ابھی کہوں تو کریں لوگ شرمسار مجھے
کہ کس کے وعدے پر اتنا ہے انتظار مجھے
ہزار شکر کہ اس کی گلی میں چھوڑ گئی
نسیم جان کے اک ناتواں غبار مجھے
یہی گمان یہی رشک ہے اگر تو کبھی
نہ کوئی دوست ملے گا نہ کوئی یار مجھے
جفائے شحنہ ہے منظور پر نہیں منظور
خلافِ شیوۂ رندانِ بادہ خوار مجھے
جو بادشاہ بلائے تو میں نہیں جاتا
کہ ان دنوں میں کسی کا ہے انتظار مجھے
جو شورشیں نہ مچاتا اسیر کیوں ہوتا
خراب تو نے کیا جلوۂ بہار مجھے
عدو کے ساتھ بھی آخر جفا ہوئی آغاز
کسی طرح بھی نہ رکھا امیدوار مجھے
رفیق ہیں متردد رقیب ہیں فارغ
عزیز رکھتی ہے وہ چشمِ فتنہ بار مجھے
لیا ہی تھا نگہِ پر فسوں نے دل لیکن
کیا ادائے تغافل نے ہوشیار مجھے
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
بڑے فساد اٹھیں شیفتہؔ خدا نہ کرے
کہ ان کی بزم میں ہو دخل و اختیار مجھے