دیوانِ غالبؔ کا پہلا شعر ہے:
نقش فریادی ہے کس کی شوخئِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
اس شعر پہ گو کہ نہایت شرح و بسط سے تمام شارحین نے گفتگو کی ہے مگر غیر شارحین کو ہنوز موقع نہیں ملا۔ ہمارے خیال میں یہ کافی بنیاد ہے کہ ہم بھلے ان بزرگوں ہی کی تفسیروں کو چبا چبا کر اگل ڈالیں لیکن کم سے کم غالبؔ کے طرفداروں میں تو شمار ہو ہی جائیں۔ آپ اسے سوت کی انٹی سمجھیے یا انگلی پہ خون، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا!
نقش فریادی ہے کس کی شوخئِ تحریر کا
نقش سے مراد تصویر ہے۔ شوخی ہماری ادبی روایت میں صرف شوخ ہونا نہیں بلکہ محبوب کی ستم گری بھی کسی قدر اس کے مفہوم میں شامل ہو گئی ہے۔ فریادی یعنی فریاد کرنے والا۔ تحریر کا مطلب لکھائی نہ سمجھیے۔ مصوری بھی تحریر میں شامل کیجیے۔ دونوں قلم کا کمال ہیں۔
شاعر سوال کرتا ہے کہ تصویر کس کے قلم یا تحریر کی شوخیوں کی بابت فریاد کر رہی ہے۔
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
زمانہءِ قدیم کے ایران میں رسم تھی کہ فریادی بادشاہ کے دربار میں کاغذ کی پوشاک پہن کر آتے تھے۔ یعنی کاغذ پہن لینے کا مطلب ہی یہ تھا کہ موصوف پر کوئی ستم ٹوٹا ہے جس کی داد رسی مقصود ہے۔
پیرہن کا مطلب لباس۔ پیکرِ تصویر یعنی تصویر کا جسم۔ تصویر کا بدن۔
اب مصرعِ ثانی پر غور کیجیے۔ عام طور پر تصویر کاغذ پر بنتی ہے۔ شاعر نے نکتہ پیدا کیا ہے کہ ہر تصویر نے گویا کاغذ کی پوشاک پہن رکھی ہے۔
اب پورے شعر کا مفہوم دیکھیے۔
ہر تصویر نے گویا کاغذ کی پوشاک پہن رکھی ہے۔ یعنی ہر تصویر فریادی ہے۔ ہر نقش کسی کی شوخی یا ستم گری کے بارے میں شکایت کر رہا ہے۔ آخر یہ تصویریں، یہ نقوش کس کے قلم کی شوخی کی چوٹ کھائے ہوئے ہیں؟
نقش فریادی ہے کس کی شوخئِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ شعرا عام طور پر اپنے دواوین کا آغاز حمد و نعت سے کرتے ہیں۔ مرزا نے یوں تو نہیں کیا مگر دیوان کے پہلے شعر میں اردو کی بلیغ ترین حمد کہہ دی ہے۔
حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو اس شعر کی لطافت کا جواب نہیں۔ تصویریں کاغذ پر بنتی ہیں۔ کوئی مصور چاہے یا نہ چاہے مگر اس کی بنائی ہوئی ہر تصویر گویا ایک فریادی ہے جو کسی عظیم تر مصور کی شوخئِ تحریر کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ غالبؔ نے یہاں ستم یا ظلم وغیرہ سے متعلق کوئی لفظ استعمال نہیں کیا جو مالکِ حقیقی کی ذات کے شایان نہ ہو۔ شوخی کہا ہے۔ جو محبوبوں کی صفت ہے۔