رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
ناخن خدا نہ دے تجھے اے پنجۂ جنوں
دے گا تمام عقل کے بخیے ادھیڑ تو
اس صیدِ مضطرب کو تحمل سے ذبح کر
دامان و آستیں نہ لہو میں لتھیڑ تو
چھٹتا ہے کون مر کے گرفتارِ دامِ زلف
تربت پہ اس کی جال کا پائے گا پیڑ تو
اے زاہدِ دو رنگ نہ پیر آپ کو بنا
مانندِ صبحِ کاذب ابھی ہے ادھیڑ تو
یہ تنگنائے دہر نہیں منزلِ فراغ
غافل نہ پاؤں حرص کے پھیلا سکیڑ تو
عمرِ رواں کا توسن چالاک اس لیے
تجھ کو دیا کہ جلد کرے یاں سے ایڑ تو
آوارگی سے کوئے محبت کی ہاتھ اٹھا
اے ذوقؔ یہ اٹھا نہ سکے گا کھکھیڑ تو