مے کشو مے کی کمی بیشی پہ ناحق جوش ہے
یہ تو ساقی جانتا ہے کس کو کتنا ہوش ہے
کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
پاک بازانِ محبت دامن آلودہ نہیں
خشک لب ساحل ہے گو دریا سے ہم آغوش ہے
غرق کر دیتی ہے کشتی نا خدا کی بے خودی
چھوڑ دے وہ مےکدہ ساقی جہاں مدہوش ہے
ابتدا سے آج تک ناطقؔ کی ہے یہ سرگزشت
پہلے چپ تھا پھر ہوا دیوانہ اب بےہوش ہے