وہ کیسی عورتیں تھیں
جو گیلی لکڑیوں کو پھونک کر چولھا جلاتی تھیں
جو سل پر سرخ مرچیں پیس کر سالن پکاتی تھیں
صبح سے شام تک مصروف لیکن مسکراتی تھیں
وہ کیسی عورتیں تھیں
بھری دوپہر میں سر اپنا ڈھک کر ملنے آتی تھیں
جوپنکھےہاتھ کےجھلتی تھیں اور بس پان کھاتی تھیں
جو دروازے پہ رک کردیر تک رسمیں نبھاتی تھیں
وہ کیسی عورتیں تھیں
پلنگوں پر نفاست سے دری چادر بچھاتی تھیں
بصد اصرار مہمانوں کو سرہانے بٹھاتی تھیں
اگر گرمی زیادہ ہو تو روح افزا پلاتی تھیں
وہ کیسی عورتیں تھیں
جو اپنی بیٹیوں کو سوئیٹر بننا سکھاتی تھیں
سلائی کی مشینوں پر کڑے روزے بتاتی تھیں
بڑی پلیٹوں میں جو افطار کے حصے بناتی تھیں
وہ کیسی عورتیں تھیں
جوکلمے کاڑھ کر لکڑی کے فریموں میں سجاتی تھیں
دعائیں پھونک کر بچوں کو بستر پر سلا تی تھیں
اور اپنی جا نمازیں موڑ کر تکیہ لگاتی تھیں
وہ کیسی عورتیں تھیں
کوئی سائل جو دستک دےاسے کھانا کھلا تی تھیں
پڑوسن مانگ لے کچھ باخوشی دیتی دلاتی تھیں
جو رشتوں کو برتنے کے کئی نسخے بتاتی تھیں
وہ کیسی عورتیں تھیں
محلے میں کوئی مر جائے تو آنسو بہاتی تھیں
کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کے پاس جاتی تھیں
کوئی تہوار ہو تو خوب مل جل کر مناتی تھیں
وہ کیسی عورتیں تھیں
میں جب گھراپنےجاتی ہوں توفرصت کے زمانوں میں
انھیں ہی ڈھونڈتی پھرتی ہوں گلیوں اور مکانوں میں
کسی میلاد میں جز دان میں تسبیح دانوں میں
کسی برآمدے کے طاق پر باورچی خانوں میں
مگر اپنا زمانہ ساتھ لے کر کھو گئی ہیں وہ
کسی اک قبر میں ساری کی ساری سو گئی ہیں وہ