تم سرِ کوہ طور ہی اچھے
نور یہ ہے تو دور ہی اچھے
عاصی ان کے حضور ہی اچھے
عظمتوں سے قصور ہی اچھے
نکتے بین السطور ہی اچھے
جو ہوں وہ بے شعور ہی اچھے
اچھے اچھے ضرور ہی اچھے
ہم میں فسق و فجور ہی اچھے
یا تو جائے نہ قبر میں انسان
ورنہ اہلِ قبور ہی اچھے
ہیں جو اچھے تو کس لیے ہیں آپ
نیتوں میں فتور ہی اچھے
دل میاں اب قرار آیا ہے
آپ زخموں سے چور ہی اچھے
زندگی جھونکنی نہیں پڑتی
اس شکم سے تنور ہی اچھے
زندگی کو بھی جانتے ہیں ہم
عاشقی کے امور ہی اچھے
ہمیں روکیں نہ نازنینوں سے
شیخ مشتاقِ حور ہی اچھے
اہلِ دل ناصبور ہیں اچھا
اہلِ دل ناصبور ہی اچھے
بے سرا سچ ہے فلسفہ راحیلؔ
نغمہ ہائے زبور ہی اچھے