جو بات ہماری تھی وہ بات ہی کب کی ہے
اجمالِ وفا میں سب تفصیل ادب کی ہے
سر مارتے پھرتے ہیں جو دشت میں آدم زاد
کچھ ہاتھ ہے اپنا بھی کچھ بات نسب کی ہے
عشاق تو پاگل ہیں فریاد پہ مت جاؤ
جس بزم میں تم آئے وہ بزم طرب کی ہے
اول تو محبت میں جو گزری سو ہے معلوم
پر کچھ نہیں کہہ سکتے جو کیفیت اب کی ہے
صدیاں تو نہیں گزریں اللہ نہ کرے گزریں
اے دل، یہ کہانی تو گزری ہوئی شب کی ہے
دستور کی زد میں ہے ناموسِ جواہر بھی
مٹی میں ملا کر قدر دنیا نے عجب کی ہے
یا بات نہ کر راحیلؔ یا بول تو اچھا بول
ظالم، تری باتوں میں تاثیر غضب کی ہے