نہ پوچھو اے خضر حرص و ہوا کی
گھٹا کی زندگی حسرت بڑھا کی
نہ کچھ تیزی چلی بادِ صبا کی
بگڑنے میں بھی زلف اس کی بنا کی
وہ سوتے بے حجابانہ رہے رات
نگاہِ شوق کام اپنا کیا کی
بنا کر خاک کا پتلا کیا خاک
سوارت کی مری مٹی تو کیا کی
وصالِ یار سے دونا ہوا عشق
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
ہماری چشمِ گریاں سے مقابل
جو پن چکی ہوئی پانی بھرا کی
وہ تر دامن ہوں میخواروں میں جس کی
ہوائے مے کشی باندھا ہوا کی