دل بڑا آبدار موتی ہے
جانے قسمت کہاں پروتی ہے
لوگ سوتے ہیں نیند میں ظالم
تیری آنکھوں میں نیند سوتی ہے
میری اپنی ہی بے بسی مجھ پر
مسکرا مسکرا کے روتی ہے
باپ ہوتے ہیں کامیابی کے
نامرادی یتیم ہوتی ہے
موت کا غالباً قصور نہیں
کشتیاں زندگی ڈبوتی ہے
چھاؤں کلہاڑیاں نہیں دیتیں
الفت الفت کا بیج بوتی ہے
ہائے ری سادگی محبت کی
خون بھی آنسوؤں سے دھوتی ہے
دولتِ دو جہاں گراں بھی نہیں
ایک کرتا ہے ایک دھوتی ہے
کائناتِ ملال کو راحیلؔ
دل کی آغوش ہی سموتی ہے