فصل بوئے کوئی اٹھائے کوئی
دیکھنا دل نہ لوٹ پائے کوئی
ہم بھی کیا عشق کا مذاق اڑائیں
خوں رلائے تو کیوں رلائے کوئی
کوئی کیوں دل نکال لے جائے
اس کی آنکھیں نکال لائے کوئی
عشق کی توڑپھوڑ کے صدقے
دل میں ورنہ کہاں سمائے کوئی
روگ کے راگ ہیں سبھی ورنہ
یونہی کرتا ہے ہائے ہائے کوئی
رہ گیا ہوں کسی گلی میں میں
دے کے آواز مجھ کو آئے کوئی
دشت میں کیا نہیں ہے جو ہے وہاں
گھر میں کیوں جا کے بیٹھ جائے کوئی
کیا بلا چیز ہے زباںبندی
مجھ سے پوچھے مجھے بتائے کوئی
شعر معجز کلام ہے راحیلؔ
سنے ہر کوئی کہہ نہ پائے کوئی