کہانی کہانی کے پردے میں ہے
جو ہے رائگانی کے پردے میں ہے
ازل تا ابد دیکھ آئی نگاہ
وہی جاودانی کے پردے میں ہے
مجھے زندگانی سے کیا چاہیے
کہ تو زندگانی کے پردے میں ہے
بڑھاپے میں عریانیاں دیکھنا
محبت جوانی کے پردے میں ہے
عبادت سے کم یاریاں تو نہیں
کوئی یارِ جانی کے پردے میں ہے
معانی حقیقت نہیں ہیں حضور
حقیقت معانی کے پردے میں ہے
کسی خوش ادا کی ادا جانیے
جو اس خوش بیانی کے پردے میں ہے
ستم گر ہیں راحیلؔ پر مہربان
ستم مہربانی کے پردے میں ہے