چارہ گر تُو تو ہمیں ہوش میں لے آئے گا
ہوش آئے گا تو کیا چین بھی آ جائے گا
پاؤں میں ہجر کی آپ اپنے کلھاڑی مت مار
میں تو مر جاؤں گا جی تو بھی نہیں پائے گا
اے دلِ آبلہ پا عقل کی مت جان کو آ
راہبر راستہ دیکھے گا تو دکھلائے گا
آپ مقتل سے تو لے آئے ہیں واپس مجھ کو
کیا ضمانت ہے کہ غم خون نہ تھکوائے گا
میرے مرنے سے کسی اور کا کیوں رزق ہو بند
پھر یہ غم خوار کسی اور کا غم کھائے گا
تیرے کوچے کے تو احوال پہنچتے ہیں ہمیں
شاید اپنی بھی خبر کچھ کبھی دل لائے گا
ایک چنگاری ہی صیاد کو دل سے دے دوں
آشیانے کو مرے آگ نہ لگوائے گا
ہاں ترے لطف سے نومید بھی ہو جاتا ہے
ابھی نادان ہے راحیلؔ سمجھ جائے گا