ضبط مشکل میں ہے عشق اس سے بڑی مشکل میں ہے
دل تمنا میں گیا پھر بھی تمنا دل میں ہے
کچھ نہ کچھ تاب و تواں باقی ابھی بسمل میں ہے
پوچھ لیجے آخر ایسی بات کیا قاتل میں ہے
جس کے باعث حسن ہے بدنام ازل سے غافلو
وہ خرابی اصل میں عاشق کے آب و گل میں ہے
انتظارِ وصل میں ہے کیا مزہ مت پوچھیے
پوچھیے مت کیا مزہ اس سعیِ لاحاصل میں ہے
خود شناسی کے سفر میں کیا نہیں پائی مراد
یہ وہ منزل ہے کہ جس کی راہ بھی منزل میں ہے
نام ہی کا رہ گیا ہوں یوں بھی اب راحیلؔ میں
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے”
2 خیالات ”ضبط مشکل میں ہے عشق اس سے بڑی مشکل میں ہے“ پر
خود شناسی کے سفر میں کیا نہیں پائی مراد
یہ وہ منزل ہے کہ جس کی راہ بھی منزل میں ہے
واہ!واہ!واہ!واہ!
بہت زبردست۔
ہر شعر لاجواب1
شکریہ، اچھی آپی۔
بہت بہت شکریہ۔ آپ کے تشریف لانے اور وقت دینے سے عزت افزائی ہوئی میری!
بہت دعائیں۔