کسی کے کان میں کہنی تھی عام کہہ دی ہے
جو دل کی بات تھی ہم نے تمام کہہ دی ہے
خدا کا نام جو لے کر کہی نہیں جاتی
وہ بات لے کے محبت کا نام کہہ دی ہے
سنا ہے حشر تو برپا دراصل اب ہو گا
جو گزری ہم نے بصد احترام کہہ دی ہے
شراب خانے میں چھٹی ہے آج ساقی کی
کسی نے حالتِ دل رکھ کے جام کہہ دی ہے
حرام تھی کہ نہ تھی اب تو ہو گئی یارو
جنابِ شیخ نے چکھ کر حرام کہہ دی ہے
بہت دنوں سے کسک سی ہمارے دل میں تھی
کہی نہیں تھی غزل آج شام کہہ دی ہے
پہنچ تو جائے گی ان تک بھی ایک دن راحیلؔ
جو اپنے آپ سے کر کے کلام کہہ دی ہے