میں نے اس موضوع پر گزشتہ گفتگو میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی کہ موجودہ تعلیم آجر اور ماجور کے درمیان اجرت طے کرنے کے ایک پیمانے سے زیادہ کسی حیثیت کی حامل نہیں ہے۔ نیز یہ کہ ماجور کو ہمیشہ کمزور اور محکوم رکھنے کے لیے تعلیم کے نظام کو مصنوعی تنفس کی طرز پر استوار کیا گیا ہے جو کبھی بھی فرد کو زندگی کے حقائق سے ان کی اصلی اور کلی حیثیت میں آگاہ نہیں ہونے دیتا اور بالخصوص اوائلِ عمری میں تادیب سے گریز کرتا ہے تاکہ فرد خود اپنی جبلتوں اور جذبات کا اسیر ہو کر رہ جائے اور کبھی خلافت و نیابتِ الہیٰ کے اس منصب کا سزاوار نہ ہو سکے جس تک رسائی محدود کرنے میں طاغوت ازل سے سرگرم اور کامیاب رہا ہے۔ آج کچھ باتیں اور کہنے کا ارادہ ہے جو اس مسئلے کے دوسرے رخ سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی فرد اور معاشرے کے پاس ذاتی اور اجتماعی سطح پر تعلیم کو حتی الوسع بہتر کرنے کے کیا چارہ ہائے کار موجود ہیں اور ان کے کیا منطقی نتائج ہونے چاہئیں۔
طبِ یونانی وغیرہ کے حکما کے ہاں ایک مقولہ معروف ہے جو اصلِ اصول کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ طبیب کا کام علاج کرنا نہیں بلکہ محض علاج میں فطرت کی معاونت کرنا ہے۔ علاج تو فطرت خود کرتی ہے۔ یہ بڑی بصیرت کی بات ہے۔ آپ غور کریں گے تو معلوم ہو گا کہ نظامِ ہست و بود کی کوئی بھی بڑی ذمہ داری فطرت نے ہم پر نہیں ڈالی۔ خواہ انسان کے بطون کی دنیا ہو خواہ اس کے وجود سے باہر کا عالم، تمام بڑے بڑے اور اہم اہم کام خودبخود ہوتے رہتے ہیں۔ ستاروں کی چال سے لے کر دل کی دھڑکن تک ہم کسی بھی کارروائی کے مسئول نہیں۔ سانس خودبخود چلتی ہے، خون خودبخود دوڑتا ہے، کھانا خودبخود ہضم ہوتا ہے،ذہن خودبخودکام کرتا ہے، پیدا اپنی ذمہ داری کے بغیر ہوتے ہیں اور مر اپنے اختیار سے ماورا جاتے ہیں۔ یہ تو بہت چھوٹے چھوٹے کام ہیں جن کا بار خلیفۃ اللہ علیہ الرحمۃ کے کاندھوں پر ڈالا گیا ہے۔ مثلاً یہ کہ سانس کے ساتھ آس بھی قائم رکھو۔ خون سفید نہ ہونے دو۔ حق نہ کھاؤ۔ وساوس کو افکار نہ بننے دو۔ جیو اور جینے دو۔ مرنے سے پہلے مرنے کو تیار رہو۔ وغیرہ وغیرہ۔
یہی معاملہ تعلیم کا بھی ہے۔ استاد کسی کو تعلیم نہیں دیتا۔ زندگی خود سب سے بڑی معلم ہے۔ زندگی ہی تعلیم دیتی ہے اور زندگی ہی کے بارے میں تعلیم ہوا کرتی ہے۔ استاد محض سیکھنے سکھانے کے اس عمل میں معاونت کرتا ہے۔ ننھے بچے کے ٹھوکر کھا کر گرنے سے لے کر ایک نوجوان طالبِ علم کے عشق میں گرفتار ہونے تک سب کچھ درحقیقت زندگی اور زندگی کی تعلیم کے مختلف صیغے ہیں۔ استاد یہ سب کچھ نصاب اور کتاب کی مدد سے پڑھا نہیں سکتا۔ وہ بس ایک کام کر سکتا ہے۔ معاونت۔
یہ معاونت کیا ہے؟ میں جہاں تک سمجھا ہوں استاد اور والدین کا اصل کام یہ ہے کہ وہ موم کی طرح نازک بچے کو پتھر بنا دیں۔ اسے لپیٹ لپیٹ اور سینت سینت کر رکھنے کی کوشش کرنے والے محض احمق ہیں۔ زندگی جلد یا بدیر انسان پر اپنی حقیقی صورت میں وارد ہو جاتی ہے۔ تب اس موم کے باوے کو پگھل پگھل کر فنا ہوتے دیکھنے سے بدرجہہا بہتر ہے کہ شروع ہی سےہر قسم کے غیرمتوقع حالات کی حتی المقدور پیش بندی کر لی جائے۔ اور یہ سخت نظم و ضبط اور ذہنی و جسمانی جفاکشی کو معیارِ زندگی بنا لینے ہی سے ممکن ہے۔
گویا استاد کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بچے پر اتنی جفا کرے کہ زندگی نہ کر سکے۔ یا کرے بھی تو بچہ سہہ کر بچ نکلنے کے قابل ہو۔ یہ بظاہر ظلم معلوم ہوتا ہے مگر طبیب کے نشتر کی طرح اس سے بڑی اور حقیقی خیرخواہی کسی انسان کی انسان سے ممکن نہیں۔ لوگ بچوں کی نازک اندامی اور معصومت پر ترس کھاتے ہیں اور ان پر سختی سے گریز کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ غیرضروری نرمی کی عادت بچوں کے لیے افیون سے کم نہیں۔ جلد وہ وقت آئے گا کہ زندگی یہ نشہ پورا نہ کر سکے گی اور جوان افیونچیوں کی طرح تڑپیں گے، بل کھائیں گے، محنت کی چوری کریں گے، لطف کی بھیک مانگیں گے۔ رعایات کی لت پوری نہ ہو گی تو دنیا و مافیہا کو دھتا بتا کر اوندھے منہ پڑ رہیں گے۔ اپنے ہذیان کو فلسفۂِ حیات سمجھیں گے اور موت کی آغوش میں غنودہ ہوتے چلے جائیں گے۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ غلط فہمی بھی خدا نے کیا چیز پیدا فرمائی ہے۔ لوگ ان ان باتوں کو الٹا سمجھتے ہیں جن سے زیادہ سیدھا کچھ نہیں ہو سکتا۔ وہ یہ تو دیکھتے ہیں کہ بچے کا بدن نازک اور ہاتھ پاؤں گداز ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ وہ گرتا ہے تو ہم بالغوں کی طرح نہیں جن کے اپنے ہی بوجھ سے ان کی ہڈیاں چور ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے بلکہ اس روئی کے گالے کی طرح جسے ہوا اچھال اچھال کر ایک سے دوسری جگہ پھینک رہی ہو۔ انسان کے جسم میں سب سے زیادہ مدافعت اور لچک بچپنے ہی میں ہوتی ہے۔ اور پھرصرف جسم نہیں ذہن میں بھی۔ بچے کا دماغ ایک دن میں جتنی وسعت پکڑتا ہے بالغ کا شاید سال بھر میں بھی اتنی ترقی نہ کرتا ہو۔ آپ دیکھتے نہیں کہ کیسے ایک اجنبی روح اس دنیا کے حوادث و سوانح کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتی ہے اور چند سالوں کے اندر اندر ان سے کافی حد تک نمٹنے کی صلاحیت پیدا کر لیتی ہے؟ آپ کو کسی دوسری کائنات میں یونہی بےزبان، محتاج و مفلوج کر کے چھوڑ دیا جائے تو آپ اتنی مدت میں اتنا کچھ کر سکیں گے؟ کبھی نہیں۔
شاید آپ کو حیرت ہو مگر یہ تعلیم ہی ہے جو تعلیم کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہم جوں جوں سیکھتے جاتے ہیں قانع ہونے کا رجحان بڑھتا جاتا ہے۔ رائے ٹھوس اور مستحکم ہوتی جاتی ہے۔ بدن اور دماغ کی لچک گھٹتی جاتی ہےا ور سختی پیدا ہونے لگتی ہے۔ ہم نت نئی چیزیں سیکھنے اور ہر دم خود کو بدلنے اور ڈھالنے سے تکلیف محسوس کرنے لگتے ہیں۔ مگر بچے میں یہ قناعت اور صلابت طبعی طور پر نہیں ہوتی۔وہ علم کا بھوکا ہے۔ اور ہر لمحہ علم کے تقاضوں کے مطابق اپنی روح اور بدن کو ڈھالنے کے لیے فطری طور پر تیار بھی۔
لوگ عورتوں کی طرح بچوں کو بھی کسی دوسری دنیا کی مخلوق سمجھنے کا رجحان رکھتے ہیں۔ وہ یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ وہ خود بچے پیدا ہوئے تھے اور بچہ ایک وقتِ مقررہ کے بعد انھی کا مثیل ہونے والا ہے۔ ہم سب بچے ہیں۔ ہم سب بڑے ہیں۔ بچے کا بچگانہ پن اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اس دنیا میں نیا ہے اور آپ کچھ مدت گزار چکے ہیں۔ اور شاید گِھس بھی چکے ہیں۔ اس لیے بچہ انسانیت کے اکثر معیاروں پر آپ سے زیادہ پورا اترتا ہے۔ یاد نہیں کہاں اور کس کے ہاں پڑھا تھا مگر کسی عالم نے کچھ ایسی بات کہی ہے کہ پنگھوڑے میں لیٹی ہوئی اس ننھی سی جان کی نسبت کسی دھوکے کا شکار نہ ہو۔ یہ کائنات کا طاقت ور ترین کمپیوٹر ہے جس کی قوت کا تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ فرائڈ نے بھی ذرا مختلف انداز میں مگر بچے کے اندر کے مکمل انسان پر کافی روشنی ڈال رکھی ہے۔
اب سوچیے۔ کتنا بڑا ظلم ہے کہ ایسی شاندار مخلوق کو جو زندگی سیکھنے اور جینے کے لیے ہر دم بیتاب ہے آپ ایک جھوٹی تعلیم دیں؟ کیسی ناعاقبت اندیشی ہے کہ آپ اسے اس درجے کی آسائش کا عادی بنائیں جو زندگی میں ہمیشہ یقینی نہیں بنائی جا سکتی؟ کیا حماقت ہے کہ آپ اس کے رونے پر اسے پچکار پچکار کر چپ کروائیں اور وہ زندگی بھر اپنے دکھوں کے مداوے کے لیے کسی پچکارنے والے کا محتاج رہے؟ کیسا اندھیر ہے کہ آپ اسے ہمت، شجاعت اور قوت کے جوہروں سے آشنا کروانے کی بجائے سات پردوں کی تیرگیوں میں لپیٹ کر رکھنے کی مذموم کوشش کریں؟ ان پردوں میں جنھیں زندگی کی ایک کروٹ درہم برہم کر دیا کرتی ہے۔
خیر، نظم و ضبط کی بات پر واپس آتا ہوں۔ یہ وہ چیز ہے جسے انگریزی میں ڈسپلن کہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا ہے کہ زندگی خود تعلیم دیتی ہے۔ پس طالبِ علم کا سب سے زیادہ فائدہ اس میں ہے کہ وہ ذہنی و جسمانی نظم و ضبط کا پیکر ہو۔ یہ نظم و ضبط کوئی من گھڑت اصول نہیں ہیں بلکہ درحقیقت ان نہروں کی طرح ہے جن کے کھودنے کے بعد کھیتوں کو پانی بھی تسلسل سے پہنچتا رہتا ہے اور طغیانی کا خطرہ بھی رفع ہو جاتا ہے۔ جس شخص کی زندگی من مرضیوں اور امنگوں پر بسر ہوتی ہو وہ ضدی، ڈھیٹ اور احمق رہ جاتا ہے۔ زندگی اور نظامِ فطرت کے آگے جھک جانا اور اس کے سانچوں کے مطابق خود کو ڈھال لینا بقا کی ضمانت دیتا ہے۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
آرزو پرست اور خیالی دنیاؤں کے باشندے جو اس سجدے سے حذر کرتے ہیں تو یہی کانوں، آنکھوں اور دلوں کا پردہ ہے۔ یہی جہالت ہے۔ یہی سرکشی ہے۔ یہی کفر ہے۔ یہی نظامِ کائنات سے بغاوت ہے۔ اس لیے ان کے فلسفے اور گفتار و افکار جن پر وہ اپنے عمل کی بنیاد رکھتے ہیں خواہ کتنے ہی دقیق و خوش آہنگ کیوں نہ ہوں قرآن کے الفاظ میں یوں ہیں جیسے ایک ناپاک پیڑ ہو جو زمین کے اوپر ہی سے اکھیڑ لیا گیا ہو اور اسے جڑ نہ ہونے کی وجہ سے کہیں قرار نہ ہو۔ روحانی و جسمانی نظم و ضبط کے حامل لوگوں کے ہاں جو احساسات و افکار پائے جاتے ہیں انھیں قرآن پاک درخت قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ان لوگوں کی بات یوں ہے جیسے پیڑ کی جڑ مضبوط ہو اور ٹہنیاں آسمان آسمان میں جاتی ہوں۔ ہر وقت پھل لاتا ہو۔ دنیا و آخرت کی فلاح کا پھل!
میں نے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک بہت سی جماعتوں کو پڑھایا ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ میرے اکثر طالبِ علم میری غیرموجودگی میں بھی بعینہٖ وہی رویہ رکھتے رہے ہیں جو میری موجودگی میں۔ میں خود بدقسمتی سے ان تمام اصولوں پر پورا نہیں اترتا جنھیں میں درست اور ضروری سمجھتا ہوں اور نہایت کاہل اور کام چور آدمی ہوں۔ چھٹی کا خاص شوقین ہوں۔ مگر مجال ہے کہ میری عدم موجودگی میں کمرۂِ جماعت کو کسی دوسرے استاد کی ضرورت پیش آئے۔ پڑھانے تک کوئی نہیں آتا۔ کیونکہ کتابیں اور درسی مواد چھٹی پر نہیں گیا۔ زندگی چھٹی پر نہیں گئی۔ لوگ خود پڑھیں گے۔ خود سیکھیں گے۔ استاد تو محض معاون ہوتا ہے نا۔ نہ بھی ہوا تو کیا ہوا؟
لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کرنے کے لیے کسی غیرمعمولی صلاحیت کی ضرورت ہے۔ ان کے خیال میں مثالی استاد کا مثالی انسان ہونا بھی لازم ہے۔ اسی کا نتیجہ آپ دیکھتے ہیں کہ ہمارے اربابِ حل و عقد بچوں کی بجائے استادوں کے کان اینٹھنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ میری دانست میں یہ سراسر بےوقوفی ہے۔ آپ کسی نابغے کو اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ آپ کو شاذ ہی اس کے استادوں میں کوئی نابغہ نظر آئے گا۔ عام لوگ۔ اس غیر معمولی شاگرد کے مقابلے میں اوسط درجے کے استاد۔ غیرمعمولی تعلیم کے لیے غیرمعمولی استاد کا تقاضا یونہی ہے جیسے بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے دل جلے دیواروں پر لکھ دیا کرتے ہیں کہ فلاں فلاں عقل کی بات کے لیے ماں کا نیک اور باپ کا ایک ہونا ضروری ہے۔ ورنہ پہلی عقل کی بات تو شاید یہی ہے کہ باپ ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے اور ماں ہمیشہ رابعہ بصریؒ ہوتی ہے خواہ زمانہ اسے طوائف ہی کیوں نہ جانے!
ہم پھر اصل کی طرف پلٹتے ہیں۔ زندگی معلم ہے۔ استاد نہیں۔ استاد محض معاون ہے۔ غیرمعمولی ذہن کے معاون تلاش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اوسط درجے کے لوگ زندگی سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ وہ عملی طور پر متحرک اور سرگرم ہوتے ہیں۔ زندگی ان سے سیکھنی چاہیے۔ انتہائی ذہین اور لائق لوگوں کو زندگی خود منتخب کر کے اپنی ضروری تعلیم دے لے گی۔ اور وہ دے کر رہتی ہے خواہ آپ نہ بھی چاہیں۔ لہٰذا آپ کو یہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ماں باپ کی طرح استاد بھی بچے کا نصیب نہیں بدل سکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ عظیم لوگوں کو زندگی بہت سی راہیں ایسی سجھاتی ہے جو انھیں تو عظمت کی منزلوں تک پہنچا دیتی ہیں مگر عوام اگر ان پر چل پڑیں تو سخت ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ قاعدے کے موافق عظیم ذہنوں سے صرف عظیم ذہن ہی سبق لیں۔ ورنہ وہی ہو گا جو ہمارے زمانے میں ہوا ہے۔ بڑے لوگوں کے افکار ہر کس و ناکس تک ٹیکنالوجی کی سبیل سے پہنچ تو گئے مگر ہضم نہ ہو سکے۔ خلط مبحث، انتشار اور ناقدری کا دور دورہ ہو گیا۔ عام لوگ خاص ہوتے ہوتے عام ہونے سے بھی محروم ہو گئے۔ نفسیاتی خلل عروج کو پہنچ گئے۔ باتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ بادِ شکم پر صورِ اسرافیل کا گمان کیا جانے لگا۔ کیا اس سے بہتر نہ تھا کہ عوام صرف وہی جانتے جو ان کے کام سے تعلق رکھتا ہے؟
مختصر یہ کہ استاد والدین کی طرح تعلیم کے عمل میں زندگی کا معاون ہے۔ وہ فرشتہ نہ ہو تو بہتر ہے۔ شیطان نہ ہو تو اور بہتر ہے۔ مگر شاگرد کو بہرحال اسے اپنا خداوند ہی سمجھنا چاہیے۔ وہ محض ترنگ سے بھی کوئی فرمان جاری کرے تو متعلم کی فلاح اسی میں ہے کہ اسے معاً بجا لائے۔ یہ محض مشق ہے۔ زندگی کی ان لہروں کے سامنے کی جو آج نہیں تو کل شاگرد کو اچھال اچھال کر پٹخنے والی ہیں۔ ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ خاندان اور تعلیم کے ادارے اس لیے وجود میں نہیں آئے کہ ہماری حفاظت کریں۔ بلکہ اس لیے کہ ہمیں لڑنا سکھائیں۔ زندگی وہ جنگ ہے جس میں عورتیں بھی چوڑیاں پہن کر نہیں بیٹھ سکتیں!