تامل تذبذب تردد تکلف
وفا ناشناسوں کی مکاریاں اف
اسے جاننے والے پہچانتے ہیں
ستم گر کا ہے نام اس کا تعارف
مجھے عشق نے ہر دو عالم دکھائے
نہ میں فلسفہ داں نہ اہلِ تصوف
محبت تھی دنیا سے دنیا نے مارا
محبت پر افسوس محبوب پر تُف
مِرا حاصلِ عمر مَیں ہوں الٰہی
سراپا ندامت سراپا تاسُف
ادھر تم چلے اور ادھر جان نکلی
کہاں کا تحمل کہاں کا توقف
غزل یہ ہے راحیلؔ شانِ تغزل
اسے کہتے ہیں قافیے کا تصرف