پاکستان میں پنجاب پر دوسرے صوبوں کے استحصال کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ پنجاب سے نفرت یا بغاوت میں پاکستان سے نفرت یا بغاوت کے معانی پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایسی بالا دستی اور زبردستی کے باوجود میرے خیال میں پاکستانی پنجاب محض ایک بناوٹی، کھوکھلا اور مصنوعی وجود ہے۔ پنجابی ہونے کے ناتے جب میں ہندوستانی اور پاکستانی پنجاب کا موازنہ کرتا ہوں تو دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے اور بسنے والا پنجابی بہت گھاٹے میں رہا ہے۔ میری زبان اکیسویں صدی میں بھی ایک معیاری رسم الخط سے محروم ہے۔ میری دھرتی کی کوکھ سے جنم لینے والا منشی اردو بولنا چاہتا ہے اور افسر انگریزی۔ میں دھوتی باندھوں، صافہ رکھوں اور کھسا پہنوں تو میرا بھائی مجھے گنوار سمجھ کر ہنستا ہے۔ میری اولاد جس مٹی سے پیدا ہوتی ہے اس میں دفن ہونے کو ننگ سمجھتی ہے۔ میرے باپ دادا کی تہذیب اور ثقافت کو میرے باپ دادا کے وطن میں ڈھونڈنا ناممکن ہو گیا ہے۔ میرا پنجاب کاغذ کا پھول ہے۔ بظاہر اس کے مرجھانے کا کوئی امکان نہیں مگر بباطن اس کے امکانات کی دنیا ہی مرجھائی ہوئی ہے۔
اگر آپ ٹی وی، اخبارات اور انٹرنیٹ پر چھائے ہوئے تجزیہ کاروں، دانش وروں، صحافیوں اور ماہرین کے سال بھر کے ارشادات اکٹھے کر کے ان کا تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ سو میں سے ستر اسی باتیں غلط کہتے ہیں۔ نہ ان کے ذرائع باوثوق ہیں، نہ ان کی سمجھ افلاطونی ہے اور نہ ان کی دیانت معتبر ہے۔ اس کے بعد اگر آپ کسی چائے والے کی باتوں پر غور کریں تو شاید آپ کو تعجب ہو کہ دس میں سے چار چھ باتیں اس غریب کی ٹھیک ہی ہوتی ہیں۔
کسی دانشمند نے اربابِ ریاست کو عوام کے بارے میں مشورہ دیا تھا کہ تم ان سے زیادہ عقلمند نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا اپنی توانائیاں انھیں بے وقوف بنانے پر صرف کرو۔ ریاستیں اس مقصد کے لیے ذرائعِ ابلاغ کا استعمال کرتی آئی ہیں۔ مگر ذرائعِ ابلاغ جب عوام پر قابو پا لیتے ہیں تو پھر ریاست ہی کے نہیں، خود اپنے مفادات کے لیے بھی الو بنانا شروع کر دیتے ہیں۔
ہمارے اردگرد بہت سے لوگ ایسے دیوانے ہو گئے ہیں کہ تین تین چار چار گھنٹے ٹی وی پر بد زبان، کج فہم اور نیم خواندہ لوگوں کے مناظرے دیکھتے رہتے ہیں۔ یا اخبارات میں اور سماجی واسطوں پر جھوٹوں کے کالم اور تجزیے محض اس لیے پڑھا کرتے ہیں کہ سبز باغ دیکھنے کا نشہ پورا ہو سکے۔ ممکن ہے میرا علم ناقص ہو مگر میری نظر سے کوئی ملکی دانشور یا تجزیہ کار ایسا نہیں گزرا جس کی پیشگوئیاں پچاس فیصد بھی سچ نکلی ہوں۔ اور اگر کوئی بطلِ جلیل ایسا ہو بھی تو میں اس پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہوں گا۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔ آپ کو ایک حکایت سناتا ہوں۔ آپ سمجھ جائیں گے۔
ایک گنوار سے کسی نے پوچھا، تمھاری گدھی گابھن تھی۔ سناؤ، گدھا ہوا یا گدھی؟ وہ ٹکر ٹکر اسے دیکھنے لگا۔ پوچھنے والے نے کہا، کیا ہوا؟ گنوار بولا، تمھیں کیسے پتا چلا کہ انھی دونوں میں سے ایک ہو گا؟
- کیفیت نامہ
- 29 جولائی 2022ء
- ربط