آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنھیں رسمِ دعا یاد نہیں
ہم جنھیں سوزِ محبت کے سوا
کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں
آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی
زہرِ امروز میں شیرینئ فردا بھر دے
وہ جنھیں تابِ گراں بارئ ایام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے
جن کی آنکھوں کو رخِ صبح کا یارا بھی نہیں
ان کی راتوں میں کوئی شمع منور کر دے
جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں
ان کی نظروں پہ کوئی راہ اجاگر کر دے
جن کا دیں پیروئ کذب و ریا ہے ان کو
ہمتِ کفر ملے جرأتِ تحقیق ملے
جن کے سر منتظرِ تیغِ جفا ہیں ان کو
دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
عشق کا سرِ نہاں جانِ تپاں ہے جس سے
آج اقرار کریں اور تپش مٹ جائے
حرفِ حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے