حد ہی نہیں ہے ورنہ حد سے گزر نہ جائیں
ہم عشق میں جئیں کیوں کچھ کھا کے مر نہ جائیں
اہلِ حرم ہمارے ایمان پر نہ جائیں
کاغذ کے بیل بوٹے خوشبو سے ڈر نہ جائیں
خلقت کی موت کے ہیں لاکھوں بہانے لیکن
یہ تہمتیں بھی ظالم تیرے ہی سر نہ جائیں
آنکھیں تو سیپیاں ہیں کیا آب سیپیوں کی
اے دیکھنا مگر تم موتی بکھر نہ جائیں
وہ بھی کوئی گلی ہے دل والے جس گلی میں
دل تھام کر نہ آئیں دل چھوڑ کر نہ جائیں
جنت بھی ہے جہاں میں دوزخ بھی ہے جہاں میں
زاہد اِدھر نہ آئیں عاشق اُدھر نہ جائیں
سانسوں کا بوجھ اٹھانا عشاق کو بہت ہے
ان راستوں پہ لے کر زادِ سفر نہ جائیں
راحیلؔ معجزے کی اتنی سی ہے حقیقت
وہ بار بار آئیں واپس مگر نہ جائیں