وقت کا نوحہ نہیں حالات کا ماتم نہیں
غم تو یہ ہے آدمی کو آدمی کا غم نہیں
پانی اتنا ہے کہ برجوں میں ستارے بجھ گئے
خشک سالی وہ کہ آنکھیں بھی کسی کی نم نہیں
آئے گا سیلاب کیوں گھر تک امیرِ شہر کے
ڈوب مرنے کے لیے پہلے ہی پانی کم نہیں
وقت کم تھا چارہ گر نے زخمیوں سے کہہ دیا
وقت کے مرہم سے اچھا کوئی بھی مرہم نہیں
اے خدا تقدیر ہم سے لڑ پڑی ہے روک اسے
اے خدا تدبیر کے ہاتھوں میں اتنا دم نہیں
ہم غزل گوؤں کو شہر آشوب کہنے پڑ گئے
حسن کا عالم نہیں اب عشق کا موسم نہیں
شعبدے اہلِ وطن کے دیکھتا راحیلؔ کوئی
سر سے اونچا ہو گیا اور پانی پانی ہم نہیں