جو کسی کے نہ خواب میں آئے
وہ وہ فتنے شباب میں آئے
آپ کے تذکرے خدا رکھے
کئی غیروں کے باب میں آئے
میں نے جب ہجر کا سبب پوچھا
اٹھ کے وہ خود جواب میں آئے
حشر کے دن جفاؤں کی تعداد
نہیں لگتا حساب میں آئے
دل سے جانے کا فیصلہ کر کے
اسی خانہ خراب میں آئے
ان کی نظریں پڑیں تو آنکھوں کے
رنگ کچھ کچھ گلاب میں آئے
مہک اٹھی ہے داستانِ حیات
پھول کیسی کتاب میں آئے
تم نے راحیلؔ کس کو یاد کیا
شعر اتر کر جناب میں آئے