جہاں ہو کوڑیوں کے مول نیکی
ضرورت ہی نہیں سچ بولنے کی
سنبھلنے دو سنبھلنا سیکھنے دو
ہمیں عادت نہ ڈالو ڈولنے کی
تمھارے آنسوؤں پر لکھ دیے شعر
بڑی خواہش تھی موتی رولنے کی
درختوں کو قلم کر لیں تو سوچیں
سمندر میں سیاہی گھولنے کی
جھکی آنکھوں پہ جھک آتا ہے پلڑا
عجب شہرت ہے اس کے تولنے کی
ہمارا نامۂ اعمال راحیلؔ
کسی کو کیا پڑی ہے کھولنے کی