یہ زندگی کا عجیب مرحلہ ہے کہ اچھے آدمیوں کی جستجو ختم ہو گئی ہے۔ باوفا دوست نہیں چاہئیں۔ پارسا رہبروں کی خواہش نہیں رہی۔ حسین لوگوں سے عشق نہیں کرنا۔ اہلِ علم کی صحبتوں سے گریز ہے۔ اور اس سب کی ایک وجہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ آدمی باوفا نہیں ہوتا۔ پارسا نہیں ہوتا۔ حسین اور عالم نہیں ہوتا۔ صرف بن کر دکھاتا ہے۔
اب اس کی تمنا ہے جسے بن کر دکھانے کی تمنا نہ ہو۔ وہ عام ہو اور عام ہونے پر راضی۔ تھوڑا دھوکے باز، تھوڑا گناہگار، تھوڑا بدصورت، تھوڑا بےوقوف!
غلط ہونا آدمی ہونے کی دلیل ہے۔ آدمی خود کو صحیح ثابت کرتے کرتے آدمیت سے بہت دور جا پڑا ہے۔
خاص لوگ بہت زیادہ ہو جائیں تو عام ہو جاتے ہیں۔ پھر عام لوگوں کی تلاش پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ خاص ہو جاتے ہیں۔ ڈھونڈے نہیں ملتے!
گفتند یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست(رومیؔ)
کہنے لگے، نہیں ملتا۔ ہم ڈھونڈ چکے۔ کہا، جو نہیں ملتا اسی کی آرزو ہے۔