دل کے دشمن پیار کی پینگیں بڑھانے آ گئے
مارنے والے بچانے کے بہانے آ گئے
ناز اٹھوانے کی خاطر ناز اٹھانے آ گئے
دل دکھا کر جانے والے خود منانے آ گئے
دشت میں کمبخت رستے کیا بنانے آ گئے
لوگ دیوانوں کو دانائی سکھانے آ گئے
حق نہیں یارب کہ جنت کی ملے ان کو شراب
اٹھ کے مسجد سے جو میخانہ گرانے آ گئے
ہم قفس میں اتنے سجدے کر گئے صیاد کو
بجلیوں کی زد میں جتنے آشیانے آ گئے
عقل آئی عقل کو جب عشق سے پالا پڑا
ہوش جس کے اڑ گئے اس کے ٹھکانے آ گئے
میں ابھی پڑھ ہی رہا تھا وقت کے استاد سے
اشک خود تقدیر کا لکھا مٹانے آ گئے
شیخ کا راحیلؔ خطبہ پھر ادھورا رہ گیا
آ گئے دیوانے پھر غزلیں سنانے آ گئے