تا درِ جاناں ہمیں اول تو جانا منع ہے
اور گئے تو حلقۂ در کا ہلانا منع ہے
حلقۂ در گر ہلایا بھی تو بولے کون ہے
اب بتائیں کیا کہ نام اپنا بتانا منع ہے
نام بتلایا جو میں نے تو وہ سن کر چپ رہے
پھر پکاریں کس طرح سے غل مچانا منع ہے
غل مچا کر گر پکارا بھی تو جھنجھلا کے کہا
جاؤ کیوں آئے تمھیں گھر میں بلانا منع ہے
اور بلایا بھی تو پھر جائیں وہاں ہم کس طرح
وہ جہاں ہیں ہم کو واں تک بار پا نا منع ہے
بار پا کر کچھ اگر چہ ہم گئے بھی واں تلک
آنکھ اٹھا کر کیونکہ دیکھیں آنکھ اٹھانا منع ہے
سامنے وہ بھی کسی صورت سے گر آئے تو پھر
بولنا ہنسنا تو کیا واں مسکرانا منع ہے
مسکرائے بھی توکچھ چپکے ہی چپکے غنچہ وار
دل میں کیا کیا مدعا اور لب ہلانا منع ہے
لب ہلائے بھی تو کی کچھ بات منہ سے اور ہی
پڑھنا ہر مطلب پہ شعرِ عاشقانہ منع ہے
عاشقانہ شعر بھی کوئی پڑھا تو پڑھ کے پھر
آہ بھرنا منع ہے آنسو بہانا منع ہے
آہ بھر کر کچھ اگر آنسو بہائے بھی تو پھر
وہ جو دل کی بات ہے اس کا جتانا منع ہے
بات گر دل کی جتائی بھی تو پھر ہوتا ہے کیا
اے ظفرؔ ایسی جگہ دل ہی لگانا منع ہے