﷽
ابتدائیہ
حامداً و مصلیاً!
اردو انشا پردازی کے واسطے تو اعلیٰ درجہ کی لیاقت درکار ہے لیکن ہر شخص کو اپنے حتی المقدور کچھ نہ کچھ کام کرنا ضرور ہے تاکہ دوسروں کو جوش پیدا ہو۔ لہذا بلا خیال اس امر کے کہ میں کوئی مشہور ناولسٹ نہیں ہوں یہ مختصر سا قصہ اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں لکھ کر ناظرین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
میں اس کتاب کو اپنے عالی خیال و معزز دوست جناب شیخ محمد علی صاحب کے نام پر ڈیڈی کیٹ کرتا ہوں۔ خدا کرے میرے دوست کو اس سے دلچسپی ہو تو میں سمجھوں کہ میری چند دن کی محنت ٹھکانے لگی اور یہ ناچیز تصنیف بطور یادگار موصوف کے نام کے ساتھ منسوب رہے گی۔
قنوج 20؍ اگست 1896ء عرض گستر
محمد مصطفی خاں عفی عنہ
پہلا باب
عاشقی چیست؟ بگو بندۂ جانان بودن
دل بدست دگری دادن و حیران بودن
صبح کا سہانا وقت ہے، آفتاب عالم تاب کی آمد آمد کی دھوم مچی ہے، افق مشرق سے ایک شہابی سرخ چادر تہ ہوتی جاتی ہے اور کسی جان سوز چہرہ کی چمک آہستہ آہستہ تیز ہوتی جاتی ہے۔ ہوا کی تیزی معمول سے بہت کم ہو چکی ہے اور درختوں کی جھومتی ہوئی شاخیں شراب محبت کے خمار سے دل شکستہ ہو کر سست ہو گئی ہیں۔ رات کی کھلی ہوئی کلیاں آنے والی مصیبت کے ڈر سے ٹوٹ ٹوٹ کر زمین پر گر رہی ہیں اور سبزہ زاروں کی لمبی لمبی گھانس شبنم کے آنسوؤں کی کلفت پر رو رہی ہے۔ معشوقان طناز رات کی جنگ زر گریاں یاد کر کے دل ہی دل میں کچھ لجاتی جاتی ہیں۔ عشاق کی گستاخیوں سے پیشواز میں جا بجا شکنیں پڑ گئی ہیں۔ گلابی گلابی رخسارے کسی بے صبر ہاتھوں کی بدولت نیلگوں ہو گئے ہیں۔ ہونٹوں کی تر و تازگی بالکل جاتی رہی ہے۔ لوگ قادر مطلق کی صناعیوں کا تماشا دیکھنے کے لیے سیر گاہوں کو روانہ ہو رہے ہیں اور جو سب سے زیادہ شوقین ہیں وہ گشت لگا کر واپس بھی آگئے۔ ہمارے نامی گرامی شہر لکھنؤ کی سڑکیں ہر طرف آباد نظر آ رہی ہیں۔ اسی میں ہماری نگاہ بھی ادھر ادھر پڑتی چلی جا رہی تھی کہ ایک بارگی ایک سیر کرنے والے کو لب دریا دیکھ کر رکی۔
یہ دیکھیے موتی محل کے پل پر بادشاہ باغ کے سامنے درختوں کے کنج میں کوئی سپید پوش تنہا کھڑا ہے۔ نہیں وہ تو آہستہ آہستہ ٹہل رہا ہے۔ پیچھے سے تو یہ کوئی نو عمر معلوم ہوتا ہے، لباس بھی شریفانہ اور زمانہ کے موافق ہے۔ بظاہر کسی تعلیم یافتہ اور مہذب گھرانے کا لڑکا ہے۔ بد وضعی و بد روشی کا گذر نہیں معلوم ہوتا۔ اس کی سادی اور سپید پوشاک بتلا رہی ہے کہ اس کو صفائی کا بڑا شوق ہے مگر ظاہری تکلفات پسند نہیں ہیں۔ اے لو وہ پھرا۔ ارے اب تو صاف چہرہ نظر آتا ہے۔ گورا گورا چہرہ، بڑی بڑی آنکھیں، ملائم اور سرخ ہونٹ اس کی نازک اندامی کی گواہی دیتے ہیں۔ اس کے سر کے چھوٹے چھوٹے بال بتاتے ہیں کہ ان کو مانگ نکالنے اور زلفیں بڑھانے کا شوق نہیں ہے مگر بال عجیب عمدگی سے کترے گئے ہیں کہ ان پر ایک نیا سماں معلوم ہوتا ہے۔ سپید نین سکھ کا چھوٹی مہری کا پائجامہ اور نین سکھ ہی کی اچکن زیب تن کیے ہے اور چکن کی سپید ٹوپی سیدھی سر پر رکھی ہے۔ گو اس کے چہرہ سے متانت ٹپکتی ہے لیکن ساتھ ہی اس کا بار بار ابروؤں کا بل دینا اور پیشانی پر شکن آنا، جلدی جلدی ہونٹوں کو دانتوں سے دبانا اور چپکے سے کچھ ہوں ہاں کرنا اور ایسے گنجلک مقام میں چونک چونک کر ادھر ادھر دیکھنا صاف بتلاتا ہے کہ وہ کسی ادھڑ بن میں ہے۔
یک بارگی ہمارا نوجوان اسی جگہ زمین پر بیٹھ گیا اور سر پکڑ کر کچھ سوچنے لگا۔ سوچتے سوچتے خدا جانے اس کے دل میں کیا خیال آیا کہ آنکھوں سے سیل اشک جاری ہو گئے۔ اور وہ کہنے لگا: ‘‘آخر یہ مجھے ہوا کیا۔ افسوس! بھلا وہ مجھے کہاں مل سکتی ہے؟ ہاے یہ بھی تو نہیں معلوم کہ تھی کون۔ خدا جانے کون سی ساعت میں نے اس طرف کو نگاہ اٹھائی تھی۔ آہ! مار ڈالا ارے ظالم! رحم رحم۔ اف۔ غضب ہاے اب میں نہ جیوں گا۔ ارے میرے اللہ میں کیا کروں۔ خدایا میں کدھر نکل جاوں۔ ہاے میں تو ان جھگڑوں سے واقف ہی نہ تھا۔ الہی میرے دل میں یہ درد کیوں ہوتا ہے۔ اے مالک میں کس سے۔۔۔”
(آواز آئی) رشید!! رشید!! میاں رشید!!! (بڑے زور سے) ارے بھائی رشید! از براے خدا، ادھر دیکھو تو!
یہ آواز سن کر متردد نوجوان نے سر اٹھایا۔ دیکھا تو سامنے سڑک پر اس کا ہم سن دوست حامد کھڑا پکار رہا ہے۔ یہ دیکھ کر کراہتا ہوا اپنی جگہ سے اٹھا اور چپکے سے آنسوؤں کو رومال سے پوچھ کر سڑک پر جا پہنچا۔ دونوں دوستوں نے ہاتھ ملایا۔ حامد نے اپنے کوچ بان کو آواز دی۔ گاڑی بڑھا لاؤ۔ چند منٹ میں گاڑی جو دور کھڑی تھی پاس آپہنچی اور حامد نے رشید کا ہاتھ پکڑ کر سوار کرایا اور خود بھی بیٹھ کر کوچ بان سے چلنے کا حکم دیا اور رشید سے گفتگو شروع کی۔
حامد: کیوں بھئی مزاج کیسا ہے؟
رشید (ٹھنڈی سانس لے کر): جیتے ہیں۔
حامد: خیر تو ہے؟ جیتے ہیں کیا معنی؟
رشید: اور کیا بتاؤں بھائی؟ جیتے تو ہیں ہی۔ ہم کو موت تھوڑا ہی پوچھنے والی ہے۔ جیتے کیا ہیں کم بخت زندگی کے دن کسی نہ کسی طرح پوری کرتے ہیں کاش۔۔۔۔۔۔
حامد: تمھیں واللہ ہے اب کچھ نہ کہنا۔ از براے خدا، یہ تو بتاؤ کہ کیسی طبیعت ہے۔ خدا نخواستہ کچھ بیماری، علالت فکر، تردد کیا بات ہے۔ کیوں ایسے الفاظ اپنی نسبت استعمال کرتے ہو؟
رشید: یہ تذکرہ جانے دو۔ للہ مجھ سے کچھ نہ پوچھو۔ اف!
حامد: کہیں جانے نہ دیا ہو۔ کچھ دال میں کالا ضرور ہے (چہرہ کی طرف دیکھ کر) اور یہ آنسو کیسے ہیں جلد بتاؤ کہ یہ کیا بات ہے۔ کسی طرح ممکن نہیں کہ بغیر بتائے تمھارا پیچھا چھوٹے۔ دیر نہ کرو۔ میں سخت منتشر ہوں۔ جلد بتاؤ۔ ہو سکے گا تو میں تمھارے کام میں مدد کروں گا۔
رشید (رو کر): بھائی کہنے کی بات نہیں ہے۔
حامد: نہیں نہیں، خدا کی قسم تم کو کہنا ہوگا اور ضرور کہنا ہوگا۔
رشید: جلے ہوئے دل کو جلانے سے کیا فائدہ۔
حامد: بس بتا چلو۔ زیادہ تقریریں فضول ہیں۔ میں تمھارا ۔۔۔۔۔
کوچ بان نے گاڑی روکی۔ پٹ کھول کر کہا: ‘‘حضور گھر آگیا”۔
حامد رشید کا ہاتھ پکڑے ہوئے اترا اور سیدھا اپنے سونے کے کمرہ میں چلا گیا۔ کیونکہ سواے اس سونے کے کمرہ کے اور کوئی مکان خالی نہ تھا۔ وہاں تنہائی پا کر رشید سے پھر بمنت و سماجت اس نے سوال کیا۔ رشید نے بہتیرا چاہا کہ اپنا حال نہ بیان کرے لیکن حامد کے اصرار نے بالآخر اسے مجبور کیا کہ وہ اپنا راز دل اس سے کہنے کو بیٹھ گیا۔
رشید: میرے پیارے دوست! تم جانتے ہو کہ میں بے جا گھومنے اور مٹر گشتیوں سے کتنا گھبراتا ہوں۔ اتنی عمر آئی مجھے کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ جو میں اپنے دوست احباب کسی کے ساتھ چوک تک بھی سیر کی غرض سے جاتا۔ تو اور سیر سپاٹے کا کیا ذکر۔ لیکن قسمت میں داغ دل اور تمام عمر کی کلفت مقدر تھی کہ کل اتفاقیہ دل میں کچھ خیال آیا، قیصر باغ سے موتی محل کی طرف جانے کو تیار ہو گیا۔ ہر چند کہ بعض ضرورتوں سے حضرت گنج جانا ضرور تھا لیکن تقدیر مجھے اس طرف گھسیٹ لائی۔ پل کے برابر ایک گاڑی کسی رئیس کے یہاں کی کھڑی تھی، میری نگاہ جو پڑی تو میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان دوشیزہ لڑکی کھڑکھڑیاں کھول کر سڑک پر کچھ دیکھ رہی ہے۔ اس نے مجھ کو دیکھتے ہی فوراً کھڑکھڑیاں بند کر لیں۔ مگر آہ! عجیب قتالۂ عالم تھی کہ میرے اوپر قہر کر گئی۔ میں ایک نگاہ اس کو دیکھ کر ایسا مدہوش ہو گیا کہ چپ، سکتے کے عالم میں کھڑا رہ گیا۔ ہاے! مجھ سے اتنا بھی تو نہ ہو سکا کہ میں اس کا کچھ پتا ہی دریافت کر لیتا۔ میں تو اسی بد حواسی میں تھا کہ ایک بارگی کوچ بان گاڑی ہانک کر خدا جانے کہاں سے کہاں لے گیا۔ گاڑی چلے جانے پر میرے حواس بجا ہوئے بلکہ بجا کیا ہوئے، ہوشیاری نے اور تازہ آفت ڈھائی۔
نہ معلوم اس وقت سے دل کو کیا ہو گیا ہے کہ کسی طرح قرار ہی نہیں آتا۔ ہاے! اس کی وہ پیاری پیاری صورت، وہ سرخ گلابی چہرہ، وہ سیاہ آنکھیں، وہ نازک اور گورے ہاتھ۔ آہ! میں۔۔۔۔۔۔
حامد (بات کاٹ کر): رشید! تم کو کیا ہو گیا ہے۔ ہوش میں آؤ۔ ایں! اک بارگی قلب ماہیت ہو گئی۔ تمھاری ثقاہت و تہذیب کیا ہوئی۔ ذرا سنبھل کر بات کرو۔ دیکھو! تم کہاں ہو؟ تمھاری باتیں کوئی سنتا نہ ہو۔
رشید: کوئی سنتا ہو یا نہ ہو۔ میں کیا کروں۔ میرا دل کسی طرح قابو میں نہیں ہے۔ میں آپ متعجب ہوں کہ آخر مجھے کیا ہو گیا۔ میں اس وقت سے سودائی ہو رہا ہوں۔ ہر وقت یہی جی چاہتا ہے کہ ایک بار اس کو پھر دیکھ لیتا۔ آج پھر اسی خبط میں یہاں دوڑ آیا تھا۔ بڑی رات سے کھڑا تھا۔ جب انتظار کی گھڑیاں پہاڑ سی ختم ہی نہ ہونے آئیں تو گھبرا کر اس گنجلک میں آ کھڑا ہوا۔ حامد بھائی! اب میری زندگی کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ افسوس! للہ بتاؤ کیا کروں؟
باتیں ہوتی ہی تھیں کہ خدمت گار نے کھانا لا کر پیش کیا اور حامد کی زبردستی سے رشید بھی ہاتھ دھو کر شریک ہوا۔
دوسرا باب
ایک نظر
خداوندا خیر! ایں۔ آج یہاں اس قدر ہجوم کیوں ہے۔ واہ واہ۔ جدھر دیکھو نیا رنگ ہے۔ چہل پہل، ہنسی خوشی کے سامان ہیں۔ یہ باجے اور روشنی کا انتظام کیسا ہے۔ فرش فروش، صفائی کا کیوں اہتمام ہے۔ اندر دیکھو! ارے یہاں تو اور بھی غضب تیاریاں ہیں۔ مسند آراستہ ہے۔ مکان سجایا گیا ہے۔ ایک قطعہ میں کچھ کھانا پکانے کا بندوبست ہے۔ یہاں تو کچھ تقریب سی معلوم ہوتی ہے۔ آواز آئی، خواجہ صاحب کہاں تشریف رکھتے ہیں؟ ایک ادھیڑ آدمی (پکارنے والے سے) کیوں جنید خیر ہے۔ میں یہاں ہوں۔
جنید: جی ہاں بفضلہ سب خیریت ہے۔ میں سید مبارک صاحب کی خدمت میں گیا تھا۔ انھوں نے آپ سے دریافت کیا ہے کہ ٹھیک کَے بجے محفل نکاح آپ کے یہاں منعقد ہوگی، آپ کی بھانجی اور بہن ابھی سے تیار ہیں۔ لیکن سید صاحب نے ان کو اس وقت تک کے واسطے روک لیا ہے کہ جب تک یہاں سے ٹھیک وقت دریافت نہ ہو جائے۔ کیونکہ لڑکی کو بہت عرصہ کے لیے دوسرے مکان پر جانے کی سید صاحب کی اجازت نہیں ہے۔
خواجہ صاحب: میاں! ذرا تم تکلیف کرو اور الٹے پیروں واپس جاؤ۔ نرہی یہاں سے کچھ دور نہیں ہے۔ اسی سیدھی سڑک پر چلے جاؤ۔ مبارک بھائی سے کہنا کہ فوراً بعد مغرب عقد ہو جائے گا۔ جہاں تک ممکن ہو بہن کو بھیج دیں، بغیر ان کے یہاں کچھ انتظام نہ بن پڑے گا۔
جنید تو خواجہ صاحب کا حکم سن کر چلتے پھرتے نظر آئے۔ لیکن ہم کو بتانا ہے کہ یہ کونسا مقام ہے۔ دیکھیے یہ سامنے دوراہے کی سڑک ہے اور یہ لکھنؤ کا مشہور محلہ گولہ گنج ہے۔ یہ مکان خواجہ جمال صاحب ایک نامی گرامی رئیس کا ہے۔ آج ان کے لڑکے کا عقد ہے۔ چونکہ خواجہ صاحب کے خیالات اخلاقی بہت عمدہ ہیں لہذا سواے معمولی زیبائش کے کچھ بے انتہا اور فضول خرچی کا سامان نہیں کیا گیا ہے۔ خواجہ صاحب تو چاہتے تھے کہ دروازہ پر نقارہ بھی نہ رکھا جاوے لیکن خیالاتِ جہالت کی وجہ سے عورتوں نے ضد کی اور بدیں وجہ کہ اور کوئی سامان نہیں کیا گیا چار نا چار اتنا کہنا عورتوں کا خواجہ صاحب کو ماننا پڑا۔ سمدھیانہ کے لوگ چونکہ بہت ہی کم مایہ تھے، اس باعث سے سب اخراجات اپنے ذمہ لے کر اپنے مکان ہی پر انھوں نے محفل منعقد کی تھی۔
ابھی عصر کا وقت ہے، آفتاب کی کرنیں کچھ دھیمی سی ہو چلی ہیں۔ دھوپ کے اوپر سایہ ریل پیل کیے بڑھا چلا آرہا ہے۔ اونچے اونچے محلوں کی دیواریں سنہری دھوپ کی شعاعوں سے ہم بغل ہو کر رخصت ہو رہی ہیں۔ سڑکوں پر چھڑکاؤ شروع ہو گیا ہے۔ تمام دن کے سوکھے ہوئے سبزہ زار آہستہ آہستہ لہلہانے لگے ہیں۔ ہوا کی تیزی کم ہو چکی ہے اور وہ دلاویز سماں جو دونوں وقت کے ملنے سے پیدا ہوتا ہے، بہت ہی قریب ہے۔ ہمارے شفیق خواجہ جمال کے مکان پر مہمانوں کی دھوم مچی ہے، آدمی بکثرت چلے آرہے ہیں۔ گاڑیوں اور بگھیوں کی بھر مار مچی ہے، چند لوگ ان نئے مہمانوں کے بٹھانے اور تواضع و تکریم میں مصروف ہیں۔ کچھ گاڑیوں میں زنانی سواریاں بھی آئیں اور وہ دوسرے دروازے سے مکان کے اندر چلی گئیں۔ مغرب سے بہت ہی قریب ایک ٹم ٹم پر ہمارا نوجوان رشید اور اس کا دوست حامد بھی شریکِ مجلس ہونے کو پہنچے۔ اندر پہنچ کر یہ دونوں بھی ایک جگہ پر بیٹھے مگر رشید ہے کہ سخت پیچ و تاب میں ہے۔ بار بار اٹھتا ہے اور پھر بیٹھ جاتا ہے۔ اِدھر ادھر دیکھتا ہے، منہ پر ہوائیاں چھوٹ رہی ہیں، ہر بار یہی چاہتا ہے کہ اٹھ کر بھاگوں، لیکن جب وہ ایک مرتبہ اٹھنے لگا تو حامد نے اس کا دامن زور سے پکڑ کر کہا: ‘‘تُم عجیب سڑی آدمی ہو۔ صبح کو مجھے کھانا کھانے میں پریشان کیا۔ سارا دِن سمجھاتے گذر گیا اور تمھارے کان پر جوں نہیں رینگی۔ بھلا تم یہ تو سوچو کہ جس شخص کا تمھیں نام و نشان، پتہ حال کُچھ معلوم نہیں ہے، راہ چلتوں کسی کو دیکھ لیا ہے اور وہ بھی صرف ذرا کی ذرا پھر اس کے واسطے سڑی سودائی بننے سے کیا فائدہ۔ ایسی پاگل پنے کی باتوں سے وہ ملی تو جاتی نہیں، یہاں آئے ہو تو تھوڑی دیر صبر کرو۔ نکاح ہو جاوے، اُس کے بعد گھر چلیں۔
رشید: گھر میں کیا رکھا ہے، گھر چل کر کیا ملے گا، میرا وہاں کیا کام ہے؟
حامد: یا وحشت! کیوں مکان سے کیا دشمنی ہے، گھر میں تمھارے باپ تو ہیں۔ ابھی ظہر کے وقت اُن کا آدمی دوڑا آیا تھا کہ آج رشید کا پتہ نہیں ہے اور آج اُن کی والدہ فیض آباد سے آئی ہیں۔ جس وقت سے آئی ہیں رو رہی ہیں کہ رشید کو بلواؤ مگر اُن کا کہیں پتہ نہیں۔ میں نے کہلا بھیجا ہے کہ میرے یہاں ہیں، اس وقت تو میں خواجہ جمال صاحب کے یہاں جاتا ہوں رات کو ساتھ لے کر آؤں گا۔
رشید: حامد تُم تو اور ظلم کرتے ہو۔ والدہ آئی ہیں تو مجھ سے اُن کو کیا کام ہے۔ خُدا کے واسطے تُم مُجھ کو آزاد کر دو میرا جہاں جی چاہے گا وہاں جاؤں گا۔
حامد: کیا تمھاری خوشی خاطر ہے جو جہاں جی چاہے جاؤ گے۔ ہرگز نہیں تُم کو مکان چلنا ہوگا۔ وہ تُم کو دیکھیں گی یہی اُن کا کام ہے۔
رشید: لیکن میں تو سواے اسی زاہد فریب کے اور کسی کام کا نہیں ہوں۔ مُجھ کو اُن کے پاس لے جانا بالکل بے کار ہے۔ اگر تم ضد کرو گے تو میں بھاگ جاؤں گا۔ میں تو کبھی نہ بیٹھوں گا۔
حامد: کہیں ایسا بھی نہیں کرنا۔ خواجہ صاحب ہمارے تمھارے دونوں کے اُستاد ہیں، تُم کو یاد نہیں ہے۔ حمد اللہ و میر زاہد ہم دونوں نے اُنھیں سے پڑھا ہے۔ تمھارے والد سے کیسی محبت خواجہ صاحب کو ہے شاید کوئی کام سپرد کر دیں۔ میرے پیغام کے جواب میں تمھارے والد نے یہ بھی کہلا بھیجا تھا کہ رشید جاتا ہے تو اب میرے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر تُم بھی چلے جاؤ گے تو خواجہ صاحب کو ہمیشہ کی شکایت رہے گی۔
حامد رشید سے آہستہ آہستہ باتیں کر ہی رہا تھا کہ اذان ہوئی، سب لوگ نماز کو گئے۔ بعد نماز پلٹ کر مکان پر پہنچے تو خواجہ جمال نے حامد کو دیکھ کر پُکارا: حامد! حامد!!
حامد: جی حضرت! حاضر ہوں۔ اِرشاد؟
خواجہ جمال: کیوں میاں تُم کو معلوم ہے کہ مولوی عبد المعز صاحب کیوں تشریف نہیں لائے۔ تُم سے اور اُن کے بیٹے رشید سے تو بڑی محبت ہے۔ دیکھو نہ تو مولوی صاحب ہی آئے اور نہ رشید کو بھیجا۔ واللہ اعلم کیا بھید ہے؟ کیا رقعہ نہیں پہنچا۔ مُجھ کو بڑا افسوس ہے۔ اپنے شاگردوں میں مجھے تُم سے اور رشید سے بڑی محبت ہے مگر خدا جانے وہ کیوں نہیں آئے۔
حامد (رشید کے کان میں): دیکھو خواجہ صاحب کیا فرماتے ہیں۔
رشید (اپنے خیالات سے چونک کر اور خواجہ صاحب سے مخاطب ہو کر): حضرت! والد نے مجھ کو بھیجا ہے۔ میں بعد عصر سے حاضر ہوں۔ آج والدہ آئی ہیں اور چونکہ وہ کسی قدر علیل ہیں لہٰذا والد نے مجھے حُکم دیا کہ تو حضرت کے یہاں جا۔
خواجہ صاحب (اظہارِ مسرّت کے لہجے میں): شاباش۔ مُجھ کو خود بڑی اُمّید تھی کہ تُم ضرور آؤگے۔ ذرا تُم اور حامد یہاں آؤ۔
خواجہ صاحب کا حُکم سن کر حامد و رشید اُٹھے اور پاس آکر مُنتظر ہوئے کہ اُستاد کیا حُکم دیتے ہیں۔ خواجہ صاحب نے کہا: ‘‘بھئی! یہ تمھارا گھر ہے، تُم کو بیٹھنا نہیں چاہیے۔ جلال تمھارا چھوٹا بھائی ہے۔ اُس کی شادی کا انتظام خود تمھیں کرنا چاہیے”۔
رشید و حامد (یک زبان ہو کر): بسر و چشم! اِس میں آپ کے فرمانے کی کیا ضرورت ہے، یہ تو واقعی بات ہے۔
خواجہ جمال: تُم دونوں آدمی ہمیشہ لڑکپن سے گھر میں آیا جایا کیے ہو۔ اس وقت ہجوم بہت ہے۔ تم ڈیوڑھی کا انتظام کرو۔ اندر سے عروس کے کپڑے وغیرہ تُم اپنے اہتمام سے منگوا کر محفل میں لاؤ۔ اور جب فراغت ہو لے تب سب چیزوں کو میرے یا کسی اور معتمد کے سپرد کر کے مکان جانا۔ کام کا گھر ہے، شاید میں تُم سے بار بار نہ مِل سکوں۔ تو یہ ضرور نہیں ہے کہ تم خواہ مخواہ میرے انتظار میں رہو۔
اتنا سمجھا کر خواجہ جمال تو اور کام میں مصروف ہوئے اور عالی ہمّت اور مستعد طبع حامد اُستاد کے حکم کی تعمیل کو تیار ہوا اور اپنے اوپر جبر کر کے براے نام رشید بھی اُس کے ساتھ ہو لیا۔ خُدا خُدا کرکے وہ سبھ ساعت آئی کہ جلال کا عقد پڑھنے کے لیے قاضی صاحب تشریف لائے۔
محفل میں پان ہو چکے تھے اور حامد کسی ضرورت سے باورچی خانہ کو گیا ہوا تھا۔ رشید نے اندر آواز دی: ‘‘ماما! پان دے جاؤ”۔ نہ معلوم ماما کس کام میں مصروف تھی کہ دیر تک نہ آئی اور یہ وقت بھری محفل کا تھا رشید جو ماما کے آنے کا منتظر تھا، اس نے اندر کی آہٹ پر کان لگا دیا۔
ایک شرمگیں آواز معلوم ہوئی: ‘‘ماماجی! دیکھو پان لے جاؤ کوئی کھڑا پکار رہا ہے۔ تم سنتی نہیں ہو۔ ماموں جان مجھ پر ناراض ہوں گے”۔ ماما نے گھبرائی ہوئی آواز سے جواب دیا: ‘‘بیوی! میں تو اس جگہ سے ہل نہیں سکتی، کسی اور کے ہاتھ بھیج دیجیے۔ (رشید کی آواز سن کر) سنو بی بی! مولوی عبد المعز صاحب کے بیٹے رشید تمھارے ماموں جان کے شاگرد پکار رہے ہیں جلد بھیجیے”۔
چند منٹ گذر گئے اور کوئی نہ آیا تو رشید نے جھنجھلا کر زور سے پکارا: ‘‘کیوں حضرت صاحب کی عزت کے درپے ہوئی ہو۔ ساری محفل منہ باندھے بیٹھی ہے۔ میں شور کر رہا ہوں اور ماما تم نہیں سنتی ہو، کہیں جلد پان دے بھی جاؤ۔ بڑی بدنامی ہوا چاہتی ہے”۔
رشید کا اتنا کہنا تھا کہ اندر سے ایک چودہ پندرہ برس کی نو عمر لڑکی کس ناز و انداز سے عجلت میں دروازہ پر آکر کہنے لگی (ہاتھ بڑھا کر): ‘‘لیجیے حضرت پان لیجیے۔ کمبخت ماما کسی کی سنتی بھی ہے”۔ رشید پان لینے چلا تو کسی چیز کی ٹھوکر کھا کر گر پڑا۔ لڑکی ذات نرم دلی کی وجہ سے بے حجاب نکل آئی۔ ‘‘الٰہی خیر” کہہ کر رشید کے سرہانے پہنچ گئی۔ رشید شرمندگی مٹانے کو جلدی سے اٹھا تو اس عابد فریب حسن کی دیوی کو دیکھ کر بے خود ہو کر رہ گیا۔ اس کی ایک نگاہ نے اس پر مسمریزم سا عمل کر دیا کہ وہ سکتے کے عالم میں مثل پیکر تصویر کے بے حس و حرکت کھڑا رہ گیا۔ رشید خود بھی خوش رو، خوب صورت، خوش وضع آدمی تھا۔ اس کی خوبروئی ایسی نہ تھی جو اپنا رنگ نہ دکھاتی۔ اس کے علاوہ اس کے منہ سے ‘‘آہ! تو ہی ہے” نکلنا تھا کہ اس دوشیزہ پر بھی اثر ہو گیا۔ تخمیناََ پانچ منٹ تک یہ اس کو اور وہ اس کو دیکھتے رہے کہ ایک بارگی یہ قتالۂ عالم کچھ خیال کر کے منتشرانہ حالت میں جلدی جلدی قدم رکھتی ہوئی اندر کو چلی اور چلتے چلاتے ایک نگاہ ناز و ادا کی رشید پر ڈال کر کہا: ‘‘ذرا سنبھلو۔ دیکھو، خبردار، خدا حافظ”۔
رشید کی نگاہ سے اس پری پیکر کا جدا ہونا تھا کہ اس کو اک بارگی کچھ گرمی سی معلوم ہوئی۔ کپڑے نوچ ڈالے، سر پر سے ٹوپی اتار کر پھینک دی۔ زیادہ جوش وحشت ہوا تو ہاے الٰہی میں کیا کروں۔ اس نے تو غضب کیا۔ نہ کوئی آتا تھا نہ کچھ اور پھر اس قدر جلد بھاگ گئی، افسوس ؎
ما را بغمزہ کشت و قضا را بہانہ ساخت
خود سوے ما ندید و حیا را بہانہ سا سا سا
شعر بھی ختم نہ ہونے پایا تھا کہ بے ہوش ہو کر دھم سے گر پڑا۔
تیسرا باب
مجھے ساقیا وہ تو نے مے بے خودی پلائی
کہ نشے سے جس کے اب تک ہے سرور ابتدائی
آہ محبت بھی عجیب بلا ہے۔ کیسی کیسی جفائیں، مصیبتیں، مظالم اور کلفتیں اس کی بدولت جھیلنا پڑتی ہیں کہ جس کا کچھ ٹھکانہ نہیں۔ پیاری زہرہ! تو تو ہرگز اس قابل نہ تھی کہ ایسے مصائب میں گرفتار ہو۔ تیرا چمکتا ہوا چہرہ تو اس لائق کبھی نہ تھا کہ اس پر سونے کی زردی طاری ہو جاتی۔ افسوس! تجھ کو کیا ہو گیا؟ تیری شگفتگی و خندہ پیشانی کیا ہوئی، تیرا گلابی گلابی رخسارہ کیوں کمھلا گیا، تیری جادو بھری نگاہ کس سحر میں مبتلا ہو گئی۔ جن آنکھوں نے کبھی رنج کی صورت نہ دیکھی تھی، ان سے سیل اشک کیوں جاری ہے۔ تیری پوشاک کیوں اس درجہ خراب ہے، یہ واویلا کس لیے ہے؟
ارے یہ تو کچھ بک رہی ہے۔ سنو! کیا کہتی ہے: ‘‘آہ او میرے (ہونٹ چبا کر) ظالم تو آپ تھا اور الٹے مجھ کو ظالم بناتا تھا۔ تو نے میرے اوپر کیا افسوں پھونک دیا، للہ رحم کر۔ ہاے میں مر جاؤں گی۔ خدا کے واسطے ترس کھا۔ (کلاک گھڑی سے نو بجنے کی آواز سن کر) افسوس کم بخت گلابو بھی مر گئی، قیصر باغ ایسا کیا یہاں سے دور ہے جہاں اتنی دیر لگائی۔ مردار سے کہہ دیا تھا کہ دیر ہوتی دیکھنا تو یکہ کر لینا۔ نِگوڑی صبح کی گئی اب تک نہ پلٹی۔ خدا جانے کہاں بیٹھ رہی۔ الہی! میرے پیارے کی خیر ہو۔ آپ ہی آپ دل بیٹھا جاتا ہے۔ نہ معلوم تقدیر میں کیا لکھا ہے کیا ہونے والا ہے۔ اللہ جانے کونسی ساعت ان کو غشی آئی تھی، میں بھی کیسی کمبخت ہوں۔ کام کا گھر تھا کوئی تحقیقات تو کرنے نہ لگتا۔ آہ! کیوں نہ میں تھوڑی دیر اس کے پاس کھڑی رہی۔ ایک نگاہ بھی اچھی طرح دیکھ لیا ہوتا تو یہ الجھن نہ ہوتی۔ افسوس! افسوس!! کچھ تمنا نہ نکلی۔ ان کو میری کیا خبر ہوگی۔ وہ کیا جانتے ہوں گے کہ میں کس آفت میں پھنسی ہوں۔ کاش کوئی تدبیر میرے وہاں تک پہنچنے کی ہو جاتی، دور ہی سے ایک نظر دیکھ لیتی، کلیجہ کو ٹھنڈک تو ملتی۔ دل تو بہلتا۔ اری گلابو جلدی آ کہاں دیر کر رہی ہے۔ جلدی آ۔ جلدی۔ ارے مجھے جیتا نہ پائے گی”۔
اتنا کہہ کر زہرہ رونے لگی، روتے روتے ہچکی بندھ گئی اور اس کے ساتھ ہی کچھ غفلت سی طاری ہوگئی۔
زہرہ کو غافل ہوئے ابھی زیادہ سے زیادہ دس منٹ گذرے ہوں گے کہ ایک کم عمر لڑکی دوڑتی ہوئی اس کے کمرہ میں آئی اور جلدی سے دوپٹہ (جو زہرہ کے منہ پر پڑا تھا) کھینچ کر پکاری: بیوی، بیوی! اٹھیے تو سہی۔
زہرہ (گھبرا کر آنکھ کھولتے ہی): گلابو! میں تیرے صدقے خیر تو ہے؟
گلابو (کچھ رُک کر): جی ہاں حضور! خیر ہی سمجھنا چاہیے۔
زہرہ: تم کو میرے سر کی قسم سچ سچ بتاؤ۔
گلابو: نہیں میں سچ کہتی ہوں۔
زہرہ: کہتی کیا خاک ہو۔ تم تو معمّے بُجھاتی ہو۔ از براے خدا جلد بتاؤ کیا حال ہے۔ میرے پیارے رشید کا مزاج کیسا ہے۔ تم سے ملاقات ہوئی تھی۔ کچھ میرے پیغام کا جواب دیا۔ کیا کہا کچھ معلوم تو ہو۔
گلابو: بیوی! شیطان کے کان بہرے، اللہ نے بڑی خیر کی۔ نہیں تو دشمنوں کا بچنا محال تھا۔ (کچھ خیال کرکے) اوہ وہ بھیانک۔ ڈرونی۔ ارے کیسی ۔۔۔۔۔
زہرہ: کیا گلابو تم سڑن ہو گئی ہو؟ میرے سوال کا جواب دو۔ رشید پیارے کا کیا حال ہے؟
گلابو: بیوی! انھیں کا تو حال بتاتی ہوں۔ وہ بہت سخت بیمار، بے انتہا مریض، از خود رفتہ ہو رہے ہیں۔ اللہ ان کو اچھا کرے۔
زہرہ: ذرا پورا حال بیان کرو۔ کیا تم میری زندگی کی دشمن ہو جو جلدی خیریت نہیں بتلاتی ہو۔
گلابو: بیوی! میں سورج نکلتے نکلتے قیصر باغ پہنچ گئی تھی۔ میں راجا صاحب کا مکان کیا جانتی، اسی فکر میں تھی کہ کسی سے پوچھوں۔ پھاٹک کے اندر داخل ہونا تھا کہ سامنے کی کوٹھی پر ہجوم آدمیوں کا نظر آیا۔ میں بھی ادھر بڑھی کہ وہیں چل کر دریافت کروں۔
آگے دو آدمی ملے۔ ایک نے کہا: ‘‘یار! لڑکا بے طرح بیمار ہے۔ خدا جانے کیا ہو گیا۔ ساری رات ڈاکٹروں حکیموں کو تدبیریں کرتے گذر گئی۔ سیکڑوں دوائیں، بہیترے تنقیے کیے گئے لیکن دانت پر دانت جو بیٹھ گیا ہے تو ابتک ہوش نہیں آیا۔ مولوی صاحب کے اکیلا ایک یہی لڑکا ہے وہ بھی کیسا کچھ پڑھا، لکھا، لائق، فائق، ہوشیار، عقل مند۔ یہاں تک کہ ابھی چند دن ہوئے راجا صاحب نے مولوی صاحب سے کہا تھا کہ نہ ہو تو آپ گھر پر رہیں۔ رشید کو میرے ساتھ کر دیں۔ آپ کو اپنے پچاس ماہوار مکان پر مل جایا کریں گے اور رشید کو پچاس میں علاحدہ دیا کروں گا۔ خدا بیچارے مولوی صاحب پر رحم کھائے”۔
یہ باتیں سنکر میں سمجھ گئی کہ ہو نہ ہو یہ انھیں مولوی صاحب کے یہاں کا تذکرہ ہے اور جلدی سے بڑھی۔ مکان پر پہنچ کر تو میرے آئے گئے ہوش و حواس غائب ہو گئے۔ سامنے مولوی صاحب پچھاڑیں کھا رہے تھے۔ باہری سرہانے دالان میں مریض کی چار پائی تھی۔ لوگ چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر حکیم بیٹھے دوائیں بنوا رہے تھے۔ مولوی صاحب تو اپنے عالم میں نہ تھے۔ راجا صاحب کھڑے تھے، ان کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری تھے۔ رشید کی ماں اندر کی ڈیوڑھی میں سر پٹک رہی تھی۔ احتیاطاً اندرونی دروازے بند کر دیے گئے تھے کہ باہر نہ نکل آویں۔ مولوی صاحب میاں بی بی کے بیانات سن کر کلیجہ پھٹا جاتا تھا۔ میں نے بڑی ہمت کر کے پلنگ کے پاس جاکر دیکھا تو چہرہ کا عجب نقشہ دکھائی پڑا۔ رنگ بالکل زرد، آنکھیں بند، سانس اکھڑی ہوئی، دانت بیٹھے، ہونٹ خشک، ہاتھ پیروں میں طنطناہٹ، گھر گھر سانس آتی تھی۔ یہ دیکھ کر میری طبیعت بے کل ہو گئی۔ گھبرا کر بھیڑ سے علاحدہ نکل آئی، بیٹھ کر رونے لگی تو ایک آدمی نے پیچھے سے بھرّائی ہوئی آواز میں پوچھا: ‘‘نیک بخت! تم کون ہو جو یہاں بیٹھی رو رہی ہو”۔
میں (پیچھے مڑ کر): میاں آپ ہیں، حامد میاں آپ یہاں کہاں؟
حامد: یہ تو عجیب سوال ہے۔ میں کہیں کالے کوسوں تو رہتا نہیں، چار قدم پر تو نیا گاؤں ہے۔ علاوہ اس کے میں تو رات سے یہیں ہوں۔ جس وقت سے رشید بیمار ہوئے ہیں یہیں ہوں لیکن تم کیا گلابو ہو؟ ہو کیا ضرور ہو! ہاں گلابو! تم کہاں چلیں۔ کیوں روتی ہو؟
میں: میاں علاحدہ چلو کچھ میں آپ سے کہوں گی۔
حامد میری بات سننے کے لیے علاحدہ اٹھ کر چلے اور میں بھی ان کے ساتھ گئی۔ علاحدہ جا کر میں نے سوال کیا: ‘‘کیوں میاں یہ کب سے بیمار ہیں اور کیا حال ہے؟”
حامد: کیا بتاؤں گلابو! تم سے چھپانے کی کیا بات ہے۔ یہ تو بیچارہ بڑا سیدھا آدمی ہے مگر خدا جانے کیا بات ہوئی آج تیسرا دن ہے موتی محل کی طرف سیر کو گئے تھے۔ وہاں کسی بگھی پر کوئی لڑکی ان کو دکھائی دی جس کو دیکھ کر یہ از خود رفتہ ہوگئے۔ کل صبح کو بادشاہ باغ کے وہاں جھاڑیوں میں تنہا بیٹھے تھے۔ اتفاقاً میں ادھر جا نکلا، بمشکل تمام اپنے ساتھ مکان لے گیا۔ وہاں سے شام کو خواجہ صاحب کے یہاں تقریب شادی میں شریک ہونے گئے۔ بعض کام میرے اور ان کی سپردگی میں تھے۔ مغرب پڑھ کر جب مجلس منعقد ہوئی، میں کام سے باورچی خانہ گیا۔ ابھی وہیں تھا کہ میرے خدمت گار نے مجھ سے جا کر کہا کہ میاں رشید ڈیوڑھی میں بے ہوش پڑے ہیں۔ میں گھبرا کر جلدی سے ڈیوڑھی میں آیا۔ خواجہ صاحب وغیرہ سبھی موجود تھے۔ یہ بے ہوش پڑے تھے۔ خواجہ صاحب سے اجازت لے کر میں ان کو مکان پر لے آیا اس وقت سے یہ گھڑی آئی۔ نہ معلوم کتنی تدبیریں ہو چکی ہیں، اب تک آنکھ نہیں کھولی۔ ایک بار اسی بے ہوشی میں یہ البتہ پکار کر کہا تھا: ‘‘حامد! دیکھو یہی ظالم ہے”، جس سے مجھے خیال ہوتا ہے کہ شاید پھر کسی کو انھوں نے دیکھا۔ خدا جانے کیا قسمت میں لکھا ہے۔ میرے رات سے ہواس ٹھکانے نہیں ہیں، حقیقی بھائی سے بڑھ کر مجھے محبت ہے۔ اللہ اپنے حبیب کے تصدق میں رحم کرے۔ گلابو! دعا کرو۔
میں: میاں یہ عقدہ تو اب کھلا۔ سنو! پرسوں کے دن صبح کو ہماری بیوی اپنی بیٹی سمیت خواجہ صاحب کے گھر جاتی تھیں۔ راستہ میں پُل کے پاس ذرا گاڑی کسی وجہ سے رُک گئی تھی پھر فوراً روانہ ہو گئی۔ اس دن میں بھی ساتھ گاڑی کی چھت پر سوار تھی۔ رشید کو میں نے بھی دیکھا تھا لیکن مجھے یہ کچھ معلوم نہیں کہ انھوں نے بٹیا کو دیکھا یا نہیں اور نہ اس کا خیال گذرا۔ کیونکہ زہرہ کو اپنے پردہ کا خود بڑا خیال ہے۔ ہاں شاید کھڑکی کی آڑ سے جھانکا ہو اور رشید نے دیکھ لیا ہو۔ مگر کل رات تو پان مانگنے کے واسطے رشید ڈیوڑھی پر گئے تھے۔ کوئی ماما موجود نہ تھی۔ زہرہ پان دینے نکل آئی تھیں، شاید رشید کا پیر کسی چیز سے الجھ گیا وہ گر پڑے۔ زہرہ گھبرا کر آگے بڑھ آئیں۔ یہ جلدی سے اٹھے تو لیکن ایک دوسرے کو دیکھ کر نظر بازی میں پڑ گئے۔ زہرہ کہتی تھیں کہ میں چند منٹ بعد سنبھل کر اندر آئی تو دھماکا سنا۔ دریافت سے معلوم ہوا کہ وہی پان مانگنے والے صاحب بے ہوش ہو گئے ہیں۔ میاں! میں تو گھر پر تھی۔ تھوڑی رات گئی ہوگی کہ زہرہ نرہی واپس آگئیں۔ میں نے پوچھا کہ تم اکیلی کیوں چلی آئیں اور بی بی کو کہاں چھوڑا۔ انھوں نے بوجہ ہم سنی راز چھپانے کی قسم لے کر مجھ سے سارا قصہ بیان کیا اور کہا کہ ان کی غشی سن کر میری حالت بھی غیر ہونے لگی تو میں اپنی ناچاقی طبیعت کا عذر کرکے چلی آئی۔ جس وقت سے مکان پر آئی ہیں رونے پیٹنے کے سوا کچھ کام نہیں ہے۔ رو رو کر صبح کی۔ سویرے تڑکے مجھ کو خیریت دریافت کرنے کو بھیجا تھا اور کہا تھا کہ کسی طرح میرے حال کی خبر ان سے کہہ دینا لیکن یہاں تو اور ہی رنگ ہے۔
حامد (کچھ مسرور ہو کر): گلابو! اب مجھے اطمینان ہو گیا۔ خدا نے چاہا تو رشید اب جلد صحت پا جائیں گے۔ مجھے بڑا تردد تھا کہ بغیر جانے بوجھے کہاں سے ان کی چاہتی پیدا کی جائے۔ اب اس کا پتہ لگ گیا ہے تو ان شاء اللہ سب تکلیفیں رفع ہو جائیں گی۔
میری اور حامد کی باتیں ختم نہیں ہوئی تھیں کہ ڈاکٹر صاحب نے اٹھ کر مولوی صاحب کو مبارک باد دی: ‘‘مولوی صاحب رشید کی صحت مبارک”۔ میں اور حامد یہ سن کر بہت خوش ہوئے۔ باتیں موقوف کرکے دالان میں گئے۔ اس وقت رشید نے آنکھیں کھول دی تھیں اور آہستہ سے پانی مانگا تھا۔ پانی اور اس کے ساتھ ہی دوا بھی دی گئی۔ دوا پی کر ذرا اور حواس درست ہوئے، کروٹ لی۔ حامد نے بے چین ہو کر پاس جا کر کان میں کچھ آہستہ سے کہا اور رشید کا ہاتھ پکڑ کر میری طرف اشارہ کیا۔ مجھے دیکھ کر رشید نے زور سے کہا: ‘‘حامد تم سچ کہتے ہو؟ میں خواب تو نہیں دیکھتا ہوں۔ بھائی! تم مجھے دھوکا دیتے ہو۔ ہائے! بھلا وہ کیوں مجھے پوچھنے لگیں”۔
حامد: ذرا کی ذرا خاموش رہو، سب کھڑے ہیں کیا کہیں گے۔
رشید: کہے گا کوئی کیا۔ میں کسی کے کہنے کی کچھ پروا نہیں کرتا (مجھے اشارے سے بلا کر) اپنی بیوی سے میرا حال زار مفصل کہہ دینا۔ کہنا کہ تمھارے پیچھے چار ہی دن میں ہماری سب گتیں ہو گئیں۔ خدا کے واسطے ہمارے اوپر رحم کریں، نہیں تو اسی طرح کسی دن جان بھی نکل جائے گی۔
رشید کی اتنی باتیں سن کر میں نے جواب دینے کا کچھ موقع نہ دیکھ کر گھر کو پلٹنے کا قصد کیا۔ حامد نے چلتے وقت مجھ سے کبھی کبھی ملتے رہنے کا وعدہ لے کر رخصت کیا۔ جلدی کے خیال سے فوراً یکہ کرکے بھاگی۔ اب لائیے کچھ انعام دلوائیے۔
زہرہ (رنجیدہ سی ہو کر): تم نے مجھے خوش خبری تو سنائی لیکن یہ تو بتاؤ کہ اِس سے مجھے کیا فائدہ۔ حرام کاری، بد وضعی میں کرنے سے رہی۔ منہ سے حسب دل خواہ شوہر تجویز کرنے کے لیے کہنے سے رہی۔ پھر مجھے کیا امید کہ کبھی میرا پیارا جانی مجھے ملے گا بھی یا نہیں۔
گلابو: بیوی! دین میں تو پیغمبر صاحب کا حکم ہے کہ جس سے عورت راضی ہو، اس سے نکاح کر لے۔ پھر تم پڑھی لکھی ہو کر کیوں سب سے ڈرتی ہو۔ کیا اللہ و رسولﷺ سے بڑھ کر کسی کا حکم ہے۔ منہ سے کہہ کیوں نہیں دیتیں۔
زہرہ (ٹھنڈی سانس لے کر): گلابو! یہ سب سچ ہے خدا رسولﷺ نے سب اجازتیں دی ہیں مگر ہمارے اس کمبخت ملک کی رسم کیسی سخت ہے کہ چاہے جس کو ہاتھ پکڑا دیں، لڑکی کمبخت منہ سے ہوں تک نہیں کر سکتی۔ میں کیوں کر کچھ کہوں (رو کر) میری تقدیر میں خدا جانے کیا لکھا ہے۔ میری اچھی گلابو! میری عزت تمھارے ہاتھ ہے، للہ اس کو چھپائیو۔ کبھی کبھی خیریت لا دوگی تو میں تمھاری۔۔۔۔۔
اپنے باپ سید مبارک کو آتے دیکھ کر زہرہ چپ ہو رہی۔
چوتھا باب
از سرِ بالینِ من برخیز ای نادان طبیب
دردمندِ عشق را دارو بہ جز دیدار نیست
آفتاب تمام دن کی منزل طے کر کے تھک گیا ہے اور ہانپتا کانپتا مغرب کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ زرد زرد دھوپ جو تمام دنیا کو بادلہ پوش بنائے تھی، اس کی صرف درختوں کی پھنگیوں پر کچھ خفیف سی کرنیں پڑ رہی ہیں۔ دن بھر کا گرد و غبار بیٹھ گیا ہے۔ شبنم پڑنے کا سامان ہو گیا ہے۔ وہ نو نہال جو دھوپ کی سختیوں سے مرجھائے پڑے ہوئے تھے، آنکھ مل کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ چڑیوں نے اپنے آشیانوں کا رخ کیا ہے، سڑکوں پر شوقین لوگ سیر و تماشا کے واسطے چل پھر رہے ہیں۔ عشاق نا مراد شب فرقت کے خیال سے ہاے و واویلا مچائے ہوئے ہیں۔ کہیں معشوقانِ زاہد فریب جنگ زر گری کی تیاری میں ہیں، بناؤ سنگھار ہو رہا ہے۔ راستوں میں آدمیوں کی کثرت سے کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔ لکھنؤ کا چوک جس طرح آدمیوں سے بھرا ہے اس کا اندازا جنھوں نے دیکھا ہے وہی خوب کر سکتے ہیں۔ یوں تو یہاں ہر قسم و وضع و ملک کے لوگ اس وقت سیر کو آتے ہیں، مگر دیکھو وہ دور پر شاہی شفا خانہ کے برابر ایک آدمی سر جھکائے کچھ بڑبڑاتا چلا جاتا ہے۔ شکل و صورت تو اس کی بہت عمدہ اور وضع و قطع شریفانہ ہے لیکن حالت میں کچھ جنون کے سے آثار پائے جاتے ہیں۔ ایک کاغذ ہاتھ میں لیے ہوئے وہ وکٹوریہ پارک کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ جانے والا بڑی عجلت کے ساتھ چوک کے مشہور پھاٹک گول دروازے سے نکل کر وکٹوریہ پارک کی خوش نما سرخ سڑک پر آگیا۔ پہلے تو تھوڑی دور سیدھا چلا، اس کے بعد کچھ سوچ کر وہ پچھم کی طرف مڑا اور فوارہ کے پاس جا کر کھڑا ہوا۔ اس جگہ بھی وہ چند منٹ سے زیادہ نہ ٹھہر سکا کیوں کہ یہاں اس وقت سیر بازوں کا ہجوم ہوتا ہے اور یہ تخلیہ ڈھونڈتا تھا۔ جب کئی آدمی آگئے تو وہ پھر دوسری روش پر ہو کر آگے بڑھا اور ایک جگہ درختوں کی آڑ میں بیٹھ کر اس کاغذ کو دیکھنے لگا۔ ہمارا دوست اس مصروفی کے ساتھ اس کاغذ کو دیکھ رہا تھا کہ اس کو اس امر کی ذرا بھی پروا نہ تھی کہ کوئی اس پارک میں آتا جاتا ہے یا نہیں۔ ہنوز وہ کاغذ کو دیکھ ہی رہا تھاکہ ایک طرف سے آواز آئی: ‘‘کہاں تک بھاگوگے؟ اب بتاؤ تمھاری کیا سزا ہے؟”
نوجوان ادھر اُدھر دیکھ کر اور جب کوئی نظر نہ آیا تو پھر ‘‘کوئی ہوگا” کہہ کر کاغذ دیکھنے لگا۔ اتنے میں پکارنے والے نے درختوں کی دوسری جانب سے آکر نوجوان کا شانہ ہلایا۔ ‘‘کیوں رشید! کیا حال ہے؟”
رشید (سر اٹھاکر): ارے حامد! او ظالم! تو بھی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ کیا تجھ کو بھی خدمت جاسوسی سپرد ہوئی ہے؟
حامد: یہ کیا! رشید ہوش میں آؤ۔ دیکھو تم کس سے باتیں کرتے ہو۔ میں حامد ہوں مجھ سے تم کو ایسی گفتگو زیبا نہیں۔
رشید (رو کر): ارے بھائی! کیا کروں میرے دل کی لگی کوئی نہیں بجھاتا۔ ہاے ہاے! کس سے داد بیداد کروں؟ کہیں موت ہی آجاتی تو اچھا تھا۔ مجھ سے ایسی بدگمانیاں کی جاتی ہیں۔
حامد: تم سے کون بدگمانی کرتا ہے۔ تمھارے گھر والوں پر تو میرا کچھ اختیار نہیں ہے لیکن میں بذات خاص تمھارے کام میں ہر طرح کوشش کرنے کو تیار ہوں۔ لیکن تمھاری تو نرالی عادت ہے۔ ایسا خبط سوار ہے کہ نہ تو گھر میں بیٹھتے ہو نہ کسی دوست یار سے ملتے ہو۔ بارہا میں تمھارے مکان پر گیا ملاقات نہ ہوئی۔ ادھر ادھر تلاش کیا، تم نہ ملے۔ اس درمیان میں کوئی پندرہ دن تک میں کلکتہ میں رہا۔ وہاں کا کام تو ابھی ختم ہونے والا نہ تھا مگر تمھارے والد کا ایک خط پہنچا کہ رشید کے ایک کام میں تمھاری بہت بڑی ضرورت ہے۔ اگر ممکن ہو تو جلد چلے آؤ۔ ان کا خط پاتے ہی میں بھاگ کھڑا ہوا۔ آج دس بجے دن کی گاڑی میں اترا ہوں۔ صرف غسل تو میں نے مکان پر کیا ہے اس کے بعد مولوی صاحب کی خدمت میں گیا۔ دیر تک تمھارے حالات دریافت کرتا رہا۔ ان کا ارادہ شاید تمھارے عقد کی بابت ہے لیکن میں نے یہ ابھی دریافت نہیں کیا کہ انھوں نے نسبت کہاں ٹھہرائی لیکن مجھے خیال ہے کہ شاید سید مبارک صاحب کے یہاں گفتگو کریں۔ کیونکہ میرے بلانے میں اس کے سوا اور کیا فائدہ ہے۔ اور میں تم سے بوثوق کہتا ہوں کہ اگر انھوں نے ذرا بھی تحریک کی تو میں ہرگز کوئی امر کوشش کا اٹھا نہ رکھوں گا۔ والد بھی کل تک الہ آباد سے واپس آجاویں گے۔ اب تم کو خوش ہونا چاہیے کیونکہ عنقریب شاہد مدعا سے ہم کناری کی امید ہے۔
یہ سن کر بجاے جواب دینے کے رشید حامد سے لپٹ کر رونے لگا۔ حامد نے بمنت و سماجت اسے چپ کراکے رونے کی وجہ پوچھی۔
رشید: میرے پیارے بھائی! تم سے تو تین مہینہ پیچھے ملاقات ہوئی ہے۔ اس درمیان میں خدا جانے میرے اوپر کیا کیا نہیں گذر گئی، افسوس۔
حامد: اسی گذری کو تو پوچھتا ہوں۔ ذرا دل ٹھکانے کر لو تو بتاؤ۔ تم کو اپنے حامد کی قسم جلد سب حال مفصل کہو۔
رشید: اف! (آہستہ آہستہ رونے لگا) میری غشی والی علالت تو تمھارے سامنے ہی کی تھی۔ ابھی مجھے کامل افاقہ نہ ہوا تھا کہ تم دہلی چلے گئے۔ ایک انیس تنہائی تم تھے وہ بھی نہ رہے۔ مجھ کو اکیلے میں سودا بڑھنے لگا، خدا خدا کر کے صحت تو ہو گئی مگر طبیعت میں ایک قسم کا انقباض ہو گیا۔ ہر وقت خاموشی پسند تھی، حواس ایسے گم تھے کہ کچھ نیک و بد سمجھ ہی میں نہ آتا تھا۔ پہلے تو میرے گھر سے نکلنے کی ممانعت رہی، اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے صبح شام بطور سیر نکلنے کا حُکم دیا۔ لیکن راجا صاحب کے ساتھ کی وجہ سے مجھ کو کبھی خوش ہو کر سیر کرنے کا موقع نہ ملا۔ اور نہ کبھی یہ ممکن ہوا کہ میں اپنی زہرہ کی طرف جاتا۔ اور واللہ اعلم کیا سبب ہوا کہ اُنھوں نے بھی مطلق خبر نہ لی۔ لیکن جب میں نے اس طرح پر اپنی طبیعت سنبھلتے نہ پائی تو مجبور ہو کر راتوں کو چھپ کر گھر سے نکل جانے لگا۔ آفت ناگہانی اور بلاے آسمانی کا کیا بیان کروں۔ میں متواتر سید مبارک صاحب کے مکان پر گیا، مگر ہمیشہ ایسے بے وقت پہنچا کہ کبھی کوئی آدمی جاگتے ہوئے نہ ملا۔ ایک مرتبہ کچھ خفیف سا ابر تھا، میں اپنی معمولی وحشت سے گھبرا کر گھر چھوڑ نکل بھاگا۔ ابھی قیصر باغ کے پھاٹک ہی پر پہنچا تھا کہ پولس کے سپاہی نے ڈانٹ بتائی وہ تو خدا نے خیر کر دی کہ میرا نام اور پتہ سن کر اس نے صرف واپس ہونے پر پیچھا چھوڑ دیا ورنہ اور کسی مصیبت میں گرفتار ہونا پڑتا۔ حامد! دل کی لگی بری ہوتی ہے۔ نا تجربہ کاری نے چاہے مجھے جس بلا میں پھنسایا مگر قلب پر اختیار نہیں چلتا۔ دو ایک دن تک سپاہی کی دہشت سے میں سید صاحب کی طرف نہیں گیا۔ حالانکہ اس آمد و رفت میں سواے اُن کا دروازہ و مکان کی چار دیواری دیکھنے کے اور کوئی فائدہ نہ تھا لیکن مجھ کو کچھ تسکین ہو ہی جاتی تھی۔ اب جو دو چار دن یہ بھی نصیب نہ ہوا تو اور خبط ہو گیا۔ قسمت کی کمی دیکھو کہ اُس سپاہی نے کہیں ابّا سے مُلاقات کی اور ان سے میرے رات کے نکلنے کی شکایت کرکے کہا: ‘‘یہ وقت بہت نازک ہے۔ شہر میں وارداتیں بکثرت ہو رہی ہیں۔ صاحب ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ بہادر کی سخت تاکید پہرہ کے بارے میں ہے۔ اکیلے دو کیلے بے وقت مکان سے نکلنا مناسب نہیں ہے۔ لوگ چال چلن پر شبہ کرنے لگتے ہیں۔ صاحبزادہ کو سمجھائیے، ورنہ نیک بد پڑ جائے گی تو مشکل ہوگا”۔ کمبخت برقنداز کا اتنا والد سے کہنا تھا کہ وہ آگ بگولا ہو گئے۔ مُجھے بلا کر مفت سیکڑوں صلواتیں سنائیں اور حکم دے دیا کہ مکان سے شام کو باہر نہ نکلنے پاوے۔ اُن کی تقریر سے مجھ کو صاف معلوم ہوتا تھا کہ انھیں میری نیک چلنی میں شک ہے ۔قاعدہ کی بات ہے کہ آدمی ممانعت پر زیادہ حریص ہو جاتا ہے۔ جیوں جیوں ابا کی طرف سے سختی ہوتی گئی، میرا خیال زیادہ متوحش ہونے لگا۔ اور بالآخر میں ایک دن دوپہر کو کسی نہ کسی ترکیب سے بھاگ نکلا۔ گھر سے نکلتے ہی میں نے ایک گاڑی کرایہ کو کی اورسیدھا نرہی جا دھمکا۔
میں جیسے ہی گاڑی سے اترا اور گاڑی بان کو کرایہ دینے لگا، سامنے اپنی زہرہ پیاری کی خادمہ گلابو کو آتے دیکھا۔ گلابو مجھے دیکھ کر خود میری طرف آئی اور دور سے سلام کیا۔
میں (جواب سلام دے کر): اچھی گلابو! ذرا اور نزدیک آؤ۔ کہو مکان میں سب خیریت تو ہے۔ تمھاری بیوی کا مزاج کیسا ہے۔
گلابو (مجھے ایک گوشے کی طرف انگلی سے بتا کر): وہاں آئیے تو کچھ گفتگو ہو۔
میں بجاے جواب دینے کے سیدھا اسی گوشہ کی طرف چلا گیا۔ یہ ایک گلی تھی جو سید مبارک صاحب کے مکان کے پیچھے گئی تھی، اِس طرف ان کے کوٹھے پر ایک کمرہ بنا تھا جس کی ایک کھڑکی اس جانب کو بھی تھی۔ اس جگہ میں ایک مونڈھے پر جو گلابو جلدی سے مکان سے لے آئی تھی، بیٹھ گیا اور پھر اپنے سوال کا اعادہ کیا۔
گلابو (ٹھنڈی سانس بھر کر): میاں کیا بتاؤں جس دن سے آپ کے یہاں سے آئی ہوں آج ایک مہینہ ہونے آیا۔ زہرہ بی بی کو پلنگ پر سے اٹھنے کی قسم ہو گئی۔ میری زبانی آپ کی بیماری کا حال سن کر گھبرا سی گئی تھیں مگر صحت کا حال سن کر کچھ ہوں ہی سی تسلی ہو گئی تھی۔ جب انھوں نے یہ خیال کیا کہ دیکھا چاہیے آپ کی ملاقات باقاعدہ طور پر نصیب ہوتی ہے یا نہیں، بس رونے لگیں اور اپنے دل میں کچھ سوچ سوچ کر اسی دن سے وہ بالکل آپ سے گذر گئیں۔ دن رات مجھ سے بس آپ کا تذکرہ کیا کرتی ہیں۔ میں نے لاکھ لاکھ سمجھایا وہ ایک نہیں مانتی ہیں بلکہ آپ کی شکایت کرتی ہیں کہ مجھے بالکل بھلا دیا، ان کی حالت از خود رفتگی کی ہو رہی ہے۔ اللہ اچھا کرے ابھی اتنی خیر ہے کہ کچھ بیماری نہیں گھیرے ہے مگر آج صبح سے سید صاحب کا تقاضا ہے کہ کل سب گھر بھر انّاؤ کو چلے۔ وہاں سے ان کو ایک رئیس نے سو روپے مہینہ پر بلایا ہے۔ اناؤ خاص میں رہنا ہوگا اور ان کے یہاں کا جب ضرورت ہو علاج کرنا ہوگا۔ خواجہ صاحب نے آفت برپا کر رکھی ہے۔ دن بھر میں چار چار بار آتے ہیں اور اب یہ راے مستقل ہو گئی ہے کہ مع عورتوں کے کل روانہ ہو جائیں۔
میں (رو کر): اچھی گلابو! پھر اب کیا زہرہ چلی جائیں گی تو میں کیونکر زندہ رہوں گا۔ ہاے میں مر جاؤں گا۔ میرا اپنا پیغام تم پہنچا دو۔
گلابو: وہ خود ہی اسی شش و پنج میں ہیں مگر کچھ ہو کل جانا رک نہیں سکتا۔ خدا ان کے جان کی خیر کرے۔
میں گلابو سے ابھی حال دل کہنے نہ پایا کہ سید صاحب کو آتے دیکھ وہ مونڈھا ہاتھ میں لے چل کھڑی ہوئی۔ میں حالات موجودہ پر خیال کر کے مخبوط سا وہیں کھڑا رو رہا تھا کہ تقدیر کی خوبی سے کہیں والد ماجد اس طرف گئے ہوئے تھے۔ سید صاحب سے ملے اور گلی میں ہو کر دوسری سڑک پر آنے لگے تو مجھ سے مڈ بھیڑ ہوگئی۔ میں نے بہتیرے حیلے حوالے کیے، ایک نہ مانی زبردستی سڑک تک لے آئے اور اپنے ساتھ سوار کرا کے گھر لائے۔ گھر پہنچ کر انھوں نے مجھ کو بالکل نظر بند کر دیا اور جس کمرہ میں لوہے کی سلاخیں لگی ہیں اسی میں مجھ کو رہنے کا حکم دے دیا اور سپاہیوں کا پہرا ہو گیا۔ پیارے حامد! اس قید میں مَیں نے کیا کیا جفائیں سہیں اس کا تم سے کیا بیان کروں۔ ہر وقت سب کی گھرک دھمک سہتا تھا اور خاموش بیٹھا رہتا تھا۔ اسی درمیان میں مجھے سپاہیوں کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ کسی جگہ میرا عقد تجویز ہوا ہے۔ حکیم و ڈاکٹر سب نے تجرد کی وجہ سے خلل دماغ تجویز کیا ہے۔ کیا بتاؤں کہ یہ سن کر مجھ پر کیا گذر گئی لیکن قہر درویش بر جان درویش دم نہ مار سکتا تھا۔ اس پر غضب یہ ہوا کہ کل شام کی ڈاک میں ایک چٹھی میرے نام آئی۔ نہ معلوم کہاں رحم ابا کو آگیا کہ وہ خط بجنسہ میرے پاس بھیج دیا۔ حامد اس خط کو دیکھ کر مجھے گھر سے سخت نفرت ہو گئی اور کسی نہ کسی تدبیر سے آج صبح تڑکے میں گھر سے نکل بھاگا۔ والد روزانہ شام کو مجھے دیکھنے آیا کرتے تھے، ان کو شاید ابھی یہ حال معلوم بھی نہ ہوا ہو۔ مگر میں افتاں و خیزاں یہاں تک تو آ گیا ہوں آگے اللہ کی مرضی۔ سنو حامد! یہ غیر ممکن ہے کہ میرا زہرا کے سوا کسی اور سے عقد ہو جاوے۔
حامد: یہ تو بتاؤ کہ وہ خط کس کا تھا اور کیا لکھا تھا؟
رشید: یہی خط تو ہے (اپنے ہاتھ والا کاغذ دکھا کر) اناؤ سے پیاری زہرا نے بھیجا ہے۔ اب میں ایک ساعت یہاں نہیں ٹھہر سکتا۔ والد سے تم کہہ دینا کہ رشید دنیا سے گذر گیا۔ اب اس سے ہاتھ اٹھائیے۔
حامد: کیا میں دیکھ سکتا ہوں کہ اس میں کیا لکھا ہے؟
رشید (ذرا تامل کے بعد): تم سے کیا پردہ ہے۔ لو بلا تکلف دیکھو۔
رشید سے خط لے کر حامد نے پڑھا۔ لکھا تھا:
کیوں پیارے! محبت اسی طرح کرتے ہیں۔ افسوس تم نے مجھے مفت بدنام و مبتلاے آلام کیا۔ میں ہرگز تم کو ایسا نہ سمجھتی تھی۔ یہ الٹی بات ہے کہ ایک شریف لڑکی کے قلم سے ایسے الفاظ نکل رہے ہیں۔ لیکن چونکہ تمھارے ہجر میں میرا آخری وقت آگیا ہے۔ لہذا مجھے امید ہے کہ خدا میری اس خطا سے درگذر کرے گا۔ میرے دل پر جو صدمے گذرے اور گذرتے ان کا نتیجہ یہاں تک پہنچ چکا۔ تمھاری شادی کی کیفیت سنی۔ خدا مبارک کرے۔ ہم تو اب اناؤ ہی میں رہیں گے۔ اگر کبھی ادھر آ نکلنا تو فاتحہ خیر سے بھول نہ جانا۔ امروز فردا میرے سفر عدم کی خبر تم کو خود ہی معلوم ہو جاوے گی۔
دنیا سے جانے والی
زہرہ
حامد (خط کو ختم کر کے): اب تمھارا کیا ارادہ ہے۔
رشید: ارادہ کیا ہے، بس اب میں اناؤ جاتا ہوں (کسی طرف سے اذان کی آواز سن کر) سنو مغرب کی اذان ہوتی ہے، جاؤ نماز پڑھو۔ یہ میری تمھاری آخری ملاقات تھی۔ (رو کر) اگر زہرہ کا بال بیکا ہوا تو سمجھ لو کہ میرا خمیر مجھے اناؤ لے جاتا ہے۔
حامد: اگر مانو تو ہماری صلاح لو۔ چلو نماز پڑھیں، اس کے بعد ہمارے گھر چلو۔ رات وہاں بسر کرو، کچھ خرچ کی تدبیر کر دی جاوے۔ صبح ہنسی خوشی تم اناؤ چلے جانا، کوئی تمھاری خبر پائے تو میں ذمہ دار۔
حامد کی صلاح رشید کے ذہن میں آگئی۔ دونوں نے مغرب پڑھ کر نئے گاوں کا راستہ لیا۔ کھانا کھا پی کر لیٹے تھے کہ تھوڑی دیر بعد رشید چونک پڑا اور اس کو کچھ ایسی الجھن ہوئی کہ اسی وقت کواڑ کھول چل دیا۔ حامد کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی۔ صبح کو حامد جب نماز کو اٹھا تو رشید کو نہ پایا بلکہ بجاے اس کے ایک تکیہ پر چادر ڈھکی پائی۔ چادر ہٹا کر دیکھا تو تکیہ رکھا ہے اور یہ چند سطریں ایک کاغذ پر لکھی رکھی ہے:
میرے حامد!
میں صبح تک صبر نہیں کر سکتا، تم کو حافظ حقیقی کے سپرد کرتا ہوں۔ شاید یہ میری تمھاری آخری ملاقات ہو تو تم میرے قصور کو معاف کرنا اور والد سے میری جانب سے عرض کرنا کہ مجھ سے ہاتھ اٹھائیں۔ سمدھی صاحب کو جواب دے دیں کہ وہ اپنا دیکھا کام کریں۔ اناؤ میں تم میرا پیچھا نہ کرنا کیونکہ اگر تم کو میں مل بھی گیا تو تمھارے کسی کام کا نہ رہوں گا۔ میرے رموز کو امانت کے ساتھ چھپاتے رہنا، اچھا بس آخری سلام لو۔
تمھارا از کار رفتہ بھائی
رشید
حامد اس خط کو دیکھ کر سنّاٹے میں آگیا۔ دیر تک سکتہ کے عالم میں بیٹھا رہا اس کے بعد اپنی ضروریات دنیاوی میں مصروف ہوا اور انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر خاموش ہو رہا۔
پانچواں باب
بادیہ پیمائی
تیز رکھنا سرِ ہر خار کو اے دشتِ جنوں
شاید آ جائے کوئی آبلہ پا میرے بعد
آفتاب نصف النہار تک بڑھ آیا ہے اور اپنی گرم گرم کرنوں سے زمین کو آگ بھبوکا بنا رہا ہے۔ میدانوں کی ریت کسی کے اخگر دل کی طرح جل رہی ہے اور لوہ کی لپٹ سے راہ چلنے والوں کے چہرے جھلس رہے ہیں۔ ہواے صرصر چلنے والوں کے دامنوں کو الجھا الجھا کر اٹھکھیلیاں کر رہی ہے۔ گرد و غبار کا قافلہ چاروں طرف حیران و پریشان سا گھوم رہا ہے۔ لہلہاتے ہوئے سبزہ زار اور ہرے بھرے درخت دھوپ کی ٹھنڈی گرم جوشیوں سے پژمردہ ہو کر مرجھا گئے ہیں۔ مسافر اپنے اپنے موقع سے ذرا دیر آرام کرنے کو کہیں سایہ ڈھونڈھ کر ٹھہر گئے ہیں اور نہانے دھونے و کھانے پینے میں مصروف ہیں۔ لکھنؤ سے جو سڑک کانپور کو گئی ہے، اِسی کے درختوں کے نیچے ایک نوجوان تکانِ راہ کی وجہ سے ماندہ ہوکر بیٹھ گیا ہے۔ لوہ و لپٹ کی گرمی سے سرخ سُرخ چہرہ سیاہی مائل ہو گیا ہے۔ کپڑوں سے آگ نکل رہی ہے۔ بدن پھوکا جاتا ہے۔ پیاس کے مارے ہونٹوں پر پپڑیاں جم گئی ہیں۔ حلق میں لُعاب تک باقی نہیں رہ گیا ہے۔ بھوک کی وجہ سے پیٹ و پیٹھ ایک ہو رہی ہے۔ یہ نوجوان جو کسی شریف خاندان کا لڑکا معلوم ہوتا ہے، بہت ہی پریشان زمین پر بیٹھا ہے۔ پیروں کو اٹھا کر دیکھ رہا ہے کہ چھالے پڑ پڑ کر ٹوٹے ہیں۔ تمام تلوے خوں نابہ بن گئے ہیں۔ لہو کی دھار چل رہی ہے۔ پاؤں سوج گئے ہیں۔ پنڈلیوں میں خون ایسا جم گیا ہے کہ ہل نہیں سکتے ہیں۔ یہ دیکھ کر بے ساختہ نوجوان کے منہ سے ہاے کا نعرہ نکلا۔ زور سے چیخ کر رونے لگا۔ چاروں طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا اور پھر سر جھکا کر اپنی مصیبت پر پھوٹ پھوٹ رونے لگا۔ سامنے کنویں پر چند مسافر پانی پی رہے ہیں، نوجوان نے ان سے پانی مانگا۔ ایک نے جواب دیا: ‘‘صاحب! آپ پیاسے ہیں تو یہاں آئیے، پانی پی لیجیے”۔ نوجوان نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا: ‘‘آہ! اب یہاں تک نوبت پہنچ گئی۔ پیاری زہرہ! ذرا دیکھ، تیرے رشید پر کیا مصیبت پڑی ہے۔ دیکھ وہ ایک قطرہ پانی کو ترس رہا ہے۔ ہاے کوئی اس کا یار و مددگار نہیں ہے۔ اسی ہُو کے میدان میں تم پر قربان ہوا چاہتا ہے۔ آہ! تم کو خبر بھی نہ ہوگی پیاری!” مسافر نے دوبارہ آواز دی: ‘‘میاں ہم جاتے ہیں تم کو پانی پینا ہے تو آؤ۔ دن ڈھل گیا ہے اور ہم کو دور جانا ہے”۔ نوجوان رشید جبراً و قہراً اٹھا اور جیسے ہی ایک قدم چلا تھا کہ دھوپ کی سختی اور بھوک پیاس کی شدت سے تیورا کر گرا، اس زور سے گرا کہ فورا بے ہوش ہو گیا۔
مرغ نیم بسمل کی طرح ہاتھ پیر مارنے لگا۔ پختہ سڑک پر اس زور سے گرنا کچھ دل لگی نہ تھی۔ بیچارہ کے سر میں چوٹ آگئی، ہاتھ پیر چھل گئے۔ ناک سے خون کا فوارہ جاری ہو گیا۔ چند منٹ تو ہاتھ پیر بھی چلائے، اس کے بعد بالکل بے حس و حرکت ہو کر رہ گیا۔ افسوس زمان کا رنگ دیکھو وہ نازوں کا پالا رشید جو کبھی خس خانہ کا بیٹھنے والا تھا، اس طرح دھوپ لوہ میں سڑک پر پڑا جل رہا ہے۔ آہ! اس کے گرد سواے حسرت و اندوہ، غم و یاس کے کوئی غم خوار نہیں ہے۔ صد افسوس! مولوی عبد المعز کا اکلوتا پیارا بیٹا یوں دشت غربت میں بے موت مر رہا ہے کہ جس پر غریب الوطنی کو بھی رحم آتا ہے اور کوئی اس کا فریاد رس نہیں۔ عشق نے بیچارے رشید محزون کی جان پر بنا دی۔ آہ! اس کے ماں باپ کا اس وقت کیا حال ہوتا۔ اگر ان کے سامنے اس کا جی ذرا سست ہوتا تو ان پر کیا گذر جاتی۔ زہرہ! تو تو اپنی محل میں بیٹھی چین کر رہی ہے اور تیرا عاشق صادق لب گور ہو رہا ہے۔ دیکھ اس نے کیسی راست بازی کا تجھ سے برتاؤ کیا اور کس طرح تجھ پر نثار ہوا۔ تو کیا جانتی ہوگی کہ اس پر کیا بِیت رہی ہے۔ دیکھ اس کے نازک ہاتھ پیر کیسے بے طرح چھل گئے ہیں۔ اس کا گلابی چہرہ دھوپ سے جل کر کیسا ماند پڑگیا ہے۔ اس کا لباس خون میں کس طرح سے بھرا ہوا ہے۔ اس کی فراخ پیشانی کیسی جراحتوں سے مجروح ہے۔ سانس اکھڑ سی گئی ہے۔ دیر کے بعد کچھ یوں ہی سی اکھڑتی سانس لیتا ہے۔
نوجوان رشید کو گرتے دیکھ کر مسافر آفات زمانہ کے خوف سے اس طرح بھاگے کہ پھر کر بھی نہ دیکھا اور اس کی یہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ اب دم اکھڑا اور اب روح نے قالب سے پرواز کی۔ ایک بارگی ایک شکرم سڑک پر سے گذری، اس پر خان بہادر احسان حسین خاں صاحب ڈپٹی کلکٹر اناؤ سوار تھے جو لکھنؤ سے بے وقت اناؤ کو جا رہے تھے۔ انھیں کے یہاں حکیم سید مبارک صاحب ملازم تھے۔ راستہ میں انھوں نے اس مسافر عدم کو دیکھ کر گاڑی رکوائی۔ خود اتر پڑے۔ اپنے ہاتھ سے نبض دیکھی۔ نتھنوں پر ہاتھ رکھا۔ کچھ دم آتے جاتے دیکھ کر آدمیوں کو حکم دیا کہ اِس نیم مردہ لاش کو اٹھا کر انھوں نے گاڑی پر ڈالا اور پانی سے تر کر کے ایک کپڑا اس کے منہ پر ڈال دیا۔
ڈپٹی صاحب نے گاڑی پر بیٹھ کر کوچ بان سے حکم دیا کہ جہاں تک جلد ممکن ہو وہ تیز چلے۔ راستہ میں کئی جگہ گھوڑے تبدیل کرنے کے بعد چار بجے دن کو وہ اناؤ پہنچے۔ شہر میں داخل ہو کر سیدھے وہ خود تو سِول سرجن کے پاس گئے اور رشید کو ایک پالکی پر ڈال کر مکان بھیج دیا۔ مغرب سے قبل ڈپٹی صاحب مع سول سرجن کے مکان پر آئے اور خدا کے لیے نیم جان رشید کا علاج شروع کیا۔ بڑی بڑی تدبیروں سے آدھی رات کو ہوش آیا۔ رات کو آنکھ کھول کر رشید نے اپنے تیمار داروں کو دیکھنا شروع کیا لیکن کسی کو پہچان نہ سکا۔ چپکے سے بے حواس سا پھر آنکھیں بند کر پڑ رہا۔ اس دن رشید کو ایسا آرام ملا کہ صبح کو آفتاب نکل آیا اور نیند کی وجہ سے آنکھ نہ کھلی۔ ڈپٹی صاحب مریض کو دیکھنے آئے اور اس کی بے طرح نیند کو دیکھ کر بہت منتشر ہوئے۔ آدمی کو پکار کر حکم دیا کہ حکیم صاحب کو جلد بلا لا اور خود سرہانے ایک کرسی ڈال کر بیٹھ گئے۔ چند منٹ میں حکیم سید مبارک صاحب تشریف لائے۔ صاحب سلامت کے بعد سبب طلبی پوچھا۔ ڈپٹی صاحب نے رشید کا سارا حال ذکر کر کے کہا: ‘‘اس وقت سول سرجن نہیں آ سکتے اور نہ ان کی چنداں ضرورت ہے۔ آپ ان کا علاج کریں۔ صورت سے یہ کوئی شریف زادہ معلوم ہوتا ہے۔ چہرہ بتا رہا ہے کہ وہ لائق و متین آدمی ہے۔ اگر یہ اچھا ہو گیا تو میں اپنی لڑکی شمیمہ کے ساتھ اس کا نکاح کروں گا۔”
حکیم سید مبارک (مریض کی نبض دیکھ اور چہرہ پر سے چادر اٹھا کر): گھبرانے کی بات نہیں ہے، اس وقت یہ بڑی نیند میں سوتا ہے۔ اس کا چہرہ صحت کی وجہ سے اترا ہوا ہے۔ (چہرہ پر غور کر کے) جناب ڈپٹی صاحب! یہ تو مولوی عبد المعز کا لڑکا ہے۔ وہی عبد المعز جو پہلے کلکٹر ہردوئی کے سر رشتہ دار تھے۔
ڈپٹی صاحب: آہا! حکیم صاحب، وہ تو میرے بڑے دوست ہیں۔ لیکن انھوں نے شاید نوکری سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
حکیم صاحب: جی ہاں! اب وہ ایک تعلقدار کے یہاں نائب ریاست ہیں۔
ڈپٹی صاحب: یہ تو گویا منہ مانگی مراد ملی۔ میں ضرور شمیہ کے ساتھ اس لڑکے کا عقد کروں گا۔ اب مجھے کچھ۔۔۔۔
رشید نے آنکھ کھولی۔ ڈپٹی صاحب و حکیم صاحب کو دیکھ کر سلام کیا اور سید صاحب کو صورت آشنا سمجھ کر اپنے بارہ میں سوال کیا۔ سید صاحب نے ہنوز کچھ جواب نہ دیا تھا کہ خود ڈپٹی صاحب نے سب حال اس کی بے ہوشی اور اپنے پہنچنے و اٹھا لانے و علاج وغیرہ کا بیان کیا۔ رشید سب حالات سن اور سید صاحب کو دیکھ کر اپنے جی میں زہرہ کی دید کی امید پر بہت خوش ہوا اور زبانی ڈپٹی صاحب کا بڑا شکریہ ادا کیا۔
ایک ہفتے کے علاج و معالجہ میں رشید اچھا خاصہ بھلا چنگا
ہو گیا۔ صاحب ڈپٹی صاحب نے اس کا غسل صحت دھوم دھام سے کیا اور اپنے یہاں بڑی خاطر سے رکھنے لگے۔ اور رشید اس فکر میں ہوا کہ کسی طرح زہرہ سے ملاقات کرے۔ ادھر ڈپٹی صاحب نے اپنے گھر میں صلاح لے کر ایک رقعہ کے ذریعہ سے رشید کا منشا شمیمہ کی نسبت دریافت کیا:
عزیز از جان سلمہ
تمھارے والد کے اور میرے جو مراسم ہیں ان کو شاید تم بھی جانتے ہو۔ طرفین کے حالات ذاتی و صفاتی ایک دوسرے پر چھپے نہیں ہیں۔ میں اپنی شمیمہ کی نسبت تم سے کیا چاہتا ہوں اور بلحاظ چند مصالح کے قبل اس کے کہ مولوی عبد المعز صاحب سے کہوں، میں تمھارا مافی الضمیر دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ تمھاری سعادت مندی سے امید ہے کہ میرے حسب خواہش جواب دوگے۔
دعاگو
احسان حسین
رشید بیچارہ مصیبت کا مارا تو زہرہ کی جستجو میں تھا۔ بڑی بڑی فکروں سے اس نے گلابو سے ملاقات کی۔ اپنے مفصل حالات سے زہرہ کو اطلاع کی۔ آپس میں خط و کتابت شروع ہوئی۔ گلابو نے زہرہ کے جو حالات بیان کیے، رشید ان کو سن کر اور بھی سناٹے میں آ گیا۔ مگر وہ لڑکی ذات تھی، بہر صورت اس کو اپنا حال چھپانا ضرور تھا۔ گھٹتی مرتی تھی مگر کسی سے کچھ کہہ نہ سکتی تھی۔ اب رشید کے اناؤ پہنچنے اور خط و کتابت ہونے سے پھر اس کا مادۂ محبت جوش پر آیا اور اس نے اپنے کو بِروگن بنایا۔ رشید کے نام جو خط ڈپٹی احسان حسین خاں نے لکھا تھا وہ حکیم صاحب کے دیکھنے میں بھی آیا تھا۔ انھوں نے اپنے گھر جاکر اس کا تذکرہ کیا۔ زہرہ یہ سنتے ہی حواس باختہ ہوگئی، غصہ میں آکر اس نے رشید کو بہت سخت الفاظ میں لکھا:
‘‘چلو بس بہت منہ نہ چڑھاؤ۔ چاروں طرف شادیاں کرتے پھرتے ہو اور مفت مجھ جنم جلی کا کلیجہ پکاتے ہو۔ مجھ کو تم سے اب کچھ مطلب نہیں، نہ کچھ شکایت ہے۔ تم کو تمھاری شمیمہ اور مجھے میرا رنج و مصیبت مبارک رہے۔ منتقم حقیقی منصف ہے اسی سے فریاد ہے۔”
رشید گلابو سے یہ خط لے اور پڑھ کر سکوت میں ہو گیا کیونکہ اس کو ابھی ڈپٹی صاحب کا خط نہیں ملا تھا۔ اتنے میں ڈپٹی صاحب کا خط بھی ایک آدمی لے آیا۔ اس کو دیکھنا تھا کہ رشید سر پکڑ کر رہ گیا مگر جواں مردی کے ساتھ اس نے ڈپٹی صاحب کے خط کا یہ جواب لکھا:
حضور عالی! تسلیم۔
میں آپ کا تمام عمر احسان مند رہوں گا کہ آپ نے مجھے موت کے چنگل سے چھڑایا۔ لیکن اس احسان کی وجہ سے میں زبردستی اپنے آپ کو ایسی زنجیر میں بندھوانا پسند نہیں کرتا اور شاید کسی طرح تعمیل حکم کی ہو نہیں سکتی، امید معافی کی ہے۔
غریب الوطن
رشید
ڈپٹی صاحب کو جواب لکھ کر رشید نے اپنی پیاری زہرہ کو بھی خط لکھا:
ہاں میری زہرہ! تم کو سب کچھ کہنا زیبا ہے۔ افسوس تمھاری طبیعت میں انصاف بالکل نہیں ہے۔ میری مصیبتوں اور جاں بازیوں کی خوب قدر کی۔ خدا اس ساعت کو غارت کرے کہ جب میں زہرہ کے سوا کسی دوسرے کی دید کی تمنا کروں۔ تم میری جان و مال کی مالک ہو اور میں تمھارا ہی ہوں۔
دلفگار
رشید
چھٹا باب
زنجیر جنون کڑی نہ پڑیو
دیوانہ کا پاؤں درمیاں ہے
برا وقت اور بری ساعت پکار کر نہیں آتی ہے۔ غریب رشید نے ڈپٹی احسان حسین کو جواب لکھتے وقت یہ نہ خیال کیا تھا کہ مہربان ڈپٹی کلکٹر اس کی جان کا دشمن ہو جائے گا اور اس کی خرابی کے درپے ہوکر ناکوں چنے چبوائے گا۔ خط لکھ کر رشید کو اپنے اگلے پچھلے حالات، اپنی مصیبتیں، پھر زہرہ کی خفگی، والدین کی نا موافقی کا جو خیال آیا تو وصل یار سے مایوس ہو کر بے اختیار رونے لگا۔ طرح طرح کے تخیلات نے اس کے دل میں جگہ کر لی اور ساعت بساعت پریشانی بڑھنے لگی۔ ایک بارگی وہ ڈپٹی صاحب کو جو اس کے کمرہ کی طرف آتے تھے دیکھ کر دیوانہ وار بھاگا۔ اور باہری پھاٹک سے نکل کر بے تحاشہ جنگل کی طرف جانے لگا۔ راستہ میں وہ اس طرح بے تابی سے بھاگا کہ پھر کر دیکھنا قسم ہو گیا۔ اور اپنے ذہن میں یہ ٹھہرا کر کہ ڈپٹی احسان حسین مجھ کو سخت سزا دیں گے، وہ شہر سے باہر ایک گھنی جھاڑی میں جا چھپا۔
ڈپٹی صاحب نے رشید کا بھاگنا نہ دیکھا تھا۔ وہ سیدھے اس کے کمرہ کی طرف آرہے تھے۔ راستہ میں گلابو اور خود ان کا آدمی انھیں ملا۔ اپنے آدمی سے خط لینے کے ساتھ ہی انھوں نے گلابو کے ہاتھ کا پرچہ بھی چھین لیا۔ گلابو کے آئے گئے حواس غائب ہو گئے اور وہ اپنے گھر کو بھاگی مگر زہرہ کے خوف سے اس نے اس کا ذکر تک نہ کیا بلکہ یہ کہہ کر ٹال دیا کہ انھوں نے شام کو جواب دینے کو کہا ہے۔ گلابو سے تو ڈپٹی صاحب کو کچھ کام نہ تھا۔ وہ دونوں پرچہ پڑھتے ہوئے اس وقت کچہری کو چلے گئے۔ اور جب شام کو وہاں سے پلٹے تو حکیم مبارک صاحب کو بلا کر رشید کا خط انھیں دکھا کر کہا: ‘‘یہ آپ کی صاحب زادی کے کرتوت ہیں۔ صرف میں جانتا ہوں، کسی اور سے اس کا تذکرہ نہ کیجیے گا۔ مگر للہ جلد اس کو کہیں ٹھکانے لگائیے ورنہ آپ کے دامن عزت میں دھبہ لگ جائے گا۔”
سید مبارک (رنج اور غصہ سے): آہ! ظالم رشید، تو نے اچھا سلوک کیا۔ افسوس میں نہ جانتا تھا۔
ڈپٹی صاحب: طرز تحریر سے ثابت ہوتا ہے کہ زہرہ کا بھی کوئی خط گیا تھا مگر اب اس کا تذکرہ بے کار ہے۔ رسوائی کے سوا کچھ فائدہ نہیں ہے۔ آپ گھر میں بھی تذکرہ نہ کیجیے گا لیکن جہاں تک جلد ہو سکے جو میں کہتا ہوں اس کا بندوبست کیجیے۔ اور میں رشید کو اس گستاخی کا دیکھیے گا، کیسا مزہ چکھاتا ہوں کہ وہ بھی یاد کرے۔
سید مبارک: حضور اب آپ شمیمہ کی نسبت پیغام نہ دیں۔
ڈپٹی صاحب: افسوس پیغام دے کر تو پچھتا رہا ہوں۔ وہ خط جو میں نے لکھا تھا اس کے بھیج دینے میں مَیں نے بڑی عجلت کی لیکن دیکھیے (رشید کا خط دکھا کر) اس نے ایسے خلاف توقع الفاظ میں جواب دیا۔ خیر دیکھا جائے گا۔ ابھی ابھی اس کا بندوبست کرتا ہوں۔
(کسی آدمی کو آواز دی)
آدمی: حضور حاضر ہوا۔
ایک آدمی نے آکر بڑے ادب سے سلام کیا۔
ڈپٹی صاحب: دیکھو! کلّو ذرا تم چوکی پر سے جمعدار کو تو بلا لاؤ۔
کلو یہ سن کر مکان سے نکلا اور دروازے سے چند قدم پر پولیس کی چوکی تھی۔ پانچ منٹ بھی نہ گذرے تھے کہ جمعدار پولیس حاضر ہو گیا۔ ڈپٹی صاحب تو آگ بگولہ بیٹھے ہی تھے، جمعدار کو دیکھتے ہی کہا: ‘‘دیکھو ظالم سنگھ جمعدار! جو لڑکا ہمارے یہاں لکھنؤ کا رہتا تھا۔۔۔۔۔”
ظالم سنگھ۔ کون حضور؟
ڈپٹی صاحب (جھڑک کر): بکو مت۔ پورا حکم سن لو تب جواب دو۔ وہ لڑکا جس کو میں سڑک پر سے اٹھا لایا تھا۔ سول سرجن صاحب کی عنایت سے وہ اچھا تو ہو گیا۔ لیکن کبھی کبھی اسے مالیخولیا کا دورہ ہو جاتا ہے۔ آج صبح سے وہ پھر پاگل ہو گیا ہے۔ سامنے کی سڑک پر بھاگ گیا ہے۔ شاید لکھ پیڑے والے باغ میں ہوگا۔ جہاں تک ممکن ہو جلد اسے پکڑ لاؤ۔ بس فوراً جاؤ۔ تم خود جاؤ اور دو تین کنسٹبل لیتے جاؤ۔ چاہے کچھ بکے، ہرگز نہ چھوڑنا۔
ظالم سنگھ حکم پاتے ہی اپنے ساتھ دو کنسٹبل لے کر لکھ پیڑے کو گیا اور اس ہوشیاری سے اس نے رشید کو ڈھونڈنا شروع کیا کہ پتّا نہ کھڑکنے پاتا تھا۔ بد نصیب رشید تمام دن کی بھوک پیاس کی شدت اور ہاے واے کرنے کے سبب سے ایک درخت کے نیچے سر کے بل زمین پر پڑا تھا۔ ظالم سنگھ اور اس کے ہمراہیوں نے جلدی سے اس کو حراست میں لے لیا اور مارنا شروع کر دیا۔ رشید مار کھا کر چونکا تو اپنے کو پنجۂ الم میں گرفتار پایا۔ بہتیرا چلّایا، لاکھ قسمیں اور واسطے دلائے مگر ظالم سنگھ نے اپنے جھڑک کا بخار رشید پر نکال ہی لیا اور اس کی دہائی ایک نہ سنی۔ جب رشید مار کھا کر بالکل ادھ موا ہو گیا تو اس نے داد بیداد کرنا بھی بے کار سمجھ کر خاموشی اختیار کی اور پولیس کے برقندازوں کے ساتھ ڈپٹی صاحب کے پاس حاضر ہوا۔
ڈپٹی صاحب کے غصہ سے تو سواے اِس کے کہ وہ بھی زد و کوب کرتے کچھ امید نہ تھی لیکن خدا جانے کیا دل میں سوچے کہ بجاے تنبیہ کرنے کے اسے رات بھر کے لیے پولیس ہی کی زیر حراست رہنے دیا اور صبح سویرے ڈاکٹر پولیس سے کہہ سن کر اس کے پاگل ہونے کا سرٹیفکٹ لکھوا لیا اور بے یار و مدد گار رشید کو ان ترکیبوں سے پاگل خانہ بھجوایا۔
گرفتار بلا رشید کی قسمت نے اب تک اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ پاگل خانہ میں بھی ڈپٹی صاحب کے اشارہ سے اس کی گتیں بنائی جانے لگیں اور سختیوں پر سختیاں اس واسطے اس کے ساتھ کی گئیں کہ وہ شمیمہ کے ساتھ نکاح کرنا قبول کر لے۔ مگر رشید نے ہزار نہیں کی جو ایک نہیں کی تو پھر کسی طرح ہامی نہ بھری۔ اس کے نازک نازک ہاتھ پیر رسیوں کی بندشوں سے کٹ گئے، بیدوں کی مار سے اس کا تمام بدن نیلگوں ہو گیا، بھوک پیاس کی تکلیفیں سہتے سہتے وہ سوکھ کر کانٹا ہو گیا اور خلاف مزاج خوراک پانے سے اس کو ضعف معدہ کا سخت عارضہ ہو گیا جس کی وجہ سے وہ بہت سی سختیاں جھیلنے کے بعد پاگل خانہ سے شفا خانہ میں لایا گیا۔
ساتواں باب
شادی کی بات چیت
رات کی کالی رِدا آسمان نے سر سے تان لی۔ ستارے دانہ ہاے اشک کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ چاند پورب کی طرف سے اپنا بھوچکا زرد چہرہ نکالے ہوئے ڈرتا ہوا کسی کو تاک رہا ہے۔ پرند اپنے اپنے آشیانوں میں سو رہے ہیں۔ رات کی سنسناہٹ معمول سے بڑھتی جاتی ہے۔ چراغ ایک ایک کر کے گل ہو رہے ہیں۔ مکانوں میں شہر خموشاں کا عالم ہے لوگ پڑے نیندیں لے رہے ہیں۔ صرف پاسبانوں کی آواز البتہ آرہی ہے یا خاص خاص مقامات پر کہیں امرا کے یہاں جلسوں اور دعوتوں میں آدمی جگ رہے ہیں۔ شہر لکھنؤ کے مشہور محلہ نرہی میں سید مبارک صاحب کے مکان پر بھی باہر کے آدمی خدمت گار وغیرہ سو گئے ہیں لیکن سید صاحب اور ان کی بیوی بیٹھی ہیں۔ ان کی پیاری لڑکی زہرہ بھی ایک پلنگ پر لیٹی ہے۔ یہ دونوں سید و سیدانی تو یہ جانتے ہیں کہ وہ خواب میں ہے لیکن اس کے دل پر خدا جانے کیا صدمہ ہے کہ وہ کروٹیں بدل رہی ہے اور کسی کروٹ چین نہیں آتی۔ سید مبارک نے بیٹی کو سوتا خیال کر کے اپنی بیوی سے گفتگو شروع کی:
‘‘اناؤ سے چلے آج مہینہ بھر ہونے آیا اور اب تک کہیں تم نے اس کی بات چیت بھی نہ کی۔ واللہ اعلم تم کیا سوچی ہو۔ مجھ کو جتنی ہی عجلت ہے تم کو اتنی ہی سہولیت۔ آخر اس کی وجہ کیا؟”
زہرہ کی ماں: تمھاری باتیں تو دنیا سے نرالی ہیں۔ لڑکی لڑکا کا کام کچھ ہنسی ٹھٹھا ہے کہ منہ سے کہا اور ہو گیا۔ میں نے دو ایک جگہ ذکر کیا ہے، کہیں نہ کہیں سے کچھ جواب سوال ہو ہی گا۔
مبارک: وہ خدا جانے کب ہوگا۔
زہرہ کی ماں: جب ہو۔ میں علم غیب تو پڑھی نہیں ہوں۔
مبارک: پھر کیا تدبیر ہے؟
زہرہ کی ماں: تدبیر کی ایک ہی کہی۔ کیا میں خود کسی سے پیغام دوں۔ کہیں دنیا میں ایسا ہوا ہے کہ لڑکی والوں نے بات چیت کی ہے۔ پہلے لڑکے والا رقعہ پیغام کچھ بھیجتا ہے تب گفتگو کی جاتی ہے۔ یہ نہیں کہ بیٹی والے دہی لے دہی پکارتا پھرے۔ کیا تمھاری عقل ابھی سے سلب ہو گئی؟
مبارک: اس میں عقل سلب ہو جانے کی کون سی بات ہے۔ آدمی کوئی بات منہ سے صلاح کی نکالتا ہے تو اس سے الزام دینا منظور نہیں ہوتا کہ تمھاری طرح ہاتھ دھو پیچھے پڑ جائے۔
زہرہ کی ماں: پیچھے پڑنے کا کیا ذکر ہے۔ میں تو سیدھی سی بات کہتی ہوں کہ اب لوگوں کو معلوم ہوا ہے کہ لڑکی کا نکاح منظور ہے، دس پندرہ دن میں کہیں نہ کہیں سے پیغام ہی آوے گا۔ جلدی کیا ہے؟
مبارک: لیکن مجھے تو جلدی ہے۔
زہرہ کی ماں: اور تمھارے خلاف مجھ کو جلدی نہیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے میری زہرہ ایسی ہے کہ سیکڑوں پیغام دیں گے اور اچھے سے اچھے خواہش کریں گے۔ میں تم سے سچ کہوں تاکہ جب ایسا ہی داماد ملے گا تب میں شادی بھی کروں گی۔
للہ تم رات اس کا ذکر نہ کیا کرو۔ میری بچی سہمی جاتی ہے۔ تم کو ذرا اس کا پاس نہیں۔ اس نے رو رو کر دیدے سوجا رکھے ہیں۔ دور پار اس کے دشمنوں میں آدھا جان نہیں رہ گیا، میں تو دیکھ دیکھ کر گھلی جاتی ہوں۔
مبارک: شاید ایسا ہی ہو۔
زہرہ کی ماں: اس میں شاید کی کونسی بات ہے۔ میں تو دن رات کی دیکھنے والی ہوں۔ مجھ سے چھپا نہیں ہے۔ مجھ سے بڑھ کر کوئی اس کا حال کیا جانے (ٹھنڈی سانس لے کر) اف کیسی لاغر ہو گئی ہے۔
مبارک: لیکن میں تو اس کا سبب کچھ اور ہی سمجھتا ہوں۔
زہرہ کی ماں: نوج تم جانے کیا کہتے ہو؟
مبارک بیوی کو بد مزہ دیکھ کر آہستہ آہستہ کچھ کان میں کہنے لگا۔ پہلے تو وہ دیر تک سنتی رہی اور اس کے بعد بگڑ کر بولی: ‘‘نرا جھوٹ، بالکل تہمت۔ خدا کہنے والوں کا برا کرے۔ جنھوں نے یہ تہمت جوڑی، اِلٰہی ان پر اپنا غضب ڈھا”۔
مبارک: تم بالکل سڑن ہو گئی ہو۔ ذرا کچھ نیک و بد نہیں سمجھتیں۔ بس بک لگا دیتی ہو۔ (پھر آہستہ سے بہت دیر تک کچھ کان میں کہتا رہا)
زہرہ کی ماں: پھر اب کیا تدبیر ہے۔
مبارک: مجھ کو زہرہ یا رشید دونوں کی طرف ذرا سی بد گمانی نہیں ہے۔ میں نے پہلے ہی دن یہ حال سن کر اصل معاملہ کی جستجو کی تھی۔ کچھ تو گلابو نے بیان کیا اور کچھ حامد نے بتلایا۔ اس نظر سے کہ ہندوستان میں لڑکے لڑکیوں کو کچھ اختیار نہیں دیا گیا، چاہے جو سمجھا جائے۔ ورنہ میرے نزدیک اس میں ان کی راے کا لینا بہت ضروری ہے۔ لیکن چونکہ ان میں خفیہ خط و کتابت کی نوبت پہنچ گئی، اس وجہ سے مجھے گونہ خیال ہے مگر اس کی صفائی میرے دل سے اس طرح ہو جاتی ہے کہ یہ ان کی نا تجربہ کاری کی وجہ سے ہوا۔ کیونکہ ان خط و کتابتوں اور تمام حالات موجودہ پر نظر کرنے سے ذرا بھی بد دیانتی کا ثبوت کہیں نہیں ملتا۔ علاوہ اس کے یہ بات قبضۂ اختیار سے جا چکی اور نیک نیتی یا بد نیتی جس طرح سے ہو یہ واقعہ پیش آگیا۔ اب اس کا دفعیہ تو غیر ممکن ہے۔ رہی یہ بات کہ آئندہ کے واسطے کون سی صورت اختیار کی جائے؟ یہ امر البتہ غور طلب ہے۔ لیکن ان دونوں کی موجودہ دلی کیفیت پر خیال کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہ محبت کم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اگر اس وقت زبردستی زہرہ کا کہیں نکاح ٹھہرایا جاوے تو ممکن ہے کہ وہ نکاح کے وقت انکار کر دے جس میں سارے عالم میں میری رسوائی ہو یا یہ کہ وہ میرے دباؤ سے کر بھی لے اور بعد کو کوئی فتنہ پیدا ہو تو کیسی تکا فضیحتی ہو گی۔
زہرہ کی ماں: آخر تمھارا منشا کیا ہے؟
مبارک: سچ پوچھو تو میرا منشا خاص یہ ہے کہ ابھی بات چھپی تھی۔ اگر کسی طرح سے مولوی عبد المعز پیغام دیتے تو میں آنکھ بند کر کے رشید کے ساتھ شادی کر دیتا، زیادہ کاوش لا حاصل ہے۔
زہرہ کی ماں: لیکن اس کی کیونکر تقریب کی جائے؟
مبارک: تقریب کی کیا مشکل ہے۔ میں حامد سے باتوں باتوں میں کہہ گزذروں گا اور وہ مولوی صاحب سے کہیں گے تو فوراً مولوی صاحب پیغام دیں گے۔
زہرہ کی ماں: حامد کون ہیں؟
مبارک: رشید کے ہم سن دوست ہیں، بڑے لائق آدمی ہیں مگر رشید ان سے بھی بڑا لائق ہے۔ جمال بھائی کے دونوں لڑکے شاگرد ہیں اور دونوں میں بے انتہا محبت ہے۔ جن راجا صاحب کے مولوی عبد المعز نوکر ہیں وہ تو رشید کی لیاقت پر فریفہ ہیں۔ نہ معلوم کیا سبب ہوا کہ وہ اب تک نینی تال سے واپس نہیں آئے ورنہ رشید کی چھان بنان مچ جاتی۔
زہرہ کی ماں: پھر تامل تمھیں کیا ہے، کہتے کیوں نہیں۔ حامد سے کہنا تمھارا کام ہے۔ بار بار مجھ کو پریشان کرنے سے کیا حاصل؟
مبارک: میں صرف تمھارا منشا دریافت کرتا تھا۔ الحمد للہ کہ تمھاری راے میرے موافق ہے۔ مگر افسوس ہے کہ رشید مصیبت میں گرفتار ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔
زہرہ کی ماں: خدا نہ کرے، کس مصیبت میں گرفتار ہے، جلد بتاؤ۔ تم سے ہو سکے تو کچھ تدبیر کرو۔
مبارک: ڈپٹی احسان حسین اپنی لڑکی سے اُس کا نکاح کرنا چاہتے تھے، اس نے انکار کردیا (اسی پر تو انھوں نے یہ رقعہ مجھے دکھلا دیا تھا)، اس کا انکار کرنا تھا کہ ڈپٹی صاحب نا خوش ہوگئے۔ زبردستی گرفتار کرکے پاگل خانہ بھیج دیا۔ افسوس! غریب رشید کے ساتھ بڑی سختی کا برتاؤ کیا گیا۔ میں تابعداری کی وجہ سے کچھ دم نہ مار سکا۔ اس کے سواے وہاں کے رئیس اور پھر حاکم (دو باتیں) تھے میرا کیا اختیار چل سکتا تھا، خاموش ہو رہا۔ لیکن آج اخبار سے معلوم ہوا کہ ان کا تبادلہ میرٹھ کو ہو گیا ہے۔ اب جی میں آتا ہے کہ مولوی عبد المعز صاحب کو لے کر اناؤ جاؤں اور رشید کو چھڑا لاؤں۔
زہرہ کی ماں: صبح ہونے دو، تم فوراََ مولوی صاحب سے ملو اور کل ہی اناؤ جا کر رشید کو لے آؤ۔ جمال بھائی سے اور مولوی صاحب سے کیسی محبت ہے۔ ان کو معلوم ہو تو کیسا نا خوش ہوں۔ نوکری پر لات مار دو، استعفا لکھ کر بھیج دو۔ ساٹھ روپیہ مہینہ مکانات کی آمدنی اور بازار کی دکانوں کا کیا۔ یہ میرے تمھارے واسطے کافی ہے۔
مبارک: مجھ کو خود خفت ہے کہ مولوی صاحب کو حال معلوم ہو جائے تو خدا جانے مجھ سے کیسے مکدر ہوں۔ وہ دور کا سہی مگر میرے ان کے نانہالی رشتہ بھائی کا بھی ہوتا ہے۔ سچ پوچھو تو میں ان کو منہ دکھانے کے کام کا نہیں رہا۔ لیکن خیر صبح ان سے ضرور ملوں گا۔
اتنی باتیں کر کے میاں بی بی لیٹ رہے اور چونکہ قریب دو کے بج گئے تھے، سوئے تو ایسا بے خبری کی نیند کہ جب آفتاب نے نکل کر دھوپ کی چادر انھیں اڑھادی تب گرمی کی وجہ سے جاگے اور چٹ پٹ قضا نماز پڑھ کر زہرہ کی ماں تو کارِ خانہ داری میں مصروف ہوئی اور مبارک مطب موقوف کرکے گاڑی پر سوار ہو قیصر باغ کی طرف چلے۔
آٹھواں باب
ہم نشیں جب مرے ایام بھلے آئیں گے
بن بلائے وہ مرے گھر میں چلے آئیں گے
بخیر انجام ہوا
رشید کچھ نالائق جاہل بے وقوف بد وضع لڑکا نہ تھا کہ جس کا غم اس کے باپ کو نہ ہوتا اور حق تو یوں ہے کہ اولاد کیسی ہی ہو اس کا غم سب ہی کو ہوتا ہے۔ عبد المعز نے رشید کے بھاگنے والے دن کسی وجہ سے اس کے کمرہ کا معاینہ نہیں کیا۔ صبح کو نماز سے فراغت پاتے ہی وہ پیارے بیٹے کو دیکھنے چلا۔ کمرہ میں پہنچ کر رشید کے دروازہ کھول کر نکل بھاگنے کی اطلاع پا کر وہ بہت مضطرب ہوا۔ سارے شہر میں کئی دن تک تلاش کی۔ فیض آباد کو تار دیا، نینی تال بھی جوابی ٹیلی گرام دیا۔ مگر سب کہیں سے لاعلمی کا جواب آیا۔ جہاں تک اس کے امکان میں تھا ڈھونڈوایا مگر جب کہیں پتہ نہ چلا تو وہ تھک کر بیٹھ رہا۔ حامد بارہا ان سے ملا لیکن اپنی بدنامی کے خوف سے اس نے بھی کچھ ذکر رشید کا نہیں کیا مگر وہ خفیہ طور پر اناؤ گیا۔ وہاں ڈھونڈا اور جب کچھ سن گن نہ پائی تو پلٹ آیا۔
حامد کی محبت رشید کے ساتھ حد اعتدال سے بہت بڑھی تھی۔ اس وجہ سے حامد نے اخباروں میں اس کی گُم شدگی کے اشتہارات چھپوائے، سینکڑوں روپیہ اڈیٹروں کی نذر کیا لیکن سب بے سود ہوا۔ اور بموادے ‘‘کل امر مرہون باوقاتھا” کچھ پیش رفت نہ گئی۔ جس تاریخ کا ہم ذکر کر رہے ہیں اسی ہی تاریخ کے اخبار میں حامد نے یہ خبر چھپی ہوئی دیکھی:
‘‘اناؤ میں ایک نوجوان جو اپنا نام رشید اور وطن فیض آباد بتاتا ہے، پولیس ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ یہ شخص خلل دماغ کی وجہ سے پاگل خانہ بھیجا گیا تھا، وہاں کی سختیاں نہ برداشت کر سکنے کی وجہ سے سخت علیل ہے۔ صاحب کلکٹر نے اس کے جسم پر زد و کوب کے نشانات پا کر داروغہ پاگل خانہ کو ماخوذ کیا ہے۔ جدید سول سرجن کی راے ہے کہ یہ شخص عرصہ سے پاگل نہیں تھا اور نہ ایسا کوئی مرض اس کے دماغ میں پایا جاتا ہے۔ اس کو پاگل خانہ بھیجنے میں خدا جانے پولیس نے کون مصلحت دیکھی۔ یہ شریف نوجوان بے کسی اور غریب الوطنی کی حالت میں ایسی سخت بیماری میں گرفتار ہے۔ واللہ اعلم کوئی اس کے آگے پیچھے ہے یا نہیں۔ رحم دل کلکٹر کی توجہ اس طرف خاص مبذول ہے۔ صحت پانے پر شاید اس کے حالات کچھ زیادہ معلوم ہو سکیں”۔
اس کو پڑھتے ہی وہ مولوی عبد المعز کے پاس آیا اور ان کو بھی اخبار دکھایا۔ یہ راے قرار پائی کہ دو بجے کی میل ٹرین میں اناؤ چلنا چاہیے۔ حامد مولوی عبد المعز کے پاس ہی بیٹھا تھا کہ سید مبارک بھی آئے لیکن یہاں کے تذکرات سن کر وہ خاموش واپس چلے گئے۔ کچھ اچھا برا منہ سے نہیں نکالا۔ مولوی عبد المعز نے جلدی جلدی اناؤ کی روانگی کا سامان کیا۔ ساڑھے بارہ بجے آپ اور حامد کھانا کھا کر نمازِ جمعہ کو گئے، وہاں سے پلٹ کر بس سیدھے ریلوے اسٹیشن کو روانہ ہوئے اور اناؤ کا ٹکٹ لے کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ خدا خدا کر کے اناؤ اسٹیشن پر اترے اور بلا کسی سے ملے جلے براہ راست پولیس ہسپتال کو گئے۔ رشید کی طبیعت آج بالکل اچھی تھی۔ ضعیف و لاغر تو تھا مگر چوٹ چپیٹ کا اثر تک باقی نہ تھا۔ ڈاکٹر سے مل کر اور کچھ خرچ کر کے عبد المعز و حامد رشید سے ملنے کو اس کی بارک میں گئے۔ چونکہ عصر کا وقت آچکا تھا۔ رشید نمازِ عصر پڑھ کر دعا کے لیے سجدہ میں سر جھکائے مناجات کر رہا تھا: ‘‘خدایا! کاش ایک مرتبہ بھی میری دلی تمنا پوری ہو جاتی۔ کاش میرے والدین اور میری زہرہ کو مجھ پر رحم آجاتا۔ پروردگار! تو عالم و دانا ہے کہ میں نے ذرا بھی بد نیتی نہیں کی۔ نہ معلوم میرے والد مجھ سے کیوں ناخوش ہو گئے۔ اگر میری تقدیر میں زہرہ کا ملنا مقدر نہیں ہے تو خداوندا میری جان کو لے لے اور مجھے ان مصائب و آفات سے نجات دے۔ لیکن بار الہا! اپنی بڑی وسیع رحمت سے اتنا کر کہ ایک بار آخری وقت میں مجھے میرے باپ کی زیارت نصیب ہو جائے اور میں ان سے اپنا قصور دریافت کر کے بخشوالوں”۔
رشید کی فریاد و زاری سن کر حامد و عبد المعز رونے لگے اور دونوں اس سے لپٹ گئے۔ رشید بھی ان کو دیکھ کر خوب ڈھاڑیں مار مار رویا۔ یہ تینوں آدمی اس طرح سے روئے کہ ڈاکٹر خود دوڑا آیا اور بمشکل تینوں کو خاموش کرا کر حال پوچھا۔ حامد نے گول مال کر کے حالات بیان کیے اور یہ ظاہر کیا کہ رشید باپ کی ناخوشی کا خوف کر کے گھر سے بھاگ آیا تھا لیکن بجاے اس کے کہ بھاگنے سے اسے مفر ہوتا، اور مصیبت میں مبتلا ہو گیا۔ اس کے بعد حامد نے رشید کے خلاص کی درخواست کی جس کو ڈاکٹر نے دوسرے دن پر محوّل رکھا اور اگلی صبح کو رشید بخیر و خوبی شفا خانہ سے آزاد ہو کر اپنے باپ اور دوست کے ساتھ لکھنؤ آیا۔
ہم یہ لکھنا بھول گئے کہ رشید کی مفقود الخبری کے ایام میں حامد نے مفصل حالات مولوی عبد المعز صاحب سے کہہ کر ان کو اس بات پر آمادہ کر لیا تھا کہ وہ رشید کی نسبت کا زہرہ کے ساتھ پیغام دیں۔ اب لکھنؤ پہنچنے کے دوسرے ہی دن حامد نے مولوی صاحب سے اس کا تقاضا کیا اور اس کے تقاضوں سے تنگ آکر مولوی صاحب نے خواجہ جمال سے اس کا ذکر چھیڑا۔ خواجہ صاحب رشید کو ہزار جان سے چاہتے تھے، انھوں نے بڑی عجلت و مستعدی سے اس کام میں کوشش کی۔ سید مبارک کو تو دل و جان سے منظور تھا لیکن اتنی شرط ان کی طرف سے پیش کی گئی کہ رشید ان کے گھر پر رہے جس کو مولوی عبد المعز نے بخوشی خاطر منظور کر لیا۔
رشید اول تو خود اعلی خیالات کا آدمی تھا، دوسرے مولوی عبد المعز بھی ایسے ہی دماغ کے تھے اور خواجہ جمال کی وجہ سے سید مبارک بھی انھیں کے مقلد بن گئے اور تکلفات دنیاوی کو بالاے طاق رکھ اگلے جمعہ کو مطابق شرع شریف رشید و زہرہ کا نکاح ہوا اور اسی طرح وہ دونوں کشتگانِ خنجرِ عشق اپنی مراد کو پہنچے۔
ختم شد
اراکین مجلس ادبیات عالیہ
اردو کے مخلص، سچے اور بے لوث خادم جنھوں نے اردو ادب عالیہ کی یونی کوڈ سازی میں اپنا تعاون پیش کیا
آصف انظارندوی،کانپور
ابو ذر قوی،لکھنؤ اسامہ احمد ندوی، بھٹکل اسامہ نفیس، لکھنؤ اقبال احمد ندوی،سہرسا الشفاء انعام الحق ندوی، بھٹکل اوشو، مشرقِ وسطیٰ ایس ایس ساگر تفسیر حسین، دہلی ثقلین حیدر، دہلی ثمرین زارا جاسمن، کراچی راشد مرتضیٰ، سیتامڑھی سحر عرف محمل ابراہیم رشیدہ رومی سفیان الحسینی،لکھنؤ سمعان خلیفہ ندوی،بھٹکل سمیع اللہ خاں، کوکن سیما علی شعیب گناترا |
شفیع اللہ خان، بالاپور
شمشاد، سعودی عرب صابرہ امین طلحہ نعمت عاطف علی،سعودی عرب عبد الحمید اطہرندوی، بھٹکل عبد الرحمن، دہلی عبد الرؤوف عبدالصمد چیمہ عبد القادر، بھوپال عبد اللہ نیموی، بیگوسرائے عبد المعید خاں ندوی، ممبئی عبید رضا، پنڈی گھیپ عزیر فلاحی، بھوپال عطاء اللہ سنجری،کیرالا علقمہ فضل الرحیم، دہلی فیصل انس، حیدرآباد فرحت کیانی فرید الحسن، کراچی قرۃ العین اعوان گل یاسمیں، اسکینڈی نیویا
|
لا ایلما
محب علوی، لاہور محمودالرحمن، دیوبند میر عابد علی، میدک محمد عاکف، بھٹکل محمد شاہد خان، لکھنؤ محمد اکرم قاسمی، ناگپور محمد راشد ندوی، امراؤتی وصی اللہ، بہرائچ محمد ندیم ندوی، امراؤتی ملک احمد ندوی، لکھنؤ محمد عامر ندوی، ودیشا محمد ابان، بھٹکل محمد محسن خاں ندوی، کلکتہ محمد زید، بہرائچ محمد اطہرندوی، مالیگاؤں محمد عمر، انگلستان محمد عدنان اکبری نقیبی مومن فرحین مقدس، انگلستان ماہی احمد نور وجدان |