یوں تو ہنستے ہوئے لڑکوں کو بھی غم ہوتا ہے
کچی عمروں میں مگر تجربہ کم ہوتا ہے
سگرٹیں چائے دھواں رات گئے تک بحثیں
اور کوئی پھول سا آنچل کہیں نم ہوتا ہے
اس طرح روز ہم اک خط اسے لکھ دیتے ہیں
کہ نہ کاغذ نہ سیاہی نہ قلم ہوتا ہے
ایک اک لفظ تمھارا تمھیں معلوم نہیں
وقت کے کھردرے کاغذ پہ رقم ہوتا ہے
وقت ہر ظلم تمھارا تمھیں لوٹا دے گا
وقت کے پاس کہاں رحم و کرم ہوتا ہے
فاصلہ عزت و رسوائی میں والیؔ صاحب
سنتے آئے ہیں کہ بس چند قدم ہوتا ہے