آزادؔ نے اپنے تذکرے میں محمد احسنؔ نام کے کسی صاحب کا ایک شعر نقل کیا ہے:
یہی مضمونِ خط ہے احسنؔ اللہ
کہ حسنِ خوب رویاں عارضی ہے
موصوف اردو شاعری میں ایہام گوئی کی تحریک سے تعلق رکھتے تھے تاہم کوئی معروف اور نمائندہ شاعر نہیں ہیں۔ اس تحریک کے اور بہت سے شعرا اور اشعار زیادہ مشہور ہیں اور ادب کے طلبہ ان سے واقف ہیں۔ میرا مدعا اس مضمون میں یہ دکھانا ہے کہ اردو شاعری کی ایک مردود تحریک یعنی ایہام گوئی سے تعلق رکھنے والا ایک اوسط درجے کا شاعر آج کل کے شعرا کے مقابل کس درجے پر ہے اور اردو ادب کی معمولی سے معمولی روایات بھی عالمی ادب کے تناظر میں کس قدر غیر معمولی واقع ہوئی ہیں۔
بہتر ہو گا کہ ہم پہلے شعرِ مذکور میں استعمال ہونے والے الفاظ پر ایک گہری نظر ڈال لیں۔
مضمون
یہ لفظ عربی کے مادے ض م ن سے نکلا ہے۔ ضامن کا لفظ اسی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے معانی ضمانت دینا، یقینی بنایا اور کسی شے کے اندر موجود ہونا کے ہیں۔ پہلے دو معانی میں ضمانت کا لفظ ہمارے ہاں موجود ہے جبکہ تیسرے معانی میں ہم اکثر ضمن استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً اس ضمن میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں یا ضمناً یہ بات بھی کہتا چلوں وغیرہ۔
مضمون اسمِ مفعول ہے اور اس کے دو مطلب سامنے آتے ہیں۔ اول وہ شے جس کی ضمانت دی گئی ہو۔ دوم وہ شے جو کسی شے کے اندر موجود ہو۔ اردو میں مضمون سے مراد ایک خاص قسم کی مبسوط و مربوط نگارش لی جاتی ہے جسے انگریزی میں Essay کہتے ہیں۔ تاہم اصل معانی کے اشارے بھی کہیں کہیں مل جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ جملہ دیکھیے:
آپ کے خط کا مضمون مجھ پر واضح نہیں ہو سکا۔
یہاں مضمون سے مراد کوئی لمبی چوڑی تحریر نہیں بلکہ وہ شے ہے جو خط کے اندر ہے۔ یعنی خط کا مطلب یا مقصد۔
خط
یہ بھی عربی لفظ ہے۔ اس کا اصل مطلب لکیر کھینچنا ہے۔ لکھنے کے معانی میں بھی آتا ہے۔ اس لیے فارسی اور اردو میں اس مراسلے کو بھی خط کہتے ہیں جو دور رہنے والے لوگ ایک دوسرے کو لکھ بھیجتے ہیں۔ رسم الخط کا معنیٰ وہ ڈھنگ ہے جس سے کوئی زبان لکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ خط سے مراد وہ بال بھی لیے جاتے ہیں جو لڑکوں کے رخساروں پر جوانی میں نمودار ہوتے ہیں۔ یعنی ڈاڑھی۔ خط بنوانا کا محاورہ ہم سب نے سن رکھا ہے۔ حجام کو خط تراش بھی کہتے ہیں۔
حسن
حسن کا مطلب خوبی یا اچھائی ہے۔ فارسی اور اردو میں البتہ اس سے مراد زیادہ تر شکل کا اچھا ہونا لیا جاتا ہے۔ تاہم حسنِ اخلاق جیسی تراکیب میں اصل معانی کا سراغ مل جاتا ہے۔
اسی شعر میں احسن کا لفظ بھی حسن سے نکلا ہے اور تفضیلِ کل کا مظہر ہے۔ اس کا مطلب ہے سب سے اچھا۔
خوب رویاں
یہ فارسی ترکیب خوب رو کی جمع ہے۔ رو چہرے کو کہتے ہیں اور خوب کا معنیٰ اچھا۔ خوب رو یعنی اچھے چہرے والا۔ خوش شکل۔ خوب صورت۔
عارضی
یہ بھی عربی لفظ ہے۔ ع ر ض کے مادے سے نکلا ہے۔ یہ مادہ نہایت وسیع اور پیچیدہ معانی رکھتا ہے۔ تاہم ہمارے مقصد کے لیے یہ جان لینا کافی ہو گا کہ عارضی کا ایک مطلب اردو میں وقتی یا ناپائدار ہونے کا لیا جاتا ہے۔ دوسری جانب عارض رخسار یا گال کو بھی کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے عارضی کا مطلب ہو گا رخسار کا یا رخسار سے تعلق رکھنے والا۔
اب ذرا ایک نظر ایہام پر۔۔۔
ایہام
یہ و ہ م کے عربی مادے سے نکلا ہے۔ وہم کا لفظ اردو میں عام ہے۔ اصل معانی بھی قریب قریب وہی ہیں جن میں ہم استعمال کرتے ہیں۔ یعنی دھوکے کا خیال۔ تصور۔ تخیل۔ واہمہ۔
ایہام شاعری کی اصطلاح میں اسے کہتے ہیں کہ شعر میں ایسے الفاظ لائے جائیں جو قاری یا سامع کو دھوکے میں ڈالنے والے ہیں۔ دھوکا تبھی لگتا ہے جب کسی شے کا ظاہر اور ہو اور باطن اور۔ ایہام گوئی میں بھی الفاظ دو طرح کے معانی رکھتے ہیں۔ اول وہ جو ظاہری طور پر معلوم ہوں اور دوم وہ جن کی حقیقت بعد میں کھلے۔
اردو شاعری کے ابتدائی دور میں ایہام کی صنعت بہت مقبول ہوئی تھی اور ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئی تھی۔ ہم جس شعر پر بات کر رہے ہیں اس میں بھی اسی سے کام لیا گیا ہے۔ آئیے، اب ان طلسمات کو کھولنے کی کوشش کرتے ہیں جو شاعر نے ان چند الفاظ میں باندھ کر رکھ دیے ہیں۔
یہی مضمونِ خط ہے احسنؔ اللہ
کہ حسنِ خوب رویاں عارضی ہے
پہلی نظر میں معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کسی خط یعنی مکتوب کا ذکر کر رہا ہے۔ کہتا ہے کہ خط کا مضمون یہ ہے کہ خوبصورت لوگوں کا حسن عارضی اور ناپائدار ہے۔ گویا شاعر نے محبوب کو خط لکھا اور کہا کہ اس قدر غرور نہ کرو۔ حسن ہمیشہ رہنے والی شے نہیں۔
دوسرا مفہوم ایک جادو نگری ہے جس کا دروازہ ذوق اور علم کے منتر سے کھلتا ہے۔ جاننا چاہیے کہ ہماری روایت کی شاعری امرد پرستی یعنی نوعمر لڑکوں کی محبت میں گندھی ہوئی ہے۔ زمانے کے ذوق بدلتے رہتے ہیں۔ عہدِ حاضر کی بڑی تہذیبیں ہم جنس پرستی میں مضائقہ نہیں سمجھتیں مگر نابالغوں سے تعلق کو برا جانتی ہیں۔ ہمارے ادب کی روایت میں بالغوں کی ہم جنس پرستی مذموم تھی مگر کچی عمر کے لڑکے محبوب تھے۔ کیا شعرا اور کیا صوفیا، کیا خواص اور کیا عوام، اس دور کے لوگ اکثر اسی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔ مذکورہ شعر کا دوسرا مفہوم اسی روایت سے متعلق ہے۔
فرماتے ہیں کہ جو لڑکا محبوب تھا اس کے رخساروں پر خط آ گیا۔ یعنی ڈاڑھی نمودار ہو گئی۔ اس خط کا مضمون یعنی مدعا یا اندر کی بات یہ ہے کہ حسن والوں کا حسن مستقل چیز نہیں۔ دوسرے لفظوں میں ڈاڑھی نے حسن و جمال کے فانی ہونے کا بھید کھول دیا۔ یہ وہ مطلب ہے جو پہلی نظر میں نہیں کھلتا۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ حسن والوں کا حسن تو عارض یعنی رخسار سے تعلق رکھتا ہے اس لیے عارضی ہے۔ یعنی گالوں پر بال آ گئے اور حسن رخصت ہو گیا تو معلوم ہوا کہ دلکشی سدا بہار نہیں بلکہ صاف اور سادہ عارض سے متعلق ہے۔
رعایات کا ایک جہان ہے جو گنتی کے ان الفاظ میں سمو دیا گیا ہے۔ خوب اور حسن ایک معنیٰ کے الفاظ ہیں۔ عارض اور رو بھی ایک قبیل سے ہیں۔ احسن کا لفظ بھی حسن سے تعلق رکھتا ہے۔ خط بھی عارض اور رو یعنی چہرے سے متعلق ہے۔ مضمون کا لفظ پہلے معانی میں خط بمعنیٰ مکتوب سے متعلق ہے اور دوسرے میں یہ اشارہ کر رہا ہے کہ چہرے کے بال گویا اس حقیقت کے ضامن ہیں کہ حسن ناپائدار ہے۔ اگر موشگافی کے الزام سے امان پاؤں تو کہوں کہ تخلص میں احسن اللہ کی ترکیب بھی اہلِ ذوق کے لیے ایک گونہ لطف کا باعث ہو گی۔
یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ اردو شعرا نے ایہام کی روایت کو زیادہ پسند نہیں کیا اور یہ بہت جلد دم توڑ گئی۔ لیکن ذرا تصور کیجیے کہ ایک مردود روایت سے تعلق رکھنے والے اوسط درجے کے شاعر کے ہاں بھی زبان و بیان کا اس قدر گہرا فہم اور ذوق پایا جاتا ہے تو وہ اساتذہ کس مقام پر ہوں گے جنھوں نے ایہام گوئی کو اپنے شایانِ شان ہی نہیں سمجھا!
یاد نہیں کہاں مگر پڑھا تھا کہ جنگِ آزادی کے دنوں میں کسی گورے نے ہمارے کسی بزرگ سے پوچھا کہ ٹم کٹنی زبانیں جانٹا۔ انھوں نے اردو فارسی عربی وغیرہ کے نام لیے۔ گورے نے حقارت سے کہا، بس؟ پھر اردو ہندی سمیت کوئی درجن بھر زبانوں کے نام گنوائے جنھیں وہ "جانٹا” تھا۔ بزرگوار نے فرمایا، ہمارے ہاں جاننا اسے نہیں کہتے۔ ہم زبان جاننا اسے کہتے ہیں کہ بولنے والا بولے تو کوئی اہلِ زبان سے فرق نہ کر سکے۔ ورنہ جس طرح کی اردو تم جانتے ہو اس سے بہتر بیسیوں زبانیں میں جانتا ہوں۔
اس گورے کو مرے ہوئے بھی خدا جانے کتنا عرصہ ہو گیا ہو گا۔ اس کے ساتھی ہندوستان کو لوٹ کر اور بانٹ کر کب کے یہاں سے جا چکے۔ مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکا زبردست پڑ گیا۔ عصرِ حاضر کے ادیبوں میں وہ لوگ بھی انگریزی ادب سے متاثر ہیں جو انگریزی زبان نہیں جانتے۔ وہ بھی فرانسیسی شعرا کے عاشق ہیں جن کو فرانسیسی میں فرانسیسی کے ہجے نہیں معلوم۔ وہ بھی روسی افسانہ نگاروں کے چربے اتار رہے ہیں جو کہیں روسی لکھی دیکھ پائیں تو اسے جاپانی سمجھتے ہیں۔ خود اپنی زبان کو بھی ہم اپنے بزرگوں کی طرح نہیں سمجھتے بلکہ اس گورے کی طرح "جانٹے” ہیں جو مر کر بھی ہم پر حکومت کر رہا ہے۔
مغرب کی روایت رہی ہے کہ وہ ادب کے تراجم کو بھی ادب ہی گردانتے ہیں۔ ہماری تہذیب جدا ہے۔ ہمارا ادب زبان کی ایک پاکیزہ اور مہذب شکل ہے۔ جو زبان سے بےبہرہ ہو اس کے ادب میں بار پانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جس شعر کا مقدور بھر تجزیہ اوپر پیش کیا گیا ہے اسی کا کسی زبان میں اپنی مرضی سے ترجمہ کر کے دیکھ لیجیے۔ اندازہ ہو جائے گا کہ ہماری روایات کا مرتبہ کیا ہے اور گورے کسی چیز کو زبان دانی اور ادب فہمی سمجھتے ہیں۔ لیکن جیسا ہم نے پہلے عرض کیا کہ ڈاکا زبردست پڑ گیا ہے۔ ہمارے ادیب اور شاعر اب مغرب کے چوسے ہوئے آموں کی گٹھلیاں چبانے ہی کو ذائقے اور ذوق کی معراج سمجھتے ہیں۔ ورنہ اپنے باغ لوٹنے تو لوگ سمندر پار سے آیا کرتے تھے۔