میں نے درد سے پیار کیا ہے
تجھ جیسوں کو یار کیا ہے
قہقہہ سب کے سامنے مارا
گریہ پسِ دیوار کیا ہے
آہ بھری ہے ہولے ہولے
تیر جگر کے پار کیا ہے
دنیا ہی کمبخت ہے جس نے
دنیا سے بیزار کیا ہے
مٹی کی اوقات نہیں تھی
فتنہ وہ بیدار کیا ہے
کب اقرار کیا ہے تم نے
تم نے جب اقرار کیا ہے
جتنی بیت گئی ہے ہم پر
اتنا کب اظہار کیا ہے
جو بھی ہوا ہے ٹھیک ہوا ہے
جو بھی کیا بیکار کیا ہے
ہم سے تو ہو ہی کیا سکتا تھا
تم نے کیا سرکار کیا ہے
راحیلؔ اس نے خدا ہو کر بھی
ہم سے کاروبار کیا ہے