افسانے تو اچھے ہیں حقیقت نہیں اچھی
میں کر کے یہ کہتا ہوں محبت نہیں اچھی
اچھا نہیں لگتا کہ کچھ اچھا نہیں لگتا
آپ اچھے ہیں پر آپ کی عادت نہیں اچھی
جلتے ہوں اگر یار تو محفل سے نکل جاؤ
جگنو کے لیے شمع کی صحبت نہیں اچھی
اچھا کسے کہتے ہیں یہ اچھوں کو ہے معلوم
اوباش سے پوچھو تو شرافت نہیں اچھی
نادار کی صورت سے کسے مسئلہ ہو گا
کمبخت کے حالات کی صورت نہیں اچھی
تھی یاد نہ کرنے کی مسیحا کو شکایت
اچھا ہے کہ بیمار کی حالت نہیں اچھی
کہنے کو بہت کچھ ہے مگر کیا ہے کہ راحیلؔ
غزلوں میں غزالوں کی شکایت نہیں اچھی