مان لیتے ہیں وفا ہم کو نہ کرنی آئی
تم کہو تم کو تو تہمت بھی نہ دھرنی آئی
زندگی راہ نہیں ہے اسے طے کیا کرنا
ایک مدت تھی سو ہم کو نہ ٹھہرنی آئی
جی تو خاکم بدہن شیخ سے اچھا بھی گئے
آپ کی موت ہی رِندوں کو نہ مرنی آئی
اے ہر اک پل مجھے محشر سے ڈرانے والے
سامنے تیرے اگر کرنی کی بھرنی آئی
ادھر آراستہ ہے باغِ بہشت اور ادھر
گھاس ہی عقل کو اب تک نہیں چرنی آئی
کہیے کہیے کہ بڑا شوخ زباں ہے راحیلؔ
ڈھنگ کی کوئی تو بات آپ کو کرنی آئی