وزن کے تصور کو سمجھتے ہی پہلا خیال جو عموماً پرجوش مبتدیوں کے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی الم غلم، آڑھا ترچھا فقرہ پکڑ کے اس کے برابر فقرے گھڑنے شروع کر دیے جائیں تو گویا غزل یا نظم ہو جائے گی۔ ممکن ہے کہ کچھ منتہی بھی یہی خیال رکھتے ہوں اور اس کا دفاع فرمانا چاہیں مگر ہم نے ایک گزشتہ مضمون میں اپنا یہ موقف واضح کر دیا ہے کہ بحر محض وزن کا نہیں بلکہ ایک دل پسند اور خوش آیند آہنگ کا نام ہے۔ نیز ہماری شاعری کی روایت محض اینڈے بینڈے، من چاہے اوزان پر نہیں بلکہ ٹھیک ٹھاک مترنم، مطبوع اور خوش آہنگ بحور کی مستحکم جمالیاتی بنیاد پر قائم ہے۔
اس مضمون میں ہمارے مخاطب اصلاً مبتدی ہیں مگر ہمارا خیال ہے کہ اعلیٰ تر مدارج کے سخن سنجوں کو بھی اس سے زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ فائدہ ان شاءاللہ ہو گا۔ بہرحال، ہے یوں کہ ذیل میں ہم اردو کی معروف و مقبول بحور کا ایک خاکہ پیش کرنے جا رہے ہیں جو اردو شاعری کے نئے طبع آزماؤں کے لیے لائحۂِ عمل کا کام دے گا۔ اس خاکے کی چیدہ چیدہ خصوصیات اور اس سے استفادے کے قواعد حسبِ ذیل ہیں:
- بحور کو پانچ درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مبتدی کو چاہیے کہ ترتیب کا خاص خیال رکھے۔ پہلے درجے سے پہلے دوسرے کو نہ چھیڑے اور دوسرے سے پہلے تیسرے کو۔ وعلیٰ ہٰذا القیاس درجوں کے اندر بھی کسی بحر کی مشق کی جانب تبھی متوجہ ہو جب اس سے پہلی بحور پر مہارت حاصل کر لے۔
- ایک وقت میں ایک ہی بحر کی مشق کی جائے۔ دو تین یا زیادہ اوزان کے بکھیڑے پال لینا نہ صرف یہ کہ آپ کو فائدہ نہیں دے گا بلکہ اللہ نے چاہا تو کچھ نہ کچھ نقصان ہی کرے گا۔
- ابتدائی دو درجوں کی ہر بحر میں عروضی نقائص سے پاک کم از کم تین سو اشعار کہنے کے بعد اگلی بحر پر توجہ کرنی چاہیے۔
- اگلے درجوں کی ہر بحر میں کم از کم دو دو سو اشعار کہے جائیں۔
- ہر رکن کا وزن یعنی اس میں حرکات و سکنات کی ترتیب آخر میں ایک کلید میں مندرج ہے۔ کسی بھی بحر کے ارکان اور آہنگ کو ٹھیک طرح سے سمجھنے کے لیے اس سے رجوع کیجیے۔
- بعض بحریں ایک سے زیادہ یعنی متبادل اوزان رکھتی ہیں جو باہمدگر مساوی تسلیم کیے جاتے ہیں۔ انھیں ہم نے قوسین میں درج کر دیا ہے۔
- بحور کے نام دانستہ درج نہیں کیے گئے۔ اول تو یہ کہ ہم عروض کے موجودہ نظامِ زحافات اور تسمیہ سے مطمئن نہیں اور دوم یہ کہ اگر خود پر جبر کر کے مروجہ نام لکھ بھی دیے جائیں تو یہ مبتدیوں کے لیے ایک قہر سے کم نہ ہو گا۔ عملی طور پر ہمارا کام یوں بھی صرف آہنگ سے متعلق ہے سو بالفعل ان کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے۔
- آہنگ ایسی شے ہے کہ اس کی نشے کی طرح لت پڑ جاتی ہے۔ لہٰذا مشق کے دوران میں کسی بھی بحر پر مجوزہ دورانیے سے زیادہ ٹکنے سے گریز کیا جائے۔ اندیشہ ہے کہ اس طرح باقی اوزان سے توجہ ہٹ سکتی ہے جس کا نقصان بدیہی ہے۔
- پانچوں درجوں کی مشقِ سخن کر چکنے کے بعد متعلم مناسب سمجھے تو غیرمتداول اور نئے اوزان پر توجہ کرنے میں آزاد ہے۔ ہم نے بہت سی بحور جو قدما کے تصرف میں رہی ہیں اور بعض جو آج بھی کم و بیش رائج ہیں درج نہیں کیں۔ ان کے آہنگ کا ادراک اور انتخاب آخری درجے کا طالبِ علم خود کر سکتا ہے۔
- یہ نقشہ اساتذہِ فن اور ماہرینِ عروض سے حتی المقدور کسبِ فیض اور عروض کی تعلیم و تدریس کے ایک طویل تجربے کے علاوہ بساط بھر ذاتی دماغ سوزی, تدبر اور اجتہاد کا بھی نتیجہ ہے۔ ہم نے جو سمجھا ہے وہ حتمی نہیں ہے اور اس میں حسبِ ضرورت ترمیم کی جا سکتی ہے۔ تاہم ہمیں امید ہے کہ اس کاوش کی یہ حیثیت اہلِ نظر تسلیم کریں گے کہ بےاستاد مبتدیوں کے لیے بہت سے غیرضروری تجربات اور لاحاصل خطاؤں سے بچنا حتی الوسع ممکن بنا دیا گیا ہے۔
- آخری اور اہم ترین بات۔ علم کی کنجی پےدرپے سوال نہیں بلکہ استقلال، ضبطِ نفس اور صبر ہے۔ جلدبازی اور بےصبری کی مثال طالبِ علم کے لیے یوں ہے جیسے کوئی اتاؤلا کچے پھلوں کو پیڑ پر پتھر مار مار کر گرا تو لے مگر پھر نہ بھوک مٹا پائے اور نہ خود کو بدہضمی سے بچا سکے۔ اس کی نسبت پھل کے پک کر گرنے کا انتظار کرنا اور پیڑ کے نیچے جھولی پھیلا کر بیٹھ رہنا کہیں زیادہ بہتر ہے۔ یہی رزق ہے، یہی علم ہے اور یہی وہ ایمان ہے جس سے جلد باز اور گستاخ بیشتر بےنصیب رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا عجلت، تیزی اور شوخی کے پھندے میں ہرگز ہرگز ہرگز مت آئیے گا اور جھولی پھیلانے کی طرح جو کام آپ کا ہے صرف اسی پر توجہ مرکوز رکھیے گا۔
خطبہ ختم اور کام شروع!
اردو شاعری کی متداول بحور بلحاظِ مشقِ سخن
درجۂِ اول
- مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
- فعولن فعولن فعولن فعولن
- فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
- مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن
- مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن
درجۂِ دوم
- مفاعیلن مفاعیلن فعولن (مفاعیل)
- فعولن فعولن فعولن فعل (فعول)
- فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن (فاعلات)
- فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن
- فاعلن مفاعیلن (مفاعیلان) فاعلن مفاعیلن (مفاعیلان)
درجۂِ سوم
- مفعول فاعلاتن (فاعلاتان) مفعول فاعلاتن (فاعلاتان)
- مفعول مفاعیلن (مفاعیلان) مفعول مفاعیلن (مفاعیلان)
- متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن
- مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن
- فعلات فاعلاتن (فاعلاتان) فعلات فاعلاتن (فاعلاتان)
درجۂِ چہارم
- مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن (مفاعیل)
- مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن (فاعلات)
- فاعلاتن (فعلاتن) مفاعلن فعلن (مفعول، فعلت، فعلات)
- مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن (مفعول، فعلت، فعلات)
- فاعلاتن (فعلاتن) فعلاتن فعلاتن فعلن (مفعول، فعلت، فعلات)
درجۂِ پنجم
- مفتعلن مفاعلن (مفاعلان) مفتعلن مفاعلن (مفاعلان)
- مفتعلن فاعلن (فاعلات) مفتعلن فاعلن (فاعلات)
- مفعول مفاعلن (مفعولن فاعلن) فعولن (مفاعیل)
- فاع فعولن فاع فعولن فاع فعولن فاع فعولن (مفاعیل)
- مفعول فعل مفعول فعل مفعول فعل مفعول فعل (فعول)
ارکان (افاعیل) کے وزن یا حرکات و سکنات کی کلید
سہ حرفی ارکان
- فَاعْ
- فَعَلْ
چہار حرفی ارکان
- فَعِلَتْ
- فِعْلُنْ
- فَعُولْ
پنج حرفی ارکان
- فَاعِلُنْ
- فَعِلَاتْ
- فَعُولُنْ
- مَفْعُولْ
شش حرفی ارکان
- فَاعِلَاتْ
- فَعِلَاتُنْ
- مَفَاعِلُنْ
- مَفَاعِیلْ
- مُفْتَعِلُنْ
- مَفْعُولُنْ
ہفت حرفی ارکان
- فَاعِلَاتُنْ
- مُتَفَاعِلُنْ
- مُسْتَفْعِلُنْ
- مَفَاعِلَانْ
- مُفَاعِلَتُنْ
- مَفَاعِیلُنْ
ہشت حرفی ارکان
- فَاعِلَاتَانْ
- مَفَاعِیلَانْ