یہ میکدے میں جو نظریں جھکائے جاتے ہیں
شریف لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں
کبھی کبھار اگر بے وفاؤں میں کوئی
وفا کرے تو اسے ہم دکھائے جاتے ہیں
سفید پوش بزرگوں کا دیکھتا ہوں وقار
کمر تو ٹوٹ گئی سر اٹھائے جاتے ہیں
ہمیں بھی ایک زمانے میں چاؤ عشق کا تھا
وبال خود نہیں آتے ہیں لائے جاتے ہیں
تمھیں میں یاد دلا دوں کہ یاد مت آنا
جو یاد آتے ہیں ظالم بھلائے جاتے ہیں
ہم آہ کرتے رہیں تو مضائقہ کیا ہے
ستم ظریف ستم بھی تو ڈھائے جاتے ہیں
کسی کو شوق تو ہوتا نہیں ہے رونے کا
ستائے جاتے ہیں یا رب رلائے جاتے ہیں
زمین کے لرز اٹھنے کا ہو اگر خدشہ
تو راز دل میں ٹھکانے لگائے جاتے ہیں
غزل بھی حضرتِ راحیلؔ خود نہیں کہتے
سنا ہے آپ کو دکھڑے سنائے جاتے ہیں