(جناب ممتاز اطہرؔ کی ایک غزل پر کہی گئی غزل)
ہے کوچ کا اپنا بھی ارادہ دلِ سادہ
لیکن کوئی منزل کوئی جادہ دلِ سادہ
یہ چاک قبا لالہ و گل دیکھ رہے ہو
دامن ہو تو اتنا ہو کشادہ دلِ سادہ
نفرت سے خبردار محبت سے خبردار
اوڑھے ہوئے آئیں گی لبادہ دلِ سادہ
وعدے وہی وعدے جو اسے بھول گئے تھے
کرتے انھی وعدوں کا اعادہ دلِ سادہ
کھوئے گئے کس چیز پہ کس بات پہ بھولے
ساقی گری و شیشہ و بادہ دلِ سادہ
لیلیٰ سے نہ بڑھ کر سہی جانِ غزل اپنی
چرچا تو کم از کم ہو زیادہ دلِ سادہ
راحیلؔ نوشتہ ہو تو کیا کیجیے ورنہ
ہم لاکھ پکارے "دلِ سادہ! دلِ سادہ!”