آگ انسان کی قدیم ترین ساتھی ہے۔ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو اس کے مختلف رنگوں سے واقف نہ ہو۔ ہم عموماً اس سے خوف کھاتے ہیں مگر کیا کیجیے کہ ہماری زندگی تمام تر اسی کی مرہونِ منت ہے۔ کھانے پکانے سے لے کر ہواؤں میں اڑنے تک جلنے کا عمل سانس کی طرح انسان کے ساتھ ہے۔ بلکہ سائنس کی رو سے تو خود سانس لینا بھی جلنے ہی کی ایک صورت ہے۔
وہ زبان جسے ہم اردو یا ہندی کہتے ہیں، جلنے کے عمل کو چار مختلف درجوں پر بیان کر سکتی ہے۔ آپ ان سب سے واقف ہیں مگر شاید وہ تفصیلات جو ہم پیش کرنے جا رہے ہیں، آپ کے لیے نئی اور دلچسپ ہوں۔ آئیے، دیکھتے ہیں کہ آگ کے لیے اردو زبان کے یہ چار شاندار الفاظ کیا ہیں۔
سلگنا
سلگنا آگ کا سب سے مدھم اور لطیف درجہ ہے۔ اس سطح پر چیزیں جلتی تو ہیں مگر آگ نظر نہیں آتی۔ اندر اندر راکھ کرتی جاتی ہے۔ چنگاریاں یا شعلے نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ اس لیے سلگتی ہوئی چیزوں کی آنچ کم ہوتی ہے۔ مگر دھواں اس درجے پر عموماً بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر بتیاں اور لوبان وغیرہ سلگائے جاتے ہیں۔ اس عمل کو دھونی دینا کہتے ہیں۔ تمباکو بھی سلگایا جاتا ہے کیونکہ اس کا دھواں کھینچنا مقصود ہوتا ہے۔ سلگنے سے روشنی نہ ہونے کے برابر پیدا ہوتی ہے اور اندھیرے میں اس کا سراغ لگانا مشکل ہو سکتا ہے۔
پھر ہوا سے سلگ اٹھے پتے
پھر دھواں گلستان سے نکلاشکیبؔ جلالی
دہکنا
یہ سلگنے سے اگلا درجہ ہے۔ دہکنے میں آگ کا دھواں کم ہو جاتا ہے اور چنگاریاں اور شعلے نکلنے لگتے ہیں۔ دہکتی ہوئی چیز کا رنگ سرخ ہو جاتا ہے۔ انگارا اسی کیفیت سے تعلق رکھتا ہے۔ چنانچہ جذبات کی شدت وغیرہ سے چہرہ سرخ ہو جانے کو بھی استعارتاً دہکنا کہتے ہیں۔ دہکتی ہوئی آگ پوری آگ تو نہیں ہوتی مگر اس کی تپش نسبتاً دور سے محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ عمل خاصی روشنی پیدا کرتا ہے اور اندھیرے میں آسانی سے نظر آتا ہے۔ اس درجے کی آگ کو ہم عام طور پر چیزوں کو گرم کرنے، سردی میں ماحول کو معتدل رکھنے اور ہاتھ پاؤں وغیرہ سینکنے کے لیے بروئے کار لاتے ہیں۔
روشن جمالِ یار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتشِ گل سے چمن تمامحسرتؔ موہانی
جلنا
جلنا آگ کی تکمیل ہے۔ اس صورت میں چنگاریاں تقریباً ختم ہو جاتی ہیں اور شعلے بلند ہونے لگتے ہیں۔ حرارت دور تک پہنچتی ہے اور زبردست روشنی پیدا ہوتی ہے۔ شمع، چراغ اور مشعل وغیرہ کے لیے اسی وجہ سے جلنے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس عمل میں چیزوں کے راکھ ہونے کی رفتار خاصی تیز ہوتی ہے اور جلتی ہوئی چیز کا نقصان یقینی ہوتا ہے۔ حسد، بغض اور غصے وغیرہ کے لیے بھی یہ لفظ اسی تناظر میں برتا جاتا ہے۔ کھانا تیار کرنے، روشنی کرنے، چیزیں پگھلانے اور تلف کرنے، اور میکانکی اور صنعتی سرگرمیوں وغیرہ میں زیادہ تر اسی سطح کی آگ سے کام لیا جاتا ہے۔
جلتے دیوں میں جلتے گھروں جیسی ضو کہاں
سرکار روشنی کا مزا ہم سے پوچھیےخمارؔ بارہ بنکوی
بھڑکنا
بھڑکنا آگ کا سب سے بلند اور خطرناک درجہ ہے۔ شعلے اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ جاتے ہیں۔ حرارت اور روشنی ناقابلِ برداشت ہونے لگتے ہیں۔ دھواں آسمان کو چھونے لگتا ہے۔ یہ آگ کی وہ سطح ہے جس پر قابو پانا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ یہ نہایت تیزی سے پھیلتی ہے اور ان چیزوں کو بھی لپیٹ میں لے سکتی ہے جن کا جلانا مقصود نہیں ہوتا۔ لہٰذایہ لفظ آگ کے عام زندگی سے متعلق استعمالات کے بارے میں نہیں بولا جاتا۔ البتہ عمارات یا چیزوں کو غیر ارادی طور پر آگ لگ جانے، الاؤ روشن ہونے اور نقصان ہونے وغیرہ کے تناظر میں اس کا استعمال عام ہے۔ چونکہ آگ بھڑک اٹھنے پر عموماً انسان کے اختیار سے نکل جاتی ہے لہٰذا غصے، نفرت یا دوسرے جذبات کی شدت ظاہر کرنے کو بھی مجازاً بھڑکنے سے تعبیر کرتے ہیں۔
اس نے اچھا ہی کیا حال نہ پوچھا دل کا
بھڑک اٹھتا تو یہ شعلہ نہ دبایا جاتاالطاف حسین حالیؔ
ہمیں امید ہے کہ آگ کے الگ الگ درجوں کو بیان کرنے والے یہ چار مصادر آپ کے لیے دلچسپ ثابت ہوئے ہوں گے۔ ہمارے ساتھ رہیے اور ساتھ نبھاتے رہیے۔