تم نے غفلت نہ کی تو غفلت کی
ہمیں عادت تھی اس سعادت کی
نہ کرو جو نہیں کیا ابھی عشق
کیا ضرورت ہے اس ضرورت کی
تجھ سے کی تو تری قسم ہم نے
ہر کسی سے بہت محبت کی
تم سے چھپ کر جو ہم نے تم سے کہا
تم نے سن کر بڑی شرارت کی
حسن انجیل کا ورق نکلا
دل نے بھی بیٹھ کر تلاوت کی
تم عنایت نہ کر سکے تو کیا
تم نے جو بھی کیا عنایت کی
حسن نے حسن کو نہیں پوجا
عشق نے عشق کی عبادت کی
تم حقیقت کی بات کرتے ہو
یہ حقیقت ہے ہر حقیقت کی
لوگ غربت کو غم سمجھتے ہیں
انتہا ہو گئی ہے غربت کی
دیکھنے کی جگہ ہے دنیا بھی
آنکھ رکھتا ہے کون عبرت کی
ہائے مر تو نہیں گیا راحیلؔ
آپ نے کیوں وفا کی زحمت کی