ہاں تو کس کو ستا کے لوٹ آئے
تم بہت دور جا کے لوٹ آئے
راہ ہموار پا کے لوٹ آئے
چلے اور لڑکھڑا کے لوٹ آئے
سبھی شکوے بھلا کے لوٹ آئے
خود کو خود ہی منا کے لوٹ آئے
پینے والوں کا کیا ٹھکانا ہے
ڈگمگا ڈگمگا کے لوٹ آئے
کوئی دستار ہے کوئی دستار
سرپھرے سر جھکا کے لوٹ آئے
تنگ آ کے گئے تھے کس کس سے
تنگ کس کس سے آ کے لوٹ آئے
اتنے ڈنکے بجے تھے جانے کے
اس قدر چھپ چھپا کے لوٹ آئے
جو خدا بن گئے تھے ہجراں میں
تو وہ بندے خدا کے لوٹ آئے
زخم ایسے بھی کیا ضروری تھے
ٹھوکریں کیوں نہ کھا کے لوٹ آئے
ساتھ چل لیتے دو قدم راحیلؔ
تم تو رستہ بتا کے لوٹ آئے
2 خیالات ”ہاں تو کس کو ستا کے لوٹ آئے“ پر
السلام علیکم،
بھیا آپ خیریت سے ہیں ۔عمدہ غزل تخلیق کی ۔
وعلیکم السلام، عدبان بھائی۔ میں بحمدللہ خیریت سے ہوں۔ امید ہے آپ بھی اچھے ہوں گی۔
غزل پسند فرمانے اور رائے دیتے رہنے پر شکرگزار ہوں۔