جھگڑا دانے پانی کا ہے دام و قفس کی بات نہیں
اپنے بس کی بات نہیں صیاد کے بس کی بات نہیں
جان سے پیارے یار ہمارے قیدِ وفا سے چھوٹ گئے
سارے رشتے ٹوٹ گئے اک تارِ نفس کی بات نہیں
تیرا پھولوں کا بستر بھی راہگزارِ سیل میں ہے
آقا اب یہ بندے ہی کے خار و خس کی بات نہیں
دونوں ہجر میں رو دیتے ہیں دونوں وصل کے طالب ہیں
حسن بھلا کیسے پہچانے عشق ہوس کی بات نہیں
کارِ مغاں یہ قند کا شربت بیچنے والے کیا جانیں
تلخی و مستی بھی ہے غزل میںخالی رس کی بات نہیں
تشکیل و تکمیلِ فن میں جو بھی حفیظؔ کا حصہ ہے
نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں