فرصتِ زندگی بہت کم ہے
مغتنم ہے یہ دید جو دم ہے
گو سراپا ہے آب آئینہ
اپنی آنکھوں میں چشمِ بے نم ہے
دلِ پر چاک ہے گلِ خنداں
شادی و غم جہاں میں توأم ہے
دین و دنیا میں تو ہی ظاہر ہے
دونوں عالم کا ایک عالم ہے
خیر و شر کو سمجھ کہ وہ ہی زہر
سانپ کی زیست ہے تجھے سم ہے
مت عبادت پہ بھولیو زاہد
سب طفیلِ گناہِ آدم ہے
سلطنت پر نہیں ہے کچھ موقوف
جس کے ہاتھ آوے جام سو جم ہے
اپنے نزدیک باغ میں تجھ بن
جو شجر ہے سو نخلِ ماتم ہے
نہ ملیں گے اگر کہے گا تو
تیری خاطر ہمیں مقدم ہے
دلِ عاشق کی بے قراری کو
وہ ہی سمجھے ہے جو کہ محرم ہے
دردؔ کا حال کچھ نہ پوچھو تم
وہ ہی رونا ہے نت وہی غم ہے