حیات مختصر اور قصۂِ حیات دراز
قریب ہے کہ کھلے موت ہی پہ موت کا راز
خدا نے بندہ بنایا بتوں نے بندہ نواز
کسی کا آئنہ ہوں میں کسی کا آئنہ ساز
نماز کے ہیں سزاوار بندگانِ نیاز
جو آپ قبلہ و کعبہ ہو اس کی خاک نماز
دماغ ڈھونڈ کے لایا دلیل دل کے لیے
خرد کے ساز سے نکلی جنون کی آواز
مسافرانہ مسافر کی چاہیے گزران
نہ دوستی کی ضرورت نہ دشمنی کا جواز
مرا اثاثہ مری روح کا تلاطم ہے
تری متاع ترے جسم کے نشیب و فراز
کسی کو ہو کہ نہ ہو مجھ کو اعتراض نہیں
اٹھائے جائیں کسی اور سے اگر ترے ناز
وہ کس کی چاپ ہے کیا جانیے مگر راحیلؔ
کسی امید پہ ہے دیر سے درِ دل باز