آپ کے حسن پہ لکھوں تو بھلا کیا لکھوں
کس طرح وہ کہ جو لکھا نہیں جاتا لکھوں
سوچتا ہوں کہ بہت ہو گئی بس ٹال مٹول
آج لکھوں جو کسی نے نہیں لکھا لکھوں
ہو گیا نقش جمال آپ کا دل پر جیسے
جو مٹائے نہ مٹے کاش کچھ ایسا لکھوں
کیا کروں ہائے مگر کیسے کروں بات بیان
آپ کو جانِ جہاں جانِ تمنا لکھوں
آنکھ لڑ جانے کو تشبیہ کسی روگ سے دوں
ہاتھ چھو جائے تو اعجازِ مسیحا لکھوں
تیر ان ناز سے اٹھتی ہوئی پلکوں کو کہوں
جھیل نینوں کو سمندر سے بھی گہرا لکھوں
آپ کے عشق میں جینے کو ستم کہہ ڈالوں
آپ کے حسن پہ مرنے کو مداوا لکھوں
چھوڑیے مجھ سے یہ شاید نہیں ہو پائے گا
دیکھیے بات یہ ہے میں نے تو چاہا لکھوں
آپ کا حسن مگر چیزے دگر ہے کوئی
میری اوقات نہیں ہے کہ سراپا لکھوں
دل ہی قابو میں نہیں شعر کہوں تو کیسے
حالت اچھی ہو تو شاید کبھی اچھا لکھوں
کہیے کیا حکم ہے راحیلِؔ دل افروختہ کو
آگے اب تھام کے دل بیٹھ رہوں یا لکھوں