے اور پڑھنے اور سیکھنے والے اس کے حق میں دعائے خیر کریں۔ میرے ساتھ یہ حادثہ دو بار ہو چکا ہے؛ ایک مرتبہ جب میرے اشعار کا دیوان کوئی لے گیا اور قابض ہو گیا۔ میرے پاس اس کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس نے اسے لوگوں میں پھیلا دیا اور میرا نام اس پر سے مٹا کر ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ اللہ بخشے اس کو۔ دوسری منہاج الدین کے نام سے تصوف پر ایک کتاب لکھی تھی۔ ایک پاجی دشمن نے جس کی اپنی باتیں ٹکے کی نہیں، میرے نام کا صفایا کر دیا اور عوام پر یہ ظاہر کرنے لگا کہ یہ اس نے لکھی ہے۔ خواص اس کی اس بات پر ہنستے تھے۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے اس حرکت کی بےبرکتی اس پر ڈالی اور اس کا نام اپنی درگاہ کے چاہنے والوں کی فہرست میں سے ہی نکال پھینکا۔”
پس ثابت ہوا کہ عصرِ حاضر کے ادب چور نہ صرف یہ کہ دل کے برے نہیں بلکہ درحقیقت اپنے بزرگوں کی روایات کا ہم سے کہیں زیادہ احترام کرنے والے ہیں۔